غزہ بحران: امدادی کشتی پر اسرائیلی قبضہ، بھوک اور بمباری سے 198 مزید ہلاکتیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT
اسرائیلی فوج نے غزہ کی بھوک زدہ آبادی تک امداد پہنچانے والی اٹلی کی کشتی ’حنظلہ‘ پر بحیرہ روم میں زبردستی قبضہ کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل نے امدادی کشتی فریڈم فلوٹیلا ’میڈلین‘ کو قبضے میں لے لیا
فریڈم فلوٹیلا کولیشن کی لائیو اسٹریم ویڈیو میں دیکھا گیا کہ کم از کم 6 اسرائیلی فوجیوں نے نہتے بین الاقوامی کارکنوں کو اسلحے کے زور پر ہٹاتے ہوئے کشتی پر چڑھائی کی، جہاں کارکن لائف جیکٹس پہنے بیٹھے تھے۔
یہ 40 دنوں میں دوسری بار ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی جانب جانے والی امدادی کشتی کو روکا ہے۔
دوسری طرف غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں 71 فلسطینی شہید ہوئے جن میں الجزیرہ کے مطابق 42 وہ افراد شامل ہیں جو خوراک اور ادویات کی تقسیم کا انتظار کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ دنیا کا ’سب سے بھوکا علاقہ‘ قرار، اقوام متحدہ کا انتباہ
بھوک اور بیماریوں سے مزید 127 اموات ریکارڈ کی گئیں جن میں 85 شیر خوار اور چھوٹے بچے شامل ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق غزہ کی 38 فیصد آبادی شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔
بین الاقوامی سطح پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ پر امدادی پابندیاں فوری اٹھائے، جبکہ یورپ بھر میں مصر کے سفارت خانوں کے باہر اسرائیلی مظالم کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے۔
یو ایس ایڈ نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ حماس کی جانب سے امریکی امداد کی چوری کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔
اب تک اسرائیلی حملوں میں 59 ہزار 700 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ 44 ہزار 477 تک پہنچ گئی ہے۔
جون 2025 سے اب تک بھوک اور قحط سے 127 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا حنظلہ غزہ فریڈم فلوٹیلا فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا حنظلہ فریڈم فلوٹیلا فلسطین
پڑھیں:
بھوک سے غزہ کے مکین چلتی پھرتی لاشیں، لازارینی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 جولائی 2025ء) فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگ زندہ ہیں نہ مردہ بلکہ وہ چلتی پھرتی لاشیں بنتے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب بچوں میں غذائی قلت بڑھ جائے، اس پر قابو پانے کے طریقے ناکام ہو جائیں اور خوراک و طبی نگہداشت تک رسائی ختم ہو جائے تو قحط خاموشی سے اپنے پنجے گاڑ لیتا ہے۔
غزہ میں ایسی ہی صورتحال جنم لے چکی ہے جہاں بچوں اور بڑوں سبھی کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ Tweet URLانہوں نے بتایا ہے کہ علاقے میں 20 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جبکہ انسانی امداد کی فراہمی کو کڑی پابندیوں اور مسائل کا سامنا ہے۔
(جاری ہے)
بھوک سے نڈھال اور کمزور بچوں کو ہنگامی بنیاد پر علاج کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے درکار وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ غزہ کو تقریباً دو سال سے متواتر بمباری کا سامنا ہے جس میں ہزاروں لوگ ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں لیکن اب بھوک بھی اسی قدر خوفناک قاتل بن چکی ہے۔
جو لوگ گولیوں اور بموں سے بچتے آئے ہیں انہیں بھوک سے ہلاکت کا سنگین خطرہ ہے۔بھوک سے 100 ہلاکتیںاطلاعات کے مطابق، غزہ میں اب تک کم از کم 100 لوگ بھوک سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ 'ڈبلیو ایچ او' نے غذائی قلت کے نتیجے میں پانچ سال سے کم عمر کے کم از کم 21 بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بتایا ہے۔
مارچ کے اوائل اور مئی کے وسط تک 80 یوم میں غزہ ہر طرح کی امداد سے محروم رہا جس کے باعث علاقے کی آبادی قحط کے دھانے پر پہنچ گئی ہے۔
اگرچہ مئی میں امداد کی فراہمی کسی حد تک بحال ہو گئی تھی لیکن اس کی مقدار ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ علاقے میں امدادی خوراک کی وقفوں سے فراہمی جاری ہے لیکن یہ 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی بقا کے لیے کافی نہیں۔
خوراک کے لیے جان کا خطرہ'ڈبلیو ایچ او' کے سربراہ نے بتایا ہے کہ 27 مئی اور 21 جولائی کے درمیان 1,000 سے زیادہ لوگ خوراک کے حصول کی کوشش میں فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان میں بیشتر ہلاکتیں امریکہ اور اسرائیل کے زیرانتظام غزہ امدادی فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے مراکز پر ہوئیں جس کے بارے میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ خوراک کی تقسیم کا یہ اقدام بین الاقوامی امدادی قانون کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔والدین بتاتے ہیں کہ ان کے بچے بھوک سے بلکتے سو جاتے ہیں۔ خوراک تقسیم کرنے کے مراکز پر لوگوں کو جان کا خطرہ رہتا ہے۔
ہسپتال بھی حملوں سے محفوظ نہیں رہے جنہیں متواتر بمباری کا سامنا ہے جبکہ بیشتر طبی مراکز غیرفعال ہو چکے ہیں۔سوموار کو اسرائیل کی فوج 'ڈبلیو ایچ او' کی عمارت میں داخل ہو گئی جہاں مرد عملے کو برہنہ کر کے ان کی تلاشی لی گئی جبکہ خواتین اور بچوں کو وہاں سے پیدل انخلا پر مجبور کیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہےکہ ان حالات کے باوجود اقوام متحدہ کے ادارے غزہ میں رہ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
امدادی نظام کا انہدامفلپ لازارینی نے بتایا ہے کہ غزہ میں امداد کی قلت عام شہریوں کے علاوہ امدادی کارکنوں کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ 'انروا' کے کارکن روزانہ معمولی مقدار میں دال پر گزارا کر رہے ہیں اور ان میں بہت سے لوگ کام کے دوران بھوک سے نڈھال اور بے ہوش ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی نگہداشت کرنے والوں کو بھی کھانا میسر نہ ہو تو اس کا مطلب پورے امدادی نظام کا انہدام ہے۔
'انروا' کے 6,000 ٹرک خوراک اور طبی سازوسامان لے کر اردن اور مصر میں تیار کھڑے ہیں جنہیں غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار ہے۔ موجودہ حالات میں لوگوں کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے اور زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر امداد کی بلارکاوٹ فراہمی ضروری ہے۔