دو ملک نہیں صرف فلسطین نامی ایک ملک ہونا چاہیئے، ذوالفقار بھٹو جونیئر
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو شہید کے پوتے نے کہا کہ بلوچستان میں ہونے والے ظلم کی مذمت کرتے ہیں، گلگت بلتستان میں بھی سیاسی قیدی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو شہید کے پوتے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے کہا ہے کہ دو ملک نہیں بلکہ صرف فلسطین کے نام سے ایک ملک ہونا چاہیئے، مجھے اسٹیبلشمنٹ کی کوئی سپورٹ نہیں ہے، میں خود اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کر رہا ہوں، میری ہمشیرہ فاطمہ بھٹو آرہی ہیں، ہم ان کے ساتھ نئی پارٹی کا اعلان کریں گے۔ کراچی میں اپنی رہائش گاہ 70 کلفٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہائی جیک ہوچکی ہے، ہم زرداری لیگ کو مسترد کرتے ہیں، یہ وہ پیپلز پارٹی نہیں جو ذوالفقار علی بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو شہید کی تھی، ہم پی پی پی کے ساتھ کبھی بھی نہیں کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی پالیسی کے ساتھ ہر کوئی نہیں ہے، میں لیاری سے الیکشن لڑوں گا۔ انہوں نے کہا کہ لیاری کے لوگ اور عوام مشکل میں ہیں، پی پی پی کی صوبائی حکومت متاثرین کو گھر فراہم کرے، یہ لوگ بھیگ نہیں مانگیں گے۔
ذوالفقار بھٹو جونیئر نے کہا کہ جب میں نے لاہور میں کسانوں کے ساتھ پریس کانفرنس کی تھی تو اپنی پارٹی کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پارٹی کے نام پر غور کر رہے ہیں، الیکشن میں اگر موقع ملا تو لیاری سے الیکشن لڑوں گا، لیاری کے لوگوں نے پی پی پی کو ووٹ دیا، لیکن آج کے لیاری کی صورتحال دیکھیں، ایل ڈی اے کی اسکیم 42 میں لیاری متاثرین کو جگہ دینی چاہیئے، اگر آپ شاہراہ بھٹو بنا سکتے ہیں تو لیاری والوں کو گھر کیوں نہیں دے سکتے، شاہراہ بھٹو کراچی کے عوام کے منہ پر طمانچہ اور فضول پروجیکٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ کی کوئی سپورٹ نہیں، اسٹبلشمنٹ نے ہمارے خاندان کے ساتھ بہت زیادتی کی، یہ جھوٹ ہے کہ مجھے اسٹبلشمنٹ کی کوئی سپورٹ ہے، میں خود اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کر رہا ہوں، میری ہمشیرہ فاطمہ بھٹو آرہی ہے، ہم ان کے ساتھ پارٹی کا اعلان کریں گے، ہمارا یوتھ ونگ ہمارے ساتھ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہر وڈیرہ ایک جیسا نہیں ہے، میں بھی ایک وڈیرہ ہوں اور آپ کے سامنے ہوں، موجودہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں، ہم کو آئین کا تحفظ کرنا ہے، آئین کو اصل شکل میں بحال ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ میں وطن پرست اور سندھ پرست ہوں، خود مختاری ہونی چاہیئے، غزہ ایک اہم فارن پالیسی معاملہ ہے، دو ملک نہیں بلکہ صرف فلسطین کے نام سے ایک ملک ہونا چاہیئے، ہم شہید ذوالفقار اور مرتضیٰ بھٹو شہید کے فلسفہ سے الگ نہیں ہو رہے، بلوچستان میں ہونے والے ظلم کی مذمت کرتے ہیں، گلگت بلتستان میں بھی سیاسی قیدی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب نے لیاری کیلئے ایک ماسٹر پلان بنایا تھا، لیاری ان کے دل کے قریب تھا، لیاری پیرس بننے والا تھا، ہم پیرس کی کاپی تو نہیں کریں گے، لیکن اسے خوبصورت بنائیں گے، زرداری لیگ اور پی ٹی آئی کے نمائندے اقتدار میں آکر کھا پی کر چلے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کو پتہ ہے کون پاکستان چلا رہا ہے، ہم نوجوانوں کی طاقت سے اس نظام کو بدل سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہائی جیک ہوچکی ہے، ہم زرداری لیگ کو مسترد کرتے ہیں، یہ پیپلز پارٹی وہ نہیں، جو ذوالفقار علی بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو شہید کی تھی، زرداری لیگ میں تصور سے بھی زائد کرپشن ہو رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے کہا کہ ہم نے اردو اسپیکنگ کمیونٹی کے ساتھ بھی ملاقاتیں کی ہیں، وہ بھی اس ملک کا حصہ ہیں، ہم نظام کے مخالف ہیں، کسی پارٹی کے مخالف نہیں، میں سندھ پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، نون لیگ اور زرداری لیگ امیروں کی سیاست کر رہے ہیں، غریبوں کی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی اسٹیبلشمنٹ کیلئے کام کر رہی ہے، پی پی پی نے میر مرتضیٰ بھٹو کے راستے میں بہت رکاوٹیں ڈالیں، ہم پی پی پی کے ساتھ کبھی بھی نہیں کام کریں گے، پیپلز پارٹی ختم ہوچکی ہے، صورتحال ایسی ہی رہی تو پاکستان پیپلز پارٹی کا مستقبل کچھ نہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ذوالفقار علی بھٹو انہوں نے کہا کہ بھٹو جونیئر پیپلز پارٹی ہونا چاہیئے زرداری لیگ بھٹو شہید پارٹی کا کرتے ہیں پی پی پی کریں گے کے ساتھ
پڑھیں:
وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں (ن) لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست
پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ایک اعلیٰ سطحی وفد، جس کی قیادت وزیراعظم شہباز شریف نے کی، نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات کی اور مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے پی پی پی کی حمایت کی درخواست کی۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملاقات کی تفصیلات اپنے سرکاری ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر شیئر کیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملاقات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے وفد نے آئینی ترمیم سے متعلق تجاویز پیش کیں، جن میں کئی اہم اور حساس نکات شامل ہیں۔
بلاول بھٹو کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کا وفد صدر آصف علی زرداری اور مجھ سے ملا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں تعاون کی درخواست کی۔ مجوزہ ترمیم میں درج تجاویز کے مطابق:
آئینی عدالت (Constitutional Court) کا قیام،
ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی،
ججوں کے تبادلے کا اختیار،
این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ،
آرٹیکل 243 میں ترمیم،
تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے معاملات وفاق کو واپس دینا،
اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کی تقرری پر جاری ڈیڈ لاک ختم کرنا شامل ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ ان تجاویز پر غور کے لیے پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ (CEC) کا اجلاس 6 نومبر کو طلب کیا گیا ہے، جو صدر آصف علی زرداری کے دوحہ سے واپسی پر منعقد ہوگا۔ اجلاس میں پارٹی کی حتمی پالیسی طے کی جائے گی۔
PMLN delegation headed by PM @CMShehbaz called on @AAliZardari & myself. Requested PPPs support in passing 27th amendment. Proposal includes; setting up Constitutional court, executive magistrates, transfer of judges, removal of protection of provincial share in NFC, amending…
— Bilawal Bhutto Zardari (@BBhuttoZardari) November 3, 2025
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک میں آئینی اصلاحات اور ادارہ جاتی اختیارات کے موضوع پر ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔
یاد رہے کہ 31 اکتوبر کو اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے نے کہا تھا کہ اگر 27 ویں آئینی ترمیم کی ضرورت ہو تو فوراً کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے نظام پر کھل کر بات ہونی چاہیے اور انہیں آئینی تحفظ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی انتخابات مقررہ مدت میں لازمی ہوں۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسپیکر نے کہا کہ منگل کے روز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں مقامی حکومتوں کے قیام سے متعلق متفقہ قرارداد منظور کی گئی، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی کاکس میں 80 سے زائد اراکین شامل ہیں، جن میں سے 35 اپوزیشن کے ہیں، جبکہ احمد اقبال چوہدری، رانا محمد ارشد اور علی حیدر گیلانی نے اہم کردار ادا کیا۔
ملک احمد خان نے کہا کہ قرارداد میں سفارش کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 140-اے میں مقامی حکومتوں کے قیام کے وقت کا تعین کرے، اور مقامی حکومتوں کو مالی و انتظامی اختیارات دیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ 25 کروڑ لوگوں کا ملک 15 سو نمائندوں سے نہیں چل سکتا، اگر عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل نہ ہوئے تو جمہوریت پر عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔
اسپیکر نے کہا کہ ملکی تاریخ کے 77 برس میں قریباً 50 سال مقامی حکومتیں موجود ہی نہیں رہیں، جس سے عوامی مسائل حل ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر صفائی، قبرستان اور پانی جیسے مسائل حل نہ ہوں تو عوام کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتا ہے۔
ملک محمد احمد خان نے توقع ظاہر کی کہ پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور پی ٹی آئی بھی آرٹیکل 140-اے کی اہمیت کو سمجھیں گی۔
مقامی حکومتوں سے متعلق متفقہ منظور کی گئی قرارداد کے اہم نکات؟پنجاب اسمبلی نے مقامی حکومتوں کو آئینی قرار دینے کے لیے قرارداد وفاق کو ارسال کر دی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے آئین میں نیا باب شامل کیا جائے۔
مزید پڑھیں:الیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا
پنجاب اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور ہوئی قرارداد سیکریٹری قومی اسمبلی اور سیکرہٹری سینیٹ کو ارسال کی گئی، قرارداد احمد اقبال اور علی حیدر گیلانی نے متفقہ طور پر پیش کی تھی، صوبائی ایوان نے آئین کے آرٹیکل 140 A – میں ترمیم کی تجویز دے دی۔
قرار داد کے متن کے مطابق آئین میں ایک نیا باب مقامی حکومتوں کے نام سے شامل کیا جائے، مقامی حکومتوں کی مدت اور ذمہ داریوں کی آئینی وضاحت کی سفارش کی گئی، مقامی حکومتوں کے انتخابات 90 روز میں کرانے کی شرط تجویز کی گئی۔
متن کے مطابق منتخب نمائندوں کو 21 دن میں اجلاس منعقد کرنے کا پابند کیا جائے، اٹھارویں ترمیم کے بعد پنجاب میں منتخب بلدیاتی ادارے صرف دو سال چل سکے، با اختیار، با وسائل بلدیاتی نظام کا قیام ناگزیر ہے، بروقت بلدیاتی انتخابات اور مؤثر سروس ڈیلیوری ضروری ہے۔
قرارداد میں وفاق سے آرٹیکل 140A- میں فوری ترمیم کی درخواست کی گئی، سپریم کورٹ نے مقامی حکومتوں کو جمہوریت کا بنیادی حصہ قرار دیا، پاکستان میں بلدیاتی نظام کا تسلسل نہیں ہے، بلدیاتی قوانین میں بار بار تبدیلیاں اداروں کی کمزوری کا سبب ہیں۔
متن میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دینے کی مثالیں موجود ہیں، چارٹر سی پی اے نے بھی مقامی حکومتوں کو با اختیار بنانا لازم قرار دیا تھا، الیکشن کمیشن نے دسمبر 2022 میں آرٹیکل 140-A میں ترمیم کی سفارش کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر یہ ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کرانا مشکل ہوگا، اس لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے یہ براہِ راست سیاسی رابطہ کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں