سعودی عرب کے کثیرالاشاعت اخبار نے دعوی کیا ہے کہ غزہ اور خطے میں اسرائیل کے اہداف اس سے کہیں زیادہ وسیع ہیں جن کا اعلان کیا گیا ہے اور اسرائیل ہر گز روایتی معنی میں عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات کے درپے نہیں بلکہ ان پر مکمل قبضہ چاہتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا مسئلہ زور شور سے جاری ہے اور غاصب صیہونی رژیم دیگر عرب ممالک کو بھی ابراہیم معاہدے میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی اثنا میں سعودی عرب کے معروف اخبار "عکاظ" نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کا اصل مقصد عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنا نہیں بلکہ ان پر اس طرح سے قبضہ جمانا ہے کہ حتی ان کے اندرونی معاملات میں بھی بھرپور مداخلت کر سکے۔ اس اخبار میں شائع ہونے والے مقالے میں آیا ہے: "غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کا ایک اہم ہدف اپنی کھوئی ہوئی ڈیٹرنس طاقت بحال کرنا ہے۔ اسی طرح اس کے دیگر اہداف میں اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی، فلسطین میں مزاحمت کا خاتمہ، غزہ پر دوبارہ قبضہ اور غزہ کے فلسطینیوں کو جلاوطن کرنا شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اسٹریٹجک ڈیٹرنس کی بحالی اور اپنی مرضی کے زمینی حقائق خطے کے تمام ممالک، خاص طور پر ہمسایہ عرب ممالک پر تھونپ دینا چاہتا ہے۔" اس مقالے میں مزید آیا ہے: "اسرائیل طاقتور ڈیٹرنس کے عناصر کی بنیاد پر ایک اسٹریٹجک حقیقت دوسروں پر تحمیل کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد صرف یہ نہیں کہ مدمقابل کو سیاسی طور اپنے مقابلے میں آنے سے روکے بلکہ وہ خطے کے تمام ممالک کو اپنے سامنے پوری طرح جھک جانے پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔"
 
سعودی اخبار عکاظ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ان دنوں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا مسئلہ غزہ جنگ کے بعد اہم ترین ایشوز کے طور پر زیر بحث ہے۔ اسرائیل کی ڈیٹرنس کی ڈاکٹرائن خطے کے ممالک سے برابری اور پرامن بقائے باہمی پر استوار نہیں بلکہ مدمقابل پر جبری انحصار مسلط کر دینے پر استوار ہے۔ اسرائیل ایسی صورتحال چاہتا ہے جس میں وہ جب چاہے خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت کر سکے۔ یوں خطے کے ممالک حتی اپنی داخلہ سیاست میں بھی اسرائیل کی مرضی سے چلنے پر مجبور ہوں گے اور انہیں آزادانہ فیصلے کرنے کا حق نہیں ہو گا۔ اخبار اس بارے میں لکھتا ہے: "اسرائیل اپنے اور خطے کے دیگر ممالک کے درمیان یکطرفہ اور غیر متوازن طاقت کا توازن قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ حکمت عملی عرب ممالک سے روایتی دوستانہ تعلق استوار کرنے سے ماوراء ہے اور مدمقابل کو مکمل طور پر اپنے سامنے تسلیم کرنے پر استوار ہے۔ اسرائیل اس مقصد کے حصول کے لیے سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے بھاری قیمت چکانے پر بھی تیار ہے۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اس کا مقصد 7 اکتوبر جیسے واقعات دوبارہ انجام پانے سے روکنا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور اس کا مقصد خطے کے تمام ممالک کی جانب سے اسرائیل پر وار کرنے کی صلاحیت ختم کر دینا ہے۔"
 
سعودی اخبار عکاظ لکھتا ہے: "درحقیقت اسرائیل کا مقصد یہ نہیں کہ خطے کے ممالک اس کا وجود تسلیم کر لیں یا اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لے آئیں کیونکہ مختلف ممالک کے باہمی تعلقات سے متعلق یہ روایتی فارمولے اسرائیل کے لیے بے معنی ہیں چونکہ وہ خود بھی ایک روایتی ریاست نہیں ہے۔ دراصل جو چیز اسرائیل کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ خطے میں ایک برتر طاقت کے طور پر اپنے جبری وجود کو برقرار رکھنا اور ایک طاقتور ڈیٹرنس قائم کرنا ہے تاکہ طاقت کے بل بوتے پر ہمسایہ ممالک کو اپنا مطیع بنا سکے۔ یہ حکمت عملی صرف فلسطین کی حدود تک محدود نہیں ہے بلکہ اسرائیل تمام عرب سرزمینوں میں یہ حکمت عملی لاگو کرنے کے درپے ہے۔" اس مقالے کے آخر میں آیا ہے: "اسرائیل کی یہ حکمت عملی درحقیقت وہی ہے جو ہٹلر نے مرکزی، مغربی اور جنوبی یورپی ممالک کے خلاف بروئے کار لائی تھی اور اس کے ذریعے ان پر قابض ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد اس نے مشرق کی جانب پسپائی اختیار کی تاکہ سوویت یونین اور مشرق اور مغرب کے درمیان واقع یورل پہاڑوں پر اپنا تسلط قائم کرے۔ یہ ایک تسلط پسندانہ حکمت عملی ہے جس کی قیمت خطے میں عدم استحکام اور حتی عالمی امن کو خطرے کی صورت میں چکانی پڑ سکتی ہے۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: خطے کے ممالک یہ حکمت عملی عرب ممالک سے اسرائیل کے اسرائیل کا نہیں بلکہ کے درمیان ممالک کے چاہتا ہے کا مقصد اور اس ہے اور

پڑھیں:

دعا ہے کہ پاکستان اور سعودیہ کی دوستی مزید مضبوط ہو اور نئی بلندیوں کو چھوئے: وزیراعظم شہباز شریف

---فائل فوٹو 

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے سعودی عرب پہنچنے پر سعودی فضائیہ کے ایف-15 لڑاکا طیاروں کی جانب سے پرتپاک استبال کرنے پر ولی عہد، محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ   انہیں سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے دیے گئے والہانہ استقبال نے نہایت متاثر کیا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اِن کے طیارے کو سعودی شاہی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے غیر معمولی انداز میں اسکواٹ کیا جبکہ سعودی افواج کے چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ 


وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق یہ سب کچھ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قائم دیرینہ محبت اور باہمی اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔

انہوں نے اپنے ایکس پیغام میں مزید  بتایا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان سے نہایت خوشگوار اور بامقصد ملاقات ہوئی، جس میں خطے کے حالات اور دو طرفہ تعلقات کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ 

وزیرِ اعظم شہباز شریف کا سعودی طیاروں نے استقبال کیا، 21 توپوں کی سلامی

وزیرِ اعظم شہباز شریف سعودی عرب کے دورے پر ریاض پہنچ گئے۔

وزیراعظم نے سعودی ولی عہد کی قیادت اور مسلم دنیا کے لیے اِن کے وژن کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ پاکستان کی حمایت اور دو طرفہ سرمایہ کاری، تجارت اور کاروباری تعلقات کو فروغ دینے میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔

وزیراعظم نے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’اِن کی دعا ہے پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی مزید مضبوط ہو اور نئی بلندیوں کو چھوئے، انشاء اللّٰہ۔‘

متعلقہ مضامین

  • دعا ہے کہ پاکستان اور سعودیہ کی دوستی مزید مضبوط ہو اور نئی بلندیوں کو چھوئے: وزیراعظم شہباز شریف
  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں، مقصد عمران خان کو تنہا کرنا ہے، علیمہ خان
  • ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں مقصد عمران خان کو آئسولیٹ کرنا ہے، علیمہ خان
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • بے حیائی پر مبنی پروگرامات کی تشہیر قابل مذمت ، ان کا مقصد ن نوجوان نسل کو گمراہ کرنا ہے‘ جاوید قصوری
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  • اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان، عملی منشور
  • اسرائیلی جارحیت کو کسی بھی بہانے جواز فراہم کرنا ناقابل قبول ہے؛ اعلامیہ قطر اجلاس