اسرائیل کا مقصد عرب ممالک سے دوستی نہیں بلکہ ان پر قبضہ کرنا ہے، سعودی اخبار
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
سعودی عرب کے کثیرالاشاعت اخبار نے دعوی کیا ہے کہ غزہ اور خطے میں اسرائیل کے اہداف اس سے کہیں زیادہ وسیع ہیں جن کا اعلان کیا گیا ہے اور اسرائیل ہر گز روایتی معنی میں عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات کے درپے نہیں بلکہ ان پر مکمل قبضہ چاہتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا مسئلہ زور شور سے جاری ہے اور غاصب صیہونی رژیم دیگر عرب ممالک کو بھی ابراہیم معاہدے میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی اثنا میں سعودی عرب کے معروف اخبار "عکاظ" نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کا اصل مقصد عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنا نہیں بلکہ ان پر اس طرح سے قبضہ جمانا ہے کہ حتی ان کے اندرونی معاملات میں بھی بھرپور مداخلت کر سکے۔ اس اخبار میں شائع ہونے والے مقالے میں آیا ہے: "غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کا ایک اہم ہدف اپنی کھوئی ہوئی ڈیٹرنس طاقت بحال کرنا ہے۔ اسی طرح اس کے دیگر اہداف میں اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی، فلسطین میں مزاحمت کا خاتمہ، غزہ پر دوبارہ قبضہ اور غزہ کے فلسطینیوں کو جلاوطن کرنا شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اسٹریٹجک ڈیٹرنس کی بحالی اور اپنی مرضی کے زمینی حقائق خطے کے تمام ممالک، خاص طور پر ہمسایہ عرب ممالک پر تھونپ دینا چاہتا ہے۔" اس مقالے میں مزید آیا ہے: "اسرائیل طاقتور ڈیٹرنس کے عناصر کی بنیاد پر ایک اسٹریٹجک حقیقت دوسروں پر تحمیل کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد صرف یہ نہیں کہ مدمقابل کو سیاسی طور اپنے مقابلے میں آنے سے روکے بلکہ وہ خطے کے تمام ممالک کو اپنے سامنے پوری طرح جھک جانے پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔"
  
 سعودی اخبار عکاظ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ان دنوں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا مسئلہ غزہ جنگ کے بعد اہم ترین ایشوز کے طور پر زیر بحث ہے۔ اسرائیل کی ڈیٹرنس کی ڈاکٹرائن خطے کے ممالک سے برابری اور پرامن بقائے باہمی پر استوار نہیں بلکہ مدمقابل پر جبری انحصار مسلط کر دینے پر استوار ہے۔ اسرائیل ایسی صورتحال چاہتا ہے جس میں وہ جب چاہے خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت کر سکے۔ یوں خطے کے ممالک حتی اپنی داخلہ سیاست میں بھی اسرائیل کی مرضی سے چلنے پر مجبور ہوں گے اور انہیں آزادانہ فیصلے کرنے کا حق نہیں ہو گا۔ اخبار اس بارے میں لکھتا ہے: "اسرائیل اپنے اور خطے کے دیگر ممالک کے درمیان یکطرفہ اور غیر متوازن طاقت کا توازن قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ حکمت عملی عرب ممالک سے روایتی دوستانہ تعلق استوار کرنے سے ماوراء ہے اور مدمقابل کو مکمل طور پر اپنے سامنے تسلیم کرنے پر استوار ہے۔ اسرائیل اس مقصد کے حصول کے لیے سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے بھاری قیمت چکانے پر بھی تیار ہے۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اس کا مقصد 7 اکتوبر جیسے واقعات دوبارہ انجام پانے سے روکنا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور اس کا مقصد خطے کے تمام ممالک کی جانب سے اسرائیل پر وار کرنے کی صلاحیت ختم کر دینا ہے۔"
  
 سعودی اخبار عکاظ لکھتا ہے: "درحقیقت اسرائیل کا مقصد یہ نہیں کہ خطے کے ممالک اس کا وجود تسلیم کر لیں یا اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لے آئیں کیونکہ مختلف ممالک کے باہمی تعلقات سے متعلق یہ روایتی فارمولے اسرائیل کے لیے بے معنی ہیں چونکہ وہ خود بھی ایک روایتی ریاست نہیں ہے۔ دراصل جو چیز اسرائیل کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ خطے میں ایک برتر طاقت کے طور پر اپنے جبری وجود کو برقرار رکھنا اور ایک طاقتور ڈیٹرنس قائم کرنا ہے تاکہ طاقت کے بل بوتے پر ہمسایہ ممالک کو اپنا مطیع بنا سکے۔ یہ حکمت عملی صرف فلسطین کی حدود تک محدود نہیں ہے بلکہ اسرائیل تمام عرب سرزمینوں میں یہ حکمت عملی لاگو کرنے کے درپے ہے۔" اس مقالے کے آخر میں آیا ہے: "اسرائیل کی یہ حکمت عملی درحقیقت وہی ہے جو ہٹلر نے مرکزی، مغربی اور جنوبی یورپی ممالک کے خلاف بروئے کار لائی تھی اور اس کے ذریعے ان پر قابض ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد اس نے مشرق کی جانب پسپائی اختیار کی تاکہ سوویت یونین اور مشرق اور مغرب کے درمیان واقع یورل پہاڑوں پر اپنا تسلط قائم کرے۔ یہ ایک تسلط پسندانہ حکمت عملی ہے جس کی قیمت خطے میں عدم استحکام اور حتی عالمی امن کو خطرے کی صورت میں چکانی پڑ سکتی ہے۔" 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خطے کے ممالک یہ حکمت عملی عرب ممالک سے اسرائیل کے اسرائیل کا نہیں بلکہ کے درمیان ممالک کے چاہتا ہے کا مقصد اور اس ہے اور
پڑھیں:
میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
مہمانِ خصوصی ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے 105ویں یومِ تاسیس کے موقع پر ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ یہ خصوصی سیمینار جامعہ کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن کی جانب سے منعقد کیا گیا، جس کا عنوان تھا "مہاتما گاندھی کا سوراج"۔ اس موقع پر "دور درشن" کے ڈائریکٹر جنرل کے ستیش نمبودری پاد نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، جبکہ پروگرام کی صدارت جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے کی۔ اس موقع پر متعدد اسکالروں اور ماہرین تعلیم نے مہاتما گاندھی کے نظریات اور ان کے سوراج کے تصور کی عصری معنویت پر اپنے خیالات پیش کئے۔ مہمانِ خصوصی کے ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے تاریخی اور تحریک انگیز ادارے میں بولنا اپنے آپ میں فخر کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوراج صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ خود نظم، اخلاقیات اور اجتماعی بہبود کا مظہر ہے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کا مشہور قول نقل کیا "دنیا میں ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے، مگر کسی کے لالچ کے لئے نہیں"۔
 
 ڈاکٹر نمبودری پاد نے بتایا کہ جب وہ نیشنل کونسل فار رورل انسٹیٹیوٹس (این سی آر آئی) میں سکریٹری جنرل تھے تو انہوں نے وردھا کا دورہ کیا جہاں انہیں گاندھیائی مفکرین نارائن دیسائی اور ڈاکٹر سدرشن ایینگر سے رہنمائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے یجروید کے منتر "وشوَ پُشٹم گرامے اَسمِن انا تورم" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "حقیقی سوراج متوازن دیہی خوشحالی اور انسانی ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے"۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں "آدرش پسندی بمقابلہ حقیقت پسندی"، "ترقی بمقابلہ اطمینان" اور "شہری زندگی بمقابلہ دیہی سادگی" کے تضادات میں گاندھی کا سوراج انسانیت کے لئے ایک اخلاقی راستہ پیش کرتا ہے۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ دنیا مہاتما گاندھی کو پڑھ کر اور سن کر جانتی ہے، لیکن میں گاندھی میں جیتا ہوں، کیونکہ میں چمپارن کا ہوں، جہاں سے گاندھی کے ستیاگرہ کی شروعات ہوئی تھی۔