Islam Times:
2025-08-03@07:56:27 GMT

ہرگز نہ بھولیں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT

ہرگز نہ بھولیں

اسلام ٹائمز: یاد رکھو، دشمن اور اسکی دشمنی ختم نہیں ہوئی اور وہ ایک زخمی سانپ کی طرح باقی ہے، جو کسی بھی وقت ڈنک مارنے کے ارادے سے دوبارہ حرکت کرسکتا ہے۔ دشمن کے زہر سے محفوظ رہنے کا حل یہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی ان سات حکمت عملیوں پر توجہ دی جائے، جو حالیہ مسلط کردہ جنگ کے شہداء کی 40ویں برسی کے موقع پر آپ کے پیغام میں جاری کی گئی تھیں۔ تحریر: مہدی فاضلی

ایران پر صیہونی حکومت کے حملے اور دوسری مسلط کردہ جنگ کے آغاز کو تقریباً پچاس دن گزر چکے ہیں اور ہمیں اس جنگ اور اس کی چھپی اور ظاہر ہونے والی جہتوں کے بارے میں اب بھی بات کرنا اور لکھنا چاہیئے۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہیئے اور  اس جنگ کے اسباق اور عبروتوں کو نہیں بھولنا چاہیئے۔ ان قیمتی کامیابیوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیئے، جو ایک ہزار سے زائد شہداء کے خون کی قیمت پر حاصل ہوئیں۔جن میں باقری، سلامی، رشید اور حاجی زادہ جیسے اعلیٰ کمانڈر اور تہرانچی، عباسی اور فقہی جیسے سائنسدان شامل ہیں۔ اس موقع پر میں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں؛ سب سے پہلے، کم از کم اس جنگ میں یہ تو واضح ہوگیا کہ امریکہ اور صیہونی حکومت یعنی ٹرمپ اور نیتن یاہو میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ دونوں تمام جرائم میں شریک ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کو الگ کرنے کی کوشش کم از کم ایک سادہ کوشش ہے، جس کا مقصد امریکہ کے خلاف ہتھیار ڈالنے اور قومی آزادی کو نظر انداز کرنے کے مساوی ہے۔

دوسرا؛ اس جنگ میں، کم از کم سکیورٹی کے حوالے سے، ہمیں "نیٹو  سکیورٹی" کا سامنا تھا، موساد اور سی آئی اے کے علاوہ، کئی یورپی اور علاقائی سکیورٹی سروسز نے صیہونی قاتل گروہ کے ساتھ تعاون کیا۔ تیسرا؛ اشارے اور بعض بیانات کی بنیاد پر صیہونی حکومت تقریباً دس سال سے ایران پر حملہ کرنے کا بڑا منصوبہ بنا رہی تھی اور یہ منصوبہ حملے سے تقریباً 8 یا 9 ماہ قبل عمل درآمد کے لیے آپریشنل تفصیلات کے ساتھ تیار کر لیا گیا تھا۔ چوتھا، اس مقام پر صیہونی حکومت اور امریکہ کے اس حملے کی وجہ ایک بار پھر ان کا غلط اندازہ تھا۔ ایک غلطی جو ان دونوں ممالک کے حکام کے ذہنوں میں اس تجویز کی تشکیل کے نتیجے میں پیدا ہوئی کہ "ایران کمزور ہوگیا ہے اور اب دباؤ کو تیز کرنا چاہیئے" اور آخرکار یہ غلط اندازہ ان دو مکار فوجی طاقتوں کی رسوائی اور ناکامی کا باعث بنا۔

سب سے اہم سبق یہ ہے کہ دشمن جب بھی ایران کو کمزور سمجھتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے دباؤ اور دھمکیوں کو کم نہیں کرتا بلکہ اپنی دھمکیوں کو بڑھانے اور ان پر زیادہ مناسب طریقے سے عمل درآمد کرنے کے مواقع کا بھی جائزہ لیتا ہے۔ لہذا وہ تمام لوگ جو دانستہ یا غفلت کے ساتھ دشمن کو ایران کے کمزور ہونے کا پیغام دیتے ہیں، جان لیں کہ وہ دشمن کو ایران پر حملہ کرنے اور دباؤ ڈالنے کی ترغیب دینے اور اکسانے والوں میں شریک ہیں۔ چوتھا; اس وحشیانہ اور بزدلانہ حملے میں دشمن کا ارادہ اور ہدف کوئی وقتی اور عارضی اقدام نہیں تھا بلکہ دشمن نے اپنے جھوٹے اور بھونڈے مفروضے کی بنیاد پر ایران کا کام تمام اور پھر مزاحمتی محاذ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے حملہ کیا تھا۔ دشمن نے "فتح تہران" کا گانا تیار کر لیا تھا اور اس کی کمپوزنگ میں مصروف تھا اور اپنے بعض خفیہ اتحادیوں کو پیغام بھیجا تھا کہ ایران کا کام اگلے 24 یا 48 گھنٹوں میں ختم ہو جائے گا۔

لیکن یہ غلط ثابت ہوا۔ دشمن کو ایک بار پھر ایک ذہین قیادت، ایک مہذب اور قابل قوم، ایک بہادر اور تیار مسلح افواج کی فولادی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس نظام اور عوام کو خداوند عالم کی مدد و نصرت نصیب ہوئی، جس نے دشمن کے ڈنگ کو بے اثر بنا دیا اور آخری بات، یاد رکھو، دشمن اور اس کی دشمنی ختم نہیں ہوئی اور وہ ایک زخمی سانپ کی طرح باقی ہے، جو کسی بھی وقت ڈنک مارنے کے ارادے سے دوبارہ حرکت کرسکتا ہے۔ دشمن کے زہر سے محفوظ رہنے کا حل یہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی ان سات حکمت عملیوں پر توجہ دی جائے، جو حالیہ مسلط کردہ جنگ کے شہداء کی 40ویں برسی کے موقع پر آپ کے پیغام میں جاری کی گئی تھیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صیہونی حکومت جنگ کے اور اس

پڑھیں:

صیہونی دشمن کا پورا انحصار امریکہ پر ہے، قائد انصاراللہ یمن

انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے غزہ پر صیہونی جارحیت کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی رژیم امریکہ کے بل بوتے پر غزہ میں جنگی جرائم اور انسان سوز مظالم انجام دینے میں مصروف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا ہے کہ غزہ کے بچے مظلومیت کی علامت بن چکے ہیں۔ انہوں نے فلسطین کے حق میں نکلنے والی عظیم ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: صیہونی دشمن نے اس ہفتے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا اعلان کیا اور اسی دوران اس نے 4 ہزار بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام بھی کیا جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی اکثریت انسانی امداد دریافت کرنے کے لیے اس مرکز میں جمع تھے جو خود اسرائیل نے ہی قائم کیا ہے۔" انصاراللہ یمن کے سربراہ نے غزہ میں آسمان کے ذریعے انسانی امداد کی فراہمی کو صیہونی دشمن کی جانب سے ایک اور دھوکہ قرار دیا اور کہا: "انسانی امداد آسمان کے ذریعے پھینکنے کا کوئی جواز نہیں پایا جاتا۔ اس کا مقصد غزہ کے فلسطینیوں کی تحقیر کرنا اور ان کا وقار مجروح کرنا ہے۔" انہوں نے کہا کہ زمینی راستے سے بہت آسانی سے غزہ میں فلسطینیوں کو انسانی امداد فراہم کی جا سکتی ہے اور اس کا انتظام بھی اقوام متحدہ کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے۔
 
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا: "کسی کو صیہونی رژیم کی جانب سے انسانی امداد کی بنیاد پر جنگ بندی یا آسمان کے ذریعے انسانی امداد کی فراہمی سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ دنیا کے مشرق اور مغرب میں اکثر ممالک نے صیہونی دشمن کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ امریکہ اور جرمنی سمیت کچھ یورپی ممالک میں فلسطین کے حامیوں کو شدید انداز میں کچلا جا رہا ہے۔" انصاراللہ یمن کے سربراہ نے مزید کہا: "صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اب ان کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا جائز نہیں رہا لیکن صرف تنقید کرنا اور بیانیے جاری کرنا بھی کافی نہیں ہے بلکہ سب کو مل کر صیہونی دشمن کے خلاف موثر اقدامات انجام دینے چاہئیں۔ اسرائیلی حکمرانوں کا انحصار پوری طرح امریکہ پر ہے اور وہ عالمی سطح پر ہونے والی تنقید اور اعتراض کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔" دوسری طرف عالمی سطح پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے اور اس نے غاصب صیہونی رژیم کو شدید پریشان کر رکھا ہے۔ صیہونی رژیم کی کوشش ہے کہ وہ ظاہری اقدامات کے ذریعے فیس سیونگ کرے لیکن اسے ناکامی کا سامنا ہے۔
 
انصاراللہ یمن کے سربراہ نے کہا: "امریکہ نے فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے جانے کے بارے میں واضح موقف اپنا رکھا ہے اور ٹرمپ وہ شخص ہے جس نے شام کی گولان ہائٹس اسرائیل کو تحفے میں دے دی ہیں، گویا اس کے باپ کی جاگیر تھی۔ امریکہ خود بھی اسرائیلی اور برطانوی حکمرانوں کی طرح صیہونزم کی ایک شاخ ہے اور اس نے بیان اور عمل کے ذریعے اس حقیقت کو ثابت کر دیا ہے۔" سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے یورپی حکمرانوں کے موقف پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: "یورپی حکمرانوں کا موقف سراب پر استوار ہے اور وہ فلسطین کا جو تصور پیش کرتے ہیں وہ فلسطینی سرزمین کا بہت ہی چھوٹے سے حصے پر مشتمل ہے اور ایک ریاست کے بنیادی عناصر سے محروم ہے۔" انہوں نے برطانیہ اور فرانس کی جانب سے "فلسطینی ریاست" تسلیم کیے جانے پر مبنی بیان کے بارے میں کہا: "فلسطین میں اسرائیلی مظالم انتہائی شدید ہیں اور مغربی دنیا اس پر شرمسار ہے کیونکہ اس کا بھروسہ ہمیشہ سے قوموں کو دھوکہ دینے پر رہا ہے۔ برطانیہ کہتا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا لیکن ساتھ ہی صیہونیوں کو مختلف قسم کا اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ فرانس اور جرمنی بھی صیہونی دشمن کے بھرپور حامی ہیں۔ یہ واضح تضاد ہے۔"

متعلقہ مضامین

  • آقا یا نظام کی تبدیلی
  • غزہ میں دشمن کا آخری ہتھیار بھوک
  • بانی پی ٹی آئی کے صاحبزادوں کو پاکستان میں انتشار پھیلانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی، عظمی بخاری
  • پاک فوج میں شامل زیڈ-10 ایم ای ہیلی کاپٹر کن صلاحیتوں کا حامل؟
  • غریب کا دشمن غریب
  • مسائل کو جنگ، تشدد اور طاقت سے ہرگز حل نہیں کیا جا سکتا، میر واعظ
  • صیہونی دشمن کا پورا انحصار امریکہ پر ہے، قائد انصاراللہ یمن
  • 9 مئی مقدمات کے فیصلوں کا خیر مقدم، آئندہ کوئی گھناؤنی سازش کی جرأت نہیں کر سکے گا: عطا تارڑ
  • 9 مئی کیسز کے فیصلوں کا خیر مقدم کرتے ہیں، عطا تارڑ