کراچی چلتا ہے تو یہ ملک چلتا ہے، جامعہ کراچی اس شہر کا مرکز ہے، خالد مقبول صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
— تصویر بشکریہ سوشل میڈیا
وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ کراچی چلتا ہے تو یہ ملک چلتا ہے، جبکہ جامعہ کراچی اس شہر کا مرکز ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج جامعہ کراچی کے شعبہ سماجی بہبود کے زیر اہتمام ایک روزہ کانفرنس بعنوان ’معذور افراد کے لیے پیشہ ور سوشل ورکرز کا کردار‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 10 میں سے 3 وفاقی جامعات اب تک کراچی میں آچکی ہیں، جبکہ حیدرآباد میں بھی 70 برس بعد یونیورسٹی قائم ہوچکی، ہم مزید جامعات اس شہر میں لے کر آئیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ چیئرمین ایچ ای سی کے اشتہار میں تاخیر اس لیے ہوئی کیونکہ بین الاقوامی امیدواروں کے لیے بیرون ملک بھی اشتہار شائع کرنا چاہتے ہیں۔
خالد مقبول صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے لیے اسپیشل گرانٹ سے متعلق سمری بھیج دی، جلد گرانٹ جائے گی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ شہر چلتا ہے تو یہ ملک چلتا ہے، جبکہ جامعہ کراچی اس شہر کا مرکز ہے۔
تقریب سے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے بھی خطاب کیا جبکہ اراکین قومی اسمبلی کشور زہرہ، امین الحق، فرحان چشتی اور وفاقی سرچ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر اورنگ زیب نے تقریب میں شرکت کی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: جامعہ کراچی چلتا ہے
پڑھیں:
آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہمارے وقت میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے۔
حال ہی میں اداکار نے ایک پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔
انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی چند عادتوں کا ذکر کیا جو بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے والد سے اپنائیں۔
انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ بچے وقت پر سو جایا کریں، باہر کا کھانا نہ کھائیں یا کم کھائیں۔ ایک وقت تھا میرے والد بھی مجھے ان چیزوں سے روکا کرتے تھے اور اب میں اپنے بچوں کو منع کرتا ہوں تاکہ ان میں نظم و ضبط قائم رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد صرف منع نہیں کرتے تھے بلکہ مارتے بھی تھے، ہمارے وقتوں میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے، آج آپ اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے اور مارنا چاہیے بھی نہیں کیونکہ آج کے بچے برداشت نہیں کرسکتے۔
عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ بچوں کو سکھانے کے لیے ایک یا دو تھپڑ تو ٹھیک ہیں لیکن مارنا نہیں چاہیے۔ بچوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی چیز کو لے کر والدین سے جھوٹ کہہ رہے ہیں تو وہ غلط کام کر رہے ہیں، والدین سے چیزوں کو نہ چھپائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وقتوں میں بچوں اور والدین کے درمیان فاصلہ ہوا کرتا تھا بات نہیں ہوتی تھی لیکن آج کے بچے والدین سے کھل کر بات کرتے ہیں اور ہم بھی یہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ گئے ہیں کہ مارنے کے بجائے بات کرنا زیادہ ضروری ہے۔