’خود امریکا نے روسی تیل لینے کی ترغیب دی‘، بھارت کا ٹرمپ کی تنقید پر ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
بھارت نے روس سے تیل کی درآمد پر امریکا اور یورپی یونین کی تنقید کو غیر منصفانہ اور یک طرفہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے جاری کردہ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد جب یورپی ممالک نے روسی توانائی کی سپلائیز پر قبضہ جمایا، تو اسی خلا کو پُر کرنے کے لیے بھارت نے روس سے تیل خریدنا شروع کیا۔
یہ بھی پڑھیں: روس سے تیل کی خریداری: ٹرمپ نے بھارت پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کردیا
بھارتی مؤقف کے مطابق اُس وقت خود امریکا نے بھارت کو روسی توانائی کی خریداری کی ترغیب دی تاکہ عالمی منڈی میں توازن قائم رہے۔
Statement by Official Spokesperson⬇️
???? https://t.
— Randhir Jaiswal (@MEAIndia) August 4, 2025
وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت کی یہ درآمدات کسی سیاسی مقاصد کے بجائے اپنے شہریوں کو سستی توانائی فراہم کرنے کے لیے کی گئیں، اور یہ اقدام عالمی مارکیٹ کے تقاضوں کے تحت ایک ناگزیر فیصلہ تھا۔ بیان میں یورپی ممالک کی دوہری پالیسی پر بھی سوال اٹھایا گیا۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق 2024 میں یورپی یونین نے روس کے ساتھ 67.5 ارب یورو کی دو طرفہ تجارتی سرگرمیاں انجام دیں، جب کہ خدمات کی مد میں 17.2 ارب یورو کی تجارت کی گئی۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی روس سے تجارت نسبتاً بہت کم ہے۔
مزید بتایا گیا کہ 2024 میں یورپی ممالک نے روس سے ایک کروڑ 65 لاکھ ٹن گیس درآمد کی، جو کہ 2022 کے ریکارڈ ایک کروڑ 52 لاکھ ٹن سے بھی زیادہ ہے۔
بھارت نے یہ بھی واضح کیا کہ یورپی ممالک اور روس کے درمیان تجارتی تعلقات صرف توانائی تک محدود نہیں بلکہ کھاد، معدنیات، کیمیکل، مشینری، فولاد اور دیگر صنعتی اشیا پر بھی محیط ہیں۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق امریکا بھی روس سے جوہری توانائی کے لیے یورینیم ہیگزا فلورائیڈ، الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والا پیلاڈیم، کھاد اور مختلف کیمیکلز درآمد کرتا ہے، اس لیے بھارت پر تنقید بے بنیاد اور دوغلے پن کا مظاہرہ ہے۔
بیان کے اختتام پر بھارت نے واضح کیا کہ وہ ایک خودمختار معیشت کی حیثیت سے اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرے گا اور اس حوالے سے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر شدید تنقید کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ بھارت پر مزید تجارتی ٹیرف عائد کریں گے۔
سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ بھارت روس سے بڑی مقدار میں تیل نہ صرف خرید رہا ہے بلکہ اسے فروخت کر کے منافع بھی کما رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس سے تیل کی خریداری جاری رہے گی، امریکی دباؤ کے باوجود انڈیا کا دوٹوک مؤقف
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت کو یوکرین میں روسی کارروائیوں سے بیگانی سی بے خبری ہے، اس لیے امریکی حکومت اب بھارت پر تجارتی پابندیوں میں مزید سختی لائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکا بھارت بھارت کا ردعمل ٹرمپ کی تنقید ٹرمپ کی دھمکی ٹیرف روسی تیل وی نیوز یورپی یونینذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا بھارت بھارت کا ردعمل ٹرمپ کی تنقید ٹرمپ کی دھمکی ٹیرف روسی تیل وی نیوز یورپی یونین یورپی ممالک روس سے تیل بھارت نے بھارت پر کے لیے
پڑھیں:
امریکا کا یوٹرن‘ یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے سے انکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-06-10
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ فی الحال یوکرین کو ٹوماہاک میزائل نہیں دیے جائیں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ فی الحال ایسا کوئی معاہدہ کرنے پر غور نہیں کر رہے، جس کے تحت یوکرین کو روس کے خلاف استعمال کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوماہاک میزائل حاصل ہو سکیں۔منصوبہ یہ تھا کہ امریکا ٹوماہاک میزائل ناٹو ممالک کو فروخت کرے گا اور وہ ممالک انہیں یوکرین منتقل کر سکیں گے، تاہم ٹرمپ نے اس منصوبے پر ٹھنڈا ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جنگ میں شدت نہیں چاہتے۔ انہوں نے ائر فورس ون میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ اب بھی اس معاملے میں ہچکچاہٹ کے شکار ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ میزائل فروخت کے کسی معاہدے پر غور کر رہے ہیں تو ٹرمپ نے جواب دیاکہ فی الحال نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا خیال بدل بھی سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ اور ناٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے نے 22 اکتوبر کو وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران ٹوماہاک میزائل کے منصوبے پر بات چیت کی تھی۔ روٹے نے جمعہ کے روز کہا کہ یہ معاملہ زیرِ غور ہے اور فیصلہ کرنا امریکا کے اختیار میں ہے۔ٹوماہاک میزائل کی مار تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر تک ہے، جو روس کے اندر گہرائی تک، بشمول ماسکو، ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے کافی ہے۔ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلینسکی نے ان میزائلوں کی فراہمی کی درخواست کی ہے، لیکن کریملن نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دیے جانے کے کسی بھی اقدام کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوں گے۔