ایلون مسک کی سوشل میڈیا کمپنی ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے درمیان انٹرنیٹ سنسرشپ پر شدید قانونی جنگ جاری ہے۔

یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب ایکس نے مارچ 2025 میں بھارتی حکومت کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا، جس میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا مواد ہٹانے کے احکامات آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی اور بھارتی آئین کے منافی ہیں۔

بھارت کی حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ غیر قانونی مواد، جعلی خبروں اور نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ حکومت نے اکتوبر 2024 میں "سہیوگ" نامی ویب پورٹل متعارف کرایا جس کے ذریعے اب سینکڑوں سرکاری ادارے اور پولیس اہلکار براہ راست سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مواد ہٹانے کی درخواست کر سکتے ہیں۔

ایلون مسک کی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انہیں سیاسی تنقید، طنزیہ پوسٹس، اور کارٹونز ہٹانے کے لیے بھی کہا گیا۔ مثلاً ایک پوسٹ میں وزیراعظم مودی اور ریاستی وزیراعلیٰ کو مہنگائی کی نمائندگی کرتے "ریڈ ڈائناسور" سے لڑتے دکھایا گیا، جسے حکام نے "اشتعال انگیز" قرار دیا۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق مارچ 2024 سے جون 2025 کے دوران بھارت نے X سے 1400 سے زائد پوسٹس اور اکاؤنٹس ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ان میں کچھ پوسٹس جعلی معلومات اور قابل اعتراض مواد پر مبنی تھیں، لیکن بہت سی پوسٹس سیاسی طنز یا حکومت پر تنقید پر مبنی تھیں۔

ایلون مسک جو خود کو "آزادی اظہار کا حامی" کہتے ہیں، بھارت سمیت کئی ممالک میں حکومتوں کے ساتھ اس حوالے سے تنازعات کا سامنا کر چکے ہیں۔ تاہم بھارت، جہاں ایکس کے لاکھوں صارفین ہیں، مسک کے لیے ایک اہم مارکیٹ بھی ہے۔

اگرچہ مسک اور مودی کے ذاتی تعلقات بظاہر خوشگوار ہیں، لیکن یہ قانونی جنگ ٹیکنالوجی، اظہار رائے اور حکومتی اختیار کے درمیان ٹکراؤ کی مثال بن چکی ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایلون مسک

پڑھیں:

پیٹرول خرید کر یوکرین جنگ میں روس کی مدد؛ امریکی الزام پر مودی سرکار کا ردعمل آگیا

صدر ٹرمپ کے مشیر خاص نے بھارت پر الزام عائد کیا تھا وہ روس سے پیٹرول خرید کر یوکرین جنگ میں اس کی مدد کر رہا ہے جس پر آج بھارت کا ردعمل بھی سامنے آگیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی الزام کے جواب میں بھارت کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم ایک آزاد ملک ہیں اور روس ہمارا قابلِ اعتماد ساتھی ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات قدیم اور آزمودہ ہیں۔ جسے کسی تیسرے ملک کے نظریے سے نہیں دیکھا جا سکتا۔

بیان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ قومی مفاد اوّلین ترجیح ہے اور روس سے تیل کی خریداری ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ اس لیے روس سے تیل کی خریداری جاری رہے گی۔

بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہماری روس سے پیٹرول کی خریداری عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کو متوازن رکھنے میں بھی مددگار ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز امریکا کے نائب چیف آف اسٹاف اور ٹرمپ کے قریبی ساتھی اسٹیفن ملر نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کے لیے بھارت کا روسی پیٹرول خرید کر یوکرین کے خلاف جنگ میں مدد دینا کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے بھی 30 جولائی کو "ٹروتھ سوشل" پر لکھا تھا کہ اگر بھارت چاہے تو اپنی اور روس کی معیشتیں تباہ کر لے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

انہوں نے بھارت کے BRICS اتحاد کا حصہ ہونے پر بھی سوالات اٹھائے، جس کے بانی ارکان میں روس اور چین شامل ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت اسلحہ کی سب سے زیادہ خریداری روس کرتا ہے اور یوکرین جنگ کے باعث روس پر عائد پابندیوں کے باعث 2022 سے سستے داموں تیل بھی خرید رہا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • آپریشن سندور میں شکست کے بعد مودی سرکار کا جنگی جنون بے قابو
  • بھارتی فوج کا مورال تباہ، خودکشیوں میں اضافہ؛ مودی سرکار خاموش تماشائی
  • مودی سرکار کا مقبوضہ کشمیر پر قبضے کا منصوبہ بھی ناکام
  • مذہبی آزادی نہ اظہار رائے کی اجازت‘ مقبوضہ کشمیر جیل بن چکا: حافظ عبدالکریم
  • آج کا دن بھارتی ظلم، بربریت اور مودی سرکار کی فاشسٹ سوچ کا ثبوت ہے
  • اسرائیلی حکومت نے بھی مودی سرکار کو بڑا جھٹکا دیدیا
  • پیٹرول خرید کر یوکرین جنگ میں روس کی مدد؛ امریکی الزام پر مودی سرکار کا ردعمل آگیا
  • پیٹرول خریدکر یوکرین جنگ میں روس کی مدد؛ امریکی بیان پر مودی سرکار کا ردعمل آگیا
  • مودی سرکار کا جنگی جنون بے قابو، خطے کا امن خطرے میں ڈالنے کی نئی کوششیں بے نقاب