ایلون مسک کا بھارتی حکومت پر مقدمہ: کیا مودی سرکار اظہار رائے کا گلا گھونٹ رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
ایلون مسک کی سوشل میڈیا کمپنی ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے درمیان انٹرنیٹ سنسرشپ پر شدید قانونی جنگ جاری ہے۔
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب ایکس نے مارچ 2025 میں بھارتی حکومت کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا، جس میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا مواد ہٹانے کے احکامات آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی اور بھارتی آئین کے منافی ہیں۔
بھارت کی حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ غیر قانونی مواد، جعلی خبروں اور نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ حکومت نے اکتوبر 2024 میں "سہیوگ" نامی ویب پورٹل متعارف کرایا جس کے ذریعے اب سینکڑوں سرکاری ادارے اور پولیس اہلکار براہ راست سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مواد ہٹانے کی درخواست کر سکتے ہیں۔
ایلون مسک کی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انہیں سیاسی تنقید، طنزیہ پوسٹس، اور کارٹونز ہٹانے کے لیے بھی کہا گیا۔ مثلاً ایک پوسٹ میں وزیراعظم مودی اور ریاستی وزیراعلیٰ کو مہنگائی کی نمائندگی کرتے "ریڈ ڈائناسور" سے لڑتے دکھایا گیا، جسے حکام نے "اشتعال انگیز" قرار دیا۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق مارچ 2024 سے جون 2025 کے دوران بھارت نے X سے 1400 سے زائد پوسٹس اور اکاؤنٹس ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ان میں کچھ پوسٹس جعلی معلومات اور قابل اعتراض مواد پر مبنی تھیں، لیکن بہت سی پوسٹس سیاسی طنز یا حکومت پر تنقید پر مبنی تھیں۔
ایلون مسک جو خود کو "آزادی اظہار کا حامی" کہتے ہیں، بھارت سمیت کئی ممالک میں حکومتوں کے ساتھ اس حوالے سے تنازعات کا سامنا کر چکے ہیں۔ تاہم بھارت، جہاں ایکس کے لاکھوں صارفین ہیں، مسک کے لیے ایک اہم مارکیٹ بھی ہے۔
اگرچہ مسک اور مودی کے ذاتی تعلقات بظاہر خوشگوار ہیں، لیکن یہ قانونی جنگ ٹیکنالوجی، اظہار رائے اور حکومتی اختیار کے درمیان ٹکراؤ کی مثال بن چکی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایلون مسک
پڑھیں:
پنجاب بمقابلہ بہار تنازع، مودی کی ناکام پالیسیوں کے باعث بھارت میں نئی دراڑ
مودی کی پالیسیاں بھارت میں فرقہ واریت کو بڑھا کر بہار اور پنجاب کے عوام کو آمنے سامنے لے آئیں،رپورٹ
مودی کی ناکام پالیسیوں کے باعث بھارت میں نئی دراڑ پڑ گئی جب کہ مودی کی پالیسیاں بھارت میں فرقہ واریت کو بڑھا کر بہار اور پنجاب کے عوام کو آمنے سامنے لے آئیں۔
بھارتی پنجاب کے مختلف علاقوں میں بہاریوں کو بے دخل کرنے کے لیے پنجابی میدان میں آگئے، بہاری عوام کے بڑے پیمانے پر زبردستی انخلا کے باعث لدھیانہ ریلوے اسٹیشن ہجوم کا منظر پیش کرنے لگا۔
سکھ برادری نے پنجاب میں بہاریوں کی بڑھتی ہوئی آباد کاری کے خلاف چندی گڑھ میں شدید احتجاج کیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب میں ہر وقت 30 سے 40 لاکھ بہاری مزدور موجود ہوتے ہیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں بہار اور یوپی کی اکثریت سمیت 12 لاکھ سے زائد بین الریاستی مزدور کام کر رہے ہیں۔ پنجابی شہری نے دعوی کیا کہ یہ بہاری کسی کے سگے نہیں، مشکل میں میدان چھوڑ کے بھاگ جانے والوں میں سے ہیں۔ جب باقی ریاستوں میں علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں تو پنجاب میں بھی صرف پنجابی بولی جائے گی۔
پنجابی شہری نے کہا کہ ہر کام میں پنجابی مزدوروں کو ترجیح دی جائے اور بہاریوں سے تمام علاقے خالی کرائے جائیں، یہ لوگ ہماچل تک سے آکر پنجاب کو لوٹ رہے ہیں۔ بھارت کے اندرونی تنازعات نے مودی کے نام نہاد اکھنڈ بھارت بیانیہ کی قلعی کھول دی، ہندوستانی سیکولرزم محض کتابی دعوی ثابت ہوا، زمینی حقائق ہندو شدت پسندی اور سماجی تقسیم ہے۔آر ایس ایس کی نفرت انگیز سوچ نے بھارت کو ہندو-مسلم کے بعد پنجابی-بہار تصادم میں دھکیل دیا، مودی کا سب کا ساتھ، سب کا وکاس نعرہ صوبائی تنازعات کے شور میں دفن ہو چکا ہے۔