پشاور ہائی کورٹ کا شبلی فراز اور زرتاج گل کو گرفتار نہ کرنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
پشاور:
ہائی کورٹ نے 9 مئی کے کیس میں سزا پانے والے پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز اور زرتاج گل کی حفاظتی ٓضمانت منظور کرلی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے دونوں رہنماؤں کی ضمانت کے لیے دائر درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا۔
پشاور ہائیکورٹ نے زرتاج گل اور شبلی فراز کو 11 اگست تک حفاظتی ضمانت دے دی۔
عدالت نے زرتاج گل اور شبلی فراز کو 11 اگست تک متعلقہ ہائیکورٹ میں پیش ہوکر اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی ہے اور حکم دیا ہے کہ اس وقت انہیں گرفتار نہ کیا جائے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اقدامات 5ججز نے چیلنج کر دیے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250920-08-21
اسلام آباد (صباح نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5ججوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے اختیارات اور اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت اور جسٹس اعجاز اسحق خان نے علیحدہ علیحدہ درخواستیں عدالت عظمیٰ میں دائر کیں۔ درخواستوں میں ججوں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ انتظامی اختیارات کو ہائی کورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ مزید کہا گیا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس وقت جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو، نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمات منتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے دستیاب ججوں کو فہرست سے خارج نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس اختیار کو ججوں کو عدالتی ذمہ داریوں سے ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ سے یہ بھی کہا گیا کہ بینچوں کی تشکیل، مقدمات کی منتقلی اور فہرست جاری کرنا صرف ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی منظوری سے بنائے گئے قواعد کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 202 اور 192(1) کے تحت اختیار کیے گئے ہیں۔ درخواست گزاروں نے مزید استدعا کی کہ بینچوں کی تشکیل، روسٹر ہائی کورٹ رولز اور مقدمات کی منتقلی سے متعلق فیصلہ سازی صرف چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں ہو سکتی اور ماسٹر آف دی روسٹر کے اصول کو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ختم کر دیا گیا ہے۔ درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشنز کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں اور ان کے اقدامات قانونی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان نوٹی فکیشنز اور کمیٹیوں کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ججوں نے دعا کی کہ سپریم کورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کو ہدایت دے کہ وہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری پر مؤثر نگرانی اور نگران عمل کرے، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 203 میں درج ہے، تاکہ ہر ہائی کورٹ اپنے ماتحت عدالتوں کی نگرانی اور کنٹرول کر سکے۔ درخواست گزاروں نے اپنا بیان کا اختتام کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ اس کیس کے حالات کے مطابق کوئی اور ریلیف بھی دے جو مناسب سمجھا جائے۔