جنوبی وزیرستان: پولیس کی گاڑی کے قریب دھماکہ، 3 افراد جاں بحق، 14 زخمی
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
جنوبی وزیرستان (نیوز ڈیسک) جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا رستم بازار میں جمعرات کو اس وقت خوفناک دھماکہ ہوا جب پولیس وین معمول کے گشت پر تھی۔ پولیس کے مطابق دھماکے کا ہدف پولیس کی گاڑی تھی تاہم تین راہگیر جاں بحق جب کہ ایک پولیس اہلکار سمیت چودہ افراد زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال وانا منتقل کر دیا گیا ہے جہاں طبی عملہ ان کا علاج کر رہا ہے۔ دھماکے کے بعد پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکے میں ریموٹ کنٹرول یا دیسی ساختہ بم استعمال کیا گیا ہو گا تاہم مکمل تفصیلات تحقیقات کے بعد سامنے آئیں گی۔
Post Views: 6.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
لاس ویگاس کے قریب صحرائی علاقے سے 300 انسانی باقیات برآمد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی ریاست نیواڈا کے صحرائی علاقے میں لاس ویگاس کے قریب 300 سے زائد انسانی باقیات دریافت ہوئی ہیں، جنہوں نے حکام اور مقامی آبادی کو حیران کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یہ باقیات دراصل جلائے گئے انسانوں کی راکھ پر مشتمل ہیں، جو بیورو آف لینڈ مینیجمنٹ (بی ایل ایم) کی حدود میں پائی گئی ہے۔ اس مقام پر تجارتی پیمانے پر انسانی راکھ کا اخراج وفاقی قوانین کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔
مقامی شخص کی اطلاع پر جب تفتیش کی گئی تو ابتدا میں 70 پائلز کی نشاندہی ہوئی، تاہم بعد ازاں تعداد بڑھ کر 315 کے قریب جا پہنچی۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ ہڈیوں کے پاؤڈر کی شکل میں راکھ ہے، جلائی گئی لاشیں نہیں۔
ریاستی قانون کے مطابق ذاتی سطح پر راکھ پھیلانے کی اجازت ہے، تاہم اگر یہ عمل تجارتی نوعیت اختیار کرے یا وفاقی زمین پر انجام دیا جائے تو یہ قانونی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے۔
حکام نے بتایا کہ فی الحال کسی شخص یا ادارے کو ذمہ دار نامزد نہیں کیا گیا اور اس بات کی تحقیقات جاری ہیں کہ یہ راکھ کہاں سے لائی گئی، کس مقصد کے لیے پھینکی گئی، اور اس کے پیچھے کون ہے۔
مقامی قبرستانی ادارے Palm Mortuaries & Cemeteries نے دریافت شدہ راکھ کو مخصوص صراحیوں میں محفوظ کر لیا ہے تاکہ اگر متاثرہ خاندان یا لواحقین سامنے آئیں تو انہیں ان باقیات کی حوالگی ممکن بنائی جا سکے۔
تحقیقاتی ماہرین کے مطابق یہ واقعہ نہ صرف قانونی پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے بلکہ سماجی و اخلاقی سوالات بھی اٹھاتا ہے کہ انسانی باقیات کے احترام کے ضوابط کس حد تک نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔