امریکی سینیٹر لنزی گراہم کا ٹرمپ کو سلام، بھارت پر ٹیرف لگانے کے فیصلے کی بھرپور حمایت
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
امریکی ری پبلکن سینیٹر لنزی گراہم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے کو سراہا ہے اور اسے ایک فیصلہ کن اور بروقت قدم قرار دیا ہے۔
لنزی گراہم نے کہا کہ "اب بھارت کے لیے روس سے سستا تیل خریدنا اتنا آسان نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔ بھارت روسی صدر پیوٹن سے تیل خریدنے پر بضد ہے تاکہ یوکرین میں خونریزی جاری رہے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے دنیا کو پیغام دے دیا ہے کہ اگر پیوٹن سے تیل خریدا تو امریکی معیشت تک بغیر ٹیرف رسائی نہیں ملے گی۔"
انہوں نے کہا کہ جو ممالک اس عمل میں ملوث ہیں، انہیں اب دوسروں کو نہیں بلکہ خود کو ذمہ دار ٹھہرانا ہوگا۔
سینیٹر گراہم نے صدر ٹرمپ کو شاباش دیتے ہوئے مزید کہا: "شاباش صدر ٹرمپ! آپ ہی وہ مضبوط اور فیصلہ کن رہنما ہیں جس کا دنیا یوکرین میں خونریزی ختم کرنے کے لیے انتظار کر رہی تھی۔"
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے حال ہی میں بھارت پر اضافی 25 فیصد ٹیرف لگایا ہے جس کے بعد کل امریکی ٹیرف کی شرح 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس اقدام کو بھارت کی روس نواز پالیسیوں کے خلاف سخت پیغام سمجھا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
نہ امریکا سے مذاکرات میں دلچسپی ہے اور نہ جوہری پابندی کو قبول کریں گے؛ ایران
ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کی مسلسل حمایت اور مشرق وسطیٰ میں فوجی اڈے برقرار رکھنے پر امریکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکی کبھی کبھار یہ کہتے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں لیکن جب تک وہ ملعون صیہونی ریاست (اسرائیل) کی حمایت جاری رکھیں گے اور مشرق وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈے اور مداخلت ختم نہیں کریں گے اس وقت تک کسی تعاون کی گنجائش نہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی پیشکش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور ایسے ملک سے تعلقات قائم نہیں کرسکتا جو خطے میں بدامنی اور اسرائیل کی حمایت کا ذمہ دار ہو۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جب ایران تیار ہوگا تو امریکا بات چیت اور تعاون کے لیے تیار ہے، ہمارے لیے دوستی اور تعاون کے دروازے کھلے ہیں۔
خیال رہے کہ ایران اور امریکا کے تعلقات 2018 میں ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کے بعد سے مسلسل کشیدہ ہیں۔