صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ وہ کمپیوٹر چپس پر 100 فیصد ٹیرف عائد کریں گے، جس سے الیکٹرونکس، گاڑیوں، گھریلو آلات اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، کیونکہ یہ تمام مصنوعات ڈیجیٹل دور کی توانائی فراہم کرنے والے پروسیسرز پر انحصار کرتی ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایپل کے سی ای او ٹم کُک سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران کہا کہ ہم چپس اور سیمی کنڈکٹرز پر تقریباً 100 فیصد ٹیرف لگائیں گے۔ لیکن اگر آپ امریکا میں تیار کر رہے ہیں تو آپ پر کوئی چارج نہیں ہو گا۔”

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف سے بچنے کے لیے ایپل نے 15 لاکھ آئی فون بھارت سے امریکا کیسے منگوائے؟

یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب صدر ٹرمپ نے 3 ماہ قبل اپنی انتظامیہ کی سخت ترین تجارتی پالیسیوں سے بیشتر الیکٹرونکس مصنوعات کو عارضی طور پر استثنا دیا تھا۔

ریپبلکن صدر کا کہنا ہے کہ وہ کمپنیاں جو امریکا میں چپس تیار کرتی ہیں، انہیں اس درآمدی ٹیکس سے بچایا جائے گا، یاد رہے کہ کووڈ 19 کے دوران چپس کی قلت نے گاڑیوں کی قیمتوں کو بڑھایا اور مہنگائی میں اضافے کا سبب بنی۔

مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ کی جانب سے تجارتی شراکت داروں کو نیا انتباہ، درآمدی محصولات میں بھاری اضافہ متوقع

سرمایہ کاروں نے ٹرمپ کے اس اشارے کو مثبت طور پر لیا کہ ایپل اور دیگر بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ممکنہ طور پر ٹیرف سے چھوٹ مل سکتی ہے، کیونکہ یہ کمپنیاں امریکا میں چپس اور دیگر پرزہ جات کی تیاری میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

جنوری میں صدر ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے آغاز کے بعد بگ ٹیک کمپنیاں پہلے ہی تقریباً 1.

5 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے کر چکی ہیں، جس میں ایپل کی جانب سے 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی شامل ہے، جس میں فروری میں کیے گئے وعدے میں مزید 100 ارب ڈالر کا اضافہ کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ کے عائد کردہ ٹیرف خلاف قانون قرار، بین الاقوامی تجارت کی عدالت نے فیصلہ سنادیا

اب اصل سوال یہ ہے کہ آیا ٹم کُک اور صدر ٹرمپ کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ چین اور بھارت میں تیار ہونے والے کروڑوں آئی فونز کو ان ٹیرف سے محفوظ رکھ سکے گا یا نہیں، اور کیا اس سے نئی آئی فونز کی قیمتوں میں اضافے کا دباؤ کم ہو گا جو اگلے ماہ متوقع طور پر متعارف کرائے جائیں گے۔

وال اسٹریٹ بظاہر ایسا ہی سمجھتی ہے، بدھ کو ایپل کے حصص کی قیمت 5 فیصد بڑھنے کے بعد، صدرٹرمپ کے اعلان اور ٹم کُک کی موجودگی میں مزید 3 فیصد اضافہ ہوا۔

مزید پڑھیں: بھارت میں آئی فون بنائے تو 25 فیصد ٹیرف عائد ہوگا، امریکی صدر ٹرمپ نے خبردار کردیا

اے آئی چپس بنانے والی کمپنی اینویڈیا کے حصص، جس نے حال ہی میں امریکا میں بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، معمولی اضافے کے ساتھ بند ہوئے، جس سے کمپنی نے ٹرمپ کی دوسری مدت کے آغاز سے اب تک ایک کھرب ڈالر کی مارکیٹ ویلیو حاصل کی ہے۔

چپس کی صنعت میں نمایاں کمپنی انٹیل کے حصص، جو کچھ عرصے سے مشکلات کا شکار ہے، وہ بھی بڑھ گئے، دنیا بھر میں کمپیوٹر چپس کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ورلڈ سیمی کنڈکٹر ٹریڈ اسٹیٹسٹکس کے مطابق جون تک کے سال میں اس کی فروخت میں 19.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کی آئی فون کے بعد اسمارٹ فونز اور یورپی یونین پر بھی اضافی ٹیکس کی دھمکی

صدر ٹرمپ کے یہ نئے ٹیرف منصوبے اس پالیسی سے نمایاں طور پر مختلف ہیں جو سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے دوران کمپیوٹر چپس کی امریکی پیداوار کو بحال کرنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔

جو بائیڈن سے اقتدار سنبھالنے کے بعد، صدر ٹرمپ نے ٹیرف کو گھریلو پیداوار بڑھانے کے لیے بطور ترغیب استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ چپس کی قیمتوں میں ممکنہ بڑے اضافے کا خطرہ کمپنیوں کو مجبور کرے گا کہ وہ اپنی فیکٹریاں امریکا میں قائم کریں، حالانکہ اس سے ان کے منافع میں کمی اور صارفین کے لیے موبائل فونز، ٹی وی اور ریفریجریٹرز کی قیمتیں بڑھنے کا خدشہ ہے۔

مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ کی دھمکیوں پر وزیر اعظم مودی کی خاموشی، راہول گاندھی نے کیا وجہ بتائی؟

اس کے برعکس، سابق صدر بائیڈن نے چپس اینڈ سائنس ایکٹ 2022  پر دستخط کیے تھے جس کے تحت 50 ارب ڈالر سے زیادہ کی مالی معاونت، ٹیکس کریڈٹ اور دیگر مراعات دی گئیں تاکہ نجی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے، یہ وہ حکمت عملی تھی، جس کی صدر ٹرمپ کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا امریکی صدر ایپل اینویڈیا اے آئی چپس بھارت ٹم کک ٹیرف جو بائیڈن چین ڈونلڈ ٹرمپ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا امریکی صدر ایپل بھارت ٹم کک ٹیرف جو بائیڈن چین ڈونلڈ ٹرمپ سرمایہ کاری امریکا میں مزید پڑھیں فیصد ٹیرف کی قیمتوں اضافے کا اور دیگر ٹرمپ کی ٹرمپ کے کی صدر کے بعد چپس کی کے لیے

پڑھیں:

فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-7

 

امیر محمد کلوڑ

فلم میں ننھا کیوین (Kevin) نیویارک کے ایک شاندار ہوٹل (Plaza Hotel) میں داخل ہوتا ہے وہ ایک شخص سے راستہ پوچھتا ہے وہ شخص ڈونلڈ ٹرمپ ہوتا ہے، ٹرمپ فخریہ انداز میں گردن سیدھی رکھ کر، غرور سے مسکرا کر کہتا ہے: ’’Down the hall and to the left‘‘ یہ سین چند سیکنڈ کا ہے مگر اس میں ہی ٹرمپ کا غرور، خود اعتمادی اور طاقت کا اظہار واضح نظر آتا ہے۔ یہ ان کی ’’ریئل لائف پالیسی‘‘ کا چھوٹا نمونہ ہے۔ سیاست میں بھی ’’ہوٹل پلازہ‘‘ والا رویہ صدر بننے کے بعد بھی ٹرمپ نے برقرار رکھا، ہمیشہ خود کو مرکز ِ توجہ رکھا۔ جیسے فلم میں ہوٹل ان کا تھا، ویسے ہی صدر کے طور پر وہ اکثر ملک کو اپنی ذاتی سلطنت سمجھتے ہیں ان کے فیصلے اور انداز کچھ اس طرح کے لگتے ہیں کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں: ’’یہ سب کچھ میرے کنٹرول میں ہے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے Home Alone 2 کے صرف چند سیکنڈز درحقیقت ان کی پوری شخصیت کا ٹریلر ہیں ایک خوداعتماد، خودپسند، طاقتور، اور ڈرامائی انسان۔ وہ چاہے بزنس ہو، ٹی وی ہو یا سیاست ہر جگہ وہ ہیرو اور اسٹیج کے مالک بن کر رہتے ہیں۔

آئیے ان کا موازنہ موجودہ دور میں کرتے ہیں یعنی ان کی سیاست (2025) میں بھی وہ ’’فلمی اسکرپٹ‘‘ والا انداز استعمال کر رہے ہیں؟ یعنی ان کی ریلیاں اور بیانات بھی کسی ’’شو‘‘ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کے جلسے روایتی سیاست نہیں، بلکہ ڈرامائی تقریبات ہوتے ہیں۔ روشنیوں، موسیقی، اور بڑے بڑے اسکرینوں کے ساتھ وہ داخل ہوتے ہیں۔ ان کی تقریریں پہلے سے طے شدہ ’’مکالموں‘‘ جیسی لگتی ہیں۔ ہر جملے پر سامعین سے ’’ریہرسل شدہ‘‘ نعرے لگتے ہیں: ’’USA! USA! یا Build the wall‘‘ وہ اکثر ہاتھ کے اشارے، چہرے کے تاثرات، اور وقفوں کا استعمال ایسے کرتے ہیں جیسے ایک اداکار سامعین کو قابو میں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی میڈیا ان کے جلسوں کو ’’Trump Show‘‘ کہتا ہے۔

حال ہی میں کولا لمپور ائرپورٹ پر ٹرمپ کو ملائیشین روایتی رقاص گروپ کے ساتھ دیکھا گیا جہاں انہوں نے ڈھول کی تھاپ پر ہلچل بھری حرکات کیں۔ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی، جہاں لوگوں نے اس کو ’’توانائی کا مظاہرہ‘‘ کہا تو کچھ نے اسے ’’ذاتی زیاد اعتماد (over confidence)‘‘ کا اظہار قرار دیا۔ ایک ملائیشیا نیوز پورٹل نے کہا کہ ٹرمپ کا یہ رویہ ’’صدر کے وقار‘‘ کے مطابق نہیں تھا۔ یعنی وہ خود کو نہ صرف سیاسی رہنما بلکہ پرفارمنر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ ہمیشہ میڈیا کو اپنا سب سے بڑا دشمن (Villain) بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ بار بار کہتے ہیں: ’’Fake News Media!‘‘ ہر سوال کو ذاتی حملہ بنا کر ڈرامائی ردعمل دیتے ہیں۔ ان کی باڈی لینگویج، لہجہ اور غصہ فلم کے سین جیسا لگتا ہے جس کا ٹریلر آپ نے وہائٹ ہائوس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ دیکھ لیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے: (ٹرمپ میڈیا کے سوالوں کا جواب نہیں دیتے، بلکہ ان کے لیے ’’پرفارم‘‘ کرتے ہیں۔) 2024-2025 میں ٹرمپ پر کئی مقدمات چلے، مگر انہوں نے ان سب کو سیاسی مظلومیت کے ڈرامے میں بدل دیا۔ ارمانی اور بربری کے کپڑے اور ایریزونا کے جوتے (اپنے برانڈ کے) ٹرمپ مارک کے گالف شوز اور ’’ٹرمپ سگنیچر‘‘ ان کا اپنا برانڈ کولون پرفیوم استعمال اور رولیکس اور پاٹیک فلپ گھڑیوں کے شوقین 79 سالہ ٹرمپ جنہوں نے تین شادیاں کیں جن سے ان کو پانچ بچے ہیں اور اس وقت صدر ٹرمپ ذاتی طور پر 2.5 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔

یہ تو ہوا اس کا فلمی کردار اور اب آتے ہیں کہ وہ کس طرح امریکا کو زوال کی جانب لے جارہے ہیں۔ ٹرمپ نے ’’America First‘‘ کا نعرہ دے کر کئی بین الاقوامی معاہدوں سے علٰیحدگی اختیار کی، جیسے پیرس ماحولیاتی معاہدہ، ایران نیوکلیئر ڈیل، اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے فنڈز روکنا۔ اس سے امریکا کی ’’عالمی قیادت‘‘ والی ساکھ کمزور ہوئی، اور چین و یورپ نے خلا پْر کرنا شروع کیا۔ اور اس کے علاؤہ صدر ٹرمپ نے اتحادی ممالک سے تعلقات میں تناؤ پیدا کیا اور ناٹو ممالک سے کہا کہ ’’زیادہ پیسہ دو ورنہ ہم دفاع نہیں کریں گے‘‘ اس سے اتحادی ممالک (جرمنی، فرانس وغیرہ) ناراض ہوئے۔ دنیا کے کئی ممالک کی طرح چین پر بھی ٹیکس اور ٹیرف لگانے سے امریکی کمپنیوں کی لاگت بڑھی۔ کئی امریکی کسانوں اور صنعتوں کو نقصان ہوا۔ ان کی سیاست نے ملک کو اندرونی طور پر بھی نقصان پہچایا اور نسلی اور سیاسی لحاظ سے زیادہ منقسم کیا۔

’’کیپٹل ہل حملہ (2021)‘‘ کو بہت سے سیاسی ماہرین ’’جمہوری اداروں پر حملہ‘‘ کہتے ہیں۔ امریکی معاشرہ اس وقت انتہائی منقسم ہے۔ ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان شہری اور دیہی علاقوں میں سفید فام اور غیر سفید فام آبادی کے درمیان۔ ٹیکساس اور کیلی فورنیا میں کچھ گروپوں نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ اگر وفاقی حکومت ان کے مفادات کے خلاف گئی تو وہ ’’الگ ملک‘‘ بننے کی مہم شروع کریں گے۔ سول نافرمانی اور تشدد کے ایک تازہ سروے میں تقریباً 58 فی صد امریکیوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو ’’کسی نہ کسی درجے کی خانہ جنگی‘‘ ہو سکتی ہے۔ لیکن ماہرین جیسے Prof. Francis Fukuyama اور Thomas Friedman کا کہنا ہے کہ: ’’امریکا اداروں کا ملک ہے۔ اتنی آسانی سے ٹوٹ نہیں سکتا، مگر اندرونی کمزوری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے‘‘۔ دنیا کے مؤقر جریدوں نے ان حالات پر مندرجہ ذیل تبصرے کیے ہیں۔

دی اکنامسٹ (2025)؛ ٹرمپ کا دور ’’جمہوری نظام کے لیے سب سے بڑا امتحان‘‘ ہے، مگر ٹوٹنے کا امکان نہیں۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن؛ ’’اگر ادارے (عدلیہ، کانگریس، میڈیا) اپنی آزادی برقرار رکھیں، تو امریکا متحد رہے گا۔ ’’الجزیرہ انگلش‘‘ امریکا میں سماجی بگاڑ بڑھ رہا ہے، مگر ملک کے ٹوٹنے سے زیادہ خانہ جنگی جیسے تنازعات کا خطرہ ہے‘‘۔

 

امیر محمد خان کلوڑ

متعلقہ مضامین

  • چین کا امریکی اشیا پرعائد اضافی ٹیرف 1سال کیلئے معطل کرنیکا اعلان
  • امریکا میں شٹ ڈاؤن، میئر انتخابات میں شکست سب سے بڑی وجہ تھی، ٹرمپ
  • سی بی ایس کی ’کٹ اینڈ پیسٹ‘ پالیسی پر صدر ٹرمپ کی نئی چوٹ
  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے‘ چیئرمین راشد لنگڑیال
  • نئے ٹیکس نہیں لگانے پڑیں گے، ایف بی آر چیئرمین کا مؤقف
  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے: چیئرمین ایف بی آر
  • امریکا کے 10 امیر ترین افراد کی دولت میں ایک سال میں 700 ارب ڈالر کا اضافہ، آکسفیم کا انکشاف
  • ایم ڈی کیٹ نتائج کا اعلان، عارضی نتائج ہی حتمی نتائج قرار
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال