اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی کا نیا ماڈل متعارف کرادیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
اوپن اے آئی نے ایک نیا اور زیادہ طاقتور چیٹ جی پی ٹی ماڈل ’چیٹ جی پی ٹی 5‘ متارف کرادیا ہے۔
اوپن اے آئی کی جانب سے اسے سب سے زیادہ ذہین، تیز اور مفید ماڈل قرار دیا گیا ہے، جسے آبجیکیٹو اور حقیقی دنیا کے مسائل کے حل میں بہتر جوابدہی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
یہ ماڈل کے جوابات جی پی ٹی 40 کے مقابلے میں تقریباً 45٪ کم غلطیاں کرتا ہے اور اوپن اے آئی 03 کے مقابلے میں تقریباً 80٪ کم غلطیاں کرتا ہے۔
یہ "Unified system" ہے جو خود فیصلہ کرتا ہے کہ کب جلد جواب دینا ہے اور کب طویل مدتی جواب کی ضرورت ہے۔ اس کے پاس سوچ و بچار کے لیے الگ "thinking mode" بھی ہے۔ اس کے علاوہ ویب ایپ، گیمز اور کوڈنگ میں یہ ماڈل نمایاں مقام رکھتا ہے۔
مزید برآں لکھائی میں بھی اس کا شعری اور تخلیقی انداز بہتر ہوا ہے۔ صحت سے متعلق سوالات میں زیادہ محتاط اور معاون مواصلت فراہم کرتا ہے اور ہالوسینیشن کے امکانات کم کرتا ہے۔
صارفین اب مختلف ٹولز سے چیٹ جی پی ٹی کو مربوط کر سکتے ہیں اور اپنی ٹیمپلیٹس، شخصیات یا سوالی انداز کا اختیار رکھ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیٹ جی پی ٹی اوپن اے ا ئی کرتا ہے
پڑھیں:
چین نے ڈیپ سیک کا سیاست سے دور رہ کر کام کرنے والا ورژن لانچ کردیا
چینی ٹیک کمپنی ہواوے نے ایک نیا مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی ماڈل ڈیپ سیک آر ون سیف (DeepSeek-R1-Safe) تیار کیا ہے، جو حساس یا سیاسی موضوعات پر گفتگو کو روکنے میں تقریباً 100فیصد کامیاب ہے۔
چین میں اے آئی ماڈلز کو عوام کے لیے جاری کرنے سے پہلے ’سماجی اقدار‘ کی پابندی کرنی ہوتی ہے، تاکہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مواد نہ آئے۔اس ماڈل کو ہواوے اور زیجیانگ یونیورسٹی کے محققین نے مل کر تیار کیا ہے۔
ان کا مقصد اس اے آئی میں ایسی حفاظتی پرتیں شامل کرنا تھا جو اسے چینی حکومت کے طے شدہ قوانین اور پابندیوں کے مطابق بنا سکیں۔ اس نئے ورژن کو ایک ہزار ہواوے کے Ascend AI chips کا استعمال کرتے ہوئے دوبارہ تربیت کیا گیا ہے، تاکہ یہ سیاسی طور پر حساس موضوعات اور دیگر ممنوعہ مواد سے دور رہ سکے۔
ہواوے کا دعویٰ ہے کہ یہ ماڈل عام بات چیت کے دوران تقریباً 100 فیصد کامیابی کے ساتھ سیاسی طور پر حساس سوالات سے بچتا ہے، اور اس نے اپنی اصل کارکردگی اور رفتار میں صرف ایک فیصد کی معمولی کمی دکھائی ہے۔
تاہم، اس ماڈل کی کچھ حدود بھی ہیں۔ جب صارفین چالاکی سے سوال پوچھتے ہیں، جیسے کہ رول پلےنگ یا بالواسطہ اشاروں کے ذریعے، تو اس کی کامیابی کی شرح تیزی سے کم ہو کر صرف 40 فیصد رہ جاتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے لیے اس طرح کی حدود کو مکمل طور پر نافذ کرنا ابھی بھی ایک چیلنج ہے۔ یہ اپ ڈیٹ بیجنگ کی جانب سے اے آئی کو سختی سے کنٹرول کرنے کی جاری کوششوں کا حصہ ہے۔
چین میں تمام عوامی اے آئی نظاموں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قومی اقدار اور اظہار رائے کی مقررہ حدود کی پابندی کریں۔ یہ نئی کوشش اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ٹیکنالوجی حکومتی رہنما اصولوں کے مطابق رہے۔
یہ ایک عالمی رجحان ہے کہ مختلف ممالک اپنے اے آئی سسٹمز کو اپنی مقامی اقدار اور سیاسی ترجیحات کے مطابق ڈھال رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، سعودی عرب کی ایک کمپنی نے ایک ایسا عربی چیٹ بوٹ لانچ کیا جو نہ صرف زبان میں روانی رکھتا ہے بلکہ اسلامی ثقافت اور اقدار کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی کمپنیاں بھی تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے ماڈلز پر ثقافتی اثرات ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ، امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت ایک ایکشن پلان متعارف کرایا گیا تھا، جس میں حکومتی اداروں کے ساتھ بات چیت کرنے والے اے آئی کو ’غیر جانبدار اور غیر متعصب‘ ہونے کی شرط رکھی گئی تھی۔ یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اے آئی نظاموں کو اب صرف ان کی تکنیکی صلاحیت کی بنیاد پر نہیں جانچا جاتا، بلکہ ان سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان علاقوں کے ثقافتی، سیاسی اور نظریاتی ترجیحات کی عکاسی کریں جہاں وہ کام کرتے ہیں۔ اس طرح ڈیپ سیک آرون سیف کا اجرا کوئی انوکھا واقعہ نہیں، بلکہ ایک وسیع عالمی رجحان کا حصہ ہے۔
Post Views: 1