Juraat:
2025-09-22@19:12:00 GMT

امریکی ٹیرف کے بھارتی معیشت پر ممکنہ اثرات

اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT

امریکی ٹیرف کے بھارتی معیشت پر ممکنہ اثرات

میری بات/روہیل اکبر

 

بھارت دنیا کا کثیر آبادی والا ملک ہے جہاں غربت بھی حد سے زیادہ ہے۔ اب امریکہ کی طرف سے بھارت پر50فیصد ٹیرف لگا دیا گیا ہے جس سے غربت اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔یہ ٹیرف بھارت کی جانب سے روس سے تیل کی خریداری پرعائد کیا گیا ہے۔ بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیے جانے کی خبر نے بین الاقوامی تجارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس فیصلے کے سیاسی، معاشی اور سفارتی پہلوؤں پر نہ صرف غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ عام قاری کو ”ٹیرف” جیسے اصطلاحی الفاظ کا مفہوم بھی جاننا چاہیے کہ ٹیرف کیا ہوتا ہے؟
ٹیرف دراصل ایک قسم کا درآمدی ٹیکس ہوتا ہے جو ایک ملک دوسرے ملک سے آنے والی اشیاء پر عائد کرتا ہے جب کسی شے پر ٹیرف بڑھا دیا جائے تو وہ شے درآمد کنندہ ملک میں مہنگی ہو جاتی ہے جس سے مقامی صنعت کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر امریکہ بھارت سے آنے والے اسٹیل پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرتا ہے تو بھارتی اسٹیل کی قیمت امریکی منڈی میں بڑھ جائے گی جس سے امریکی اسٹیل ساز کمپنیوں کو فائدہ ہوگا اگر ہم بھارت پر 50 فیصد امریکی ٹیرف کے اثرات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ فیصلہ بھارت کے لیے کئی حوالوں سے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے جیسے بھارت کی بہت سی اشیاء خصوصاً ٹیکسٹائل، اسٹیل، کیمیکل اور فارما سیوٹیکل مصنوعات امریکہ کو برآمد کی جاتی ہیں جن پر 50 فیصد ٹیرف ان اشیاء کو مہنگا کر دے گا جس سے ان کی مانگ میں کمی آئے گی جب برآمدات میں کمی آئے گی تو بھارتی صنعتوں میں پیداوار کم ہو گی جس سے روزگار کے مواقع بھی محدود ہوں گے۔ برآمدات میں کمی کا براہ راست اثر بھارت کے زرمبادلہ ذخائر پر بھی پڑے گا جو معیشت کو مزید دباؤ میں ڈالے گا اوربھارت کی حکومت پر اندرونی اور بیرونی دباؤ بڑھ سکتا ہے کہ وہ امریکہ سے تعلقات میں بہتری کے لیے دوبارہ مذاکرات کرے۔ امریکہ کے مطابق بھارتی مصنوعات پر ٹیرف میں اضافہ تجارتی توازن قائم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ امریکہ کا الزام ہے کہ بھارت اپنی منڈیوں کو امریکی کمپنیوں کے لیے محدود رکھتا ہے جبکہ امریکی منڈیوں میں بھارتی مصنوعات آزادانہ داخل ہوتی ہیں۔ امریکی پابندیوں کے بعد اب بھارت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟ اس حوالہ سے بھارت ڈبلیو ٹی او میں شکایت درج کروا سکتا ہے تاکہ اس فیصلے پر نظرثانی کی جا سکے اوربھارت بھی امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف لگا کر دباؤ ڈال سکتا ہے جیسا کہ چین نے ماضی میں کیا تھا یابھارت یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی منڈیوں پر توجہ دے سکتا ہے تاکہ امریکی انحصار کم کیا جا سکے یا پھربھارت امریکہ سے سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے کسی متفقہ حل کی کوشش کر سکتا ہے ۔
اگر بھارت اس ٹیرف کو ختم کروانے میں ناکام رہا تو پھر اس کا اثر بھارت پر بہت بُرا پڑ سکتا ہے کیونکہ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جبکہ 2023 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت آبادی میں چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے جا رہا ہے۔ بھارت کی آبادی میں بے پناہ اضافہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جو قدرتی وسائل، بنیادی ڈھانچے اور سماجی خدمات پر شدید دباؤ ڈال رہا ہے اگرچہ شہری علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن دیہی علاقوں میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ دیہی آبادی کا بڑا حصہ آج بھی بنیادی سہولیات جیسے صاف پانی، صحت اور تعلیم سے محروم ہے بھارت میں غربت ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے جہاں نہ صرف آمدنی میں کمی بلکہ غذائیت، تعلیم، صفائی اور دیگر بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی بھی شامل ہے۔ اگرچہ کچھ سرکاری رپورٹس میں غربت کی شرح میں کمی کا دعویٰ کیا گیا ہے لیکن بہت سے آزاد اداروں اور ماہرین کا خیال ہے کہ اصل صورت حال زیادہ تشویشناک ہے ۔بھارت کی 1.

4 ارب آبادی میں سے ایک ارب سے زائد افراد انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں جس کی وجہ سے بھارت میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ امیری اور غریبی کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف ارب پتی افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف غریب طبقے کی آمدنی میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ملک کے صرف 5 فیصد لوگوں کا 60 فیصد دولت پر قبضہ ہے ۔ اس وقت بھارت میںغربت کی سب سے زیادہ شکار دلت اور پسماندہ ذاتیں ہیں۔
اگر دیکھا جائے توآبادی اور غربت کے درمیان ایک گہرا اور پیچیدہ تعلق ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی بے روزگاری میں اضافہ کرتی ہے جس سے آمدنی میں کمی اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آبادی میں اضافہ حکومت کے لیے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسی ضروریات کو پورا کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔ بھارت کو اپنی آبادی کو ایک بوجھ کے بجائے ایک اثاثہ بنانے کے لیے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اگر مناسب روزگار اور مہارت فراہم نہ کی گئی تو یہ ایک سماجی اور معاشی بحران کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ بھارت کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس طرح اپنی بڑی آبادی کو ایک مثبت قوت میں تبدیل کرتا ہے۔ اگرچہ غربت میں کمی کے لیے کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن اصل چیلنج غربت کو مکمل طور پر ختم کرنا اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے لیے بھارت کو تعلیم اور ہنر مندی میں سرمایہ کاری کے ذریعے نوجوانوں کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم اور ہنر مندی فراہم کرناہوگی تاکہ وہ روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں جبکہ دیہی علاقوں میں غربت کو کم کرنے کے لیے زرعی اصلاحات، چھوٹے کاروباروں کی حوصلہ افزائی اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے پر زور دینا ہوگا۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو امریکی پابندیوں کے بعد بھارتیوں کا جینا مشکل ہو جائے گا ۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: فیصد ٹیرف میں اضافہ پر 50 فیصد بھارت پر سے بھارت بھارت کے بھارت کی کیا گیا سکتا ہے کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

امریکی ورک ویزا فیس میں ہوشربا اضافہ، 71فیصد بھارتی لپیٹ میں آگئے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امیگریشن کے خلاف اپنے تازہ اقدام کے طور پر ایچ-1بی (H-1B) ویزا کے لیے ایک لاکھ ڈالر (تقریباً 88 لاکھ روپے) فیس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:صدر ٹرمپ کے گولڈ اور پلاٹینم کارڈز کیا ہیں اور اس سے کون فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

ماہرین کے مطابق یہ اقدام ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ ویزا سب سے زیادہ بھارت اور چین سے تعلق رکھنے والے ہنر مند افراد کو ملتا ہے۔

بھارتی شہری سب سے زیادہ متاثر

امریکی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 71 فیصد ایچ-1بی ویزے بھارتی شہریوں کو ملے، جبکہ چین دوسرے نمبر پر رہا جس کا حصہ صرف 11.7 فیصد تھا۔

ایمیزون، مائیکروسافٹ اور میٹا جیسی بڑی کمپنیاں اس ویزا کے ذریعے ہزاروں ملازمین بھرتی کرتی ہیں۔ صرف ایمیزون اور اس کی ذیلی کمپنی اے ڈبلیو ایس کو 2025 کے ابتدائی چھ ماہ میں 12 ہزار سے زائد ویزے منظور ہوئے تھے۔

ماہرین کے مطابق فیس میں زبردست اضافہ بھارتی امیدواروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا، کیونکہ انہیں گرین کارڈ کے حصول کے طویل انتظار کے دوران بار بار ویزا تجدید کرنی پڑتی ہے، اور ہر بار یہ بھاری فیس ادا کرنا ہوگی۔

راہول گاندھی کا ردِعمل

بھارت میں اس فیصلے پر اپوزیشن کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔

 کانگریس رہنما راہول گاندھی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ مودی حکومت نے بیرون ملک کام کرنے والے بھارتی ماہرین کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی نہیں اپنائی۔

I repeat, India has a weak PM. https://t.co/N0EuIxQ1XG pic.twitter.com/AEu6QzPfYH

— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) September 20, 2025

انہوں نے خبردار کیا کہ فیس میں اضافہ بھارتی نوجوانوں کے لیے امریکی ملازمتوں کے دروازے بند کر دے گا اور آئی ٹی صنعت کو براہِ راست نقصان پہنچائے گا۔

وائٹ ہاؤس کا مؤقف

وائٹ ہاؤس کے اسٹاف سیکرٹری ول شارف نے کہا کہ ایچ-1بی پروگرام ملک کے امیگریشن نظام میں سب سے زیادہ غلط استعمال ہونے والے ویزوں میں شمار ہوتا ہے۔

ان کے بقول نئی فیس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ جو افراد امریکا آ رہے ہیں وہ واقعی اعلیٰ مہارت رکھتے ہوں اور امریکی کارکنوں کی جگہ نہ لے سکیں۔

صدر ٹرمپ کا اعلان

صدر ٹرمپ نے اعلان کرتے ہوئے کہا ’ہمیں بہترین کارکن چاہیے، اور یہ اقدام اس بات کی ضمانت ہے کہ یہاں صرف وہی آئیں گے جو واقعی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں‘۔

ایچ-1بی ویزا کیا ہے؟

ایچ-1بی ویزا امریکہ میں عارضی کام کرنے کا اجازت نامہ ہے جسے 1990 میں متعارف کرایا گیا۔ اس کے تحت ایسی ملازمتوں کے لیے غیر ملکی ماہرین کو رکھا جا سکتا ہے جو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ جیسے شعبوں میں مشکل سے پُر ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی ورک ویزا مزید مہنگا،’ہم بہترین لوگوں کو امریکا میں آنے کی اجازت دیں گے‘،صدر ٹرمپ

یہ ویزا ابتدائی طور پر تین سال کے لیے دیا جاتا ہے جسے زیادہ سے زیادہ چھ سال تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

سخت تر شہریت ٹیسٹ

امریکی حکومت نے شہریت کے لیے درخواست دینے والوں پر بھی ایک مشکل ٹیسٹ دوبارہ نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، جو صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں شروع کیا تھا لیکن صدر بائیڈن نے ختم کر دیا تھا۔

اس نئے ٹیسٹ میں امیدواروں کو امریکی تاریخ اور سیاست سے متعلق 128 سوالات کے ذخیرے سے زبانی طور پر 20 سوال پوچھے جائیں گے، جن میں سے کم از کم 12 کے درست جواب دینا لازمی ہوگا۔

ٹرمپ کا ’گولڈ کارڈ‘ ویزا پروگرام

صدر ٹرمپ نے ایک نیا ’گولڈ کارڈ‘ ویزا پروگرام بھی متعارف کرایا ہے جس کے تحت انفرادی افراد کے لیے فیس ایک ملین ڈالر اور کمپنیوں کے لیے دو ملین ڈالر رکھی گئی ہے۔ امریکی وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹ نِک کے مطابق یہ پروگرام صرف غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے افراد  کے لیے ہوگا جو امریکہ میں کاروبار اور روزگار پیدا کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ گرین کارڈ پروگرام غیر منطقی تھا کیونکہ اس کے ذریعے ہر سال اوسطاً 2.8 لاکھ افراد آتے تھے جن کی آمدنی سالانہ صرف 66 ہزار ڈالر تھی اور وہ زیادہ تر حکومتی امداد پر انحصار کرتے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایچ-1بی) ویزا بھارت بھارتی شہری چین گولڈ کارڈ ورک ویزا

متعلقہ مضامین

  • ٹیرفس اور ویزا خدشات کے درمیان آج بھارتی اور امریکی وزرائے خارجہ کی ملاقات
  • ملک سے غربت کا خاتمہ بھی کر کے دکھائیں گے،شہباز شریف
  • جس طرح دشمن کے 6جہاز گرائے اسی طرح ملک سے غربت کا خاتمہ بھی کر  کے دکھائیں گے، وزیراعظم
  • غیروں کا نہیں، اپنوں کا ساتھ دیں”   نریندر مودی کی بھارتی عوام سے مقامی مصنوعات اپنانے کی اپیل
  • ممکنہ معاہدے میں ٹک ٹاک کے الگورتھم کا کنٹرول اپنے پاس رکھیں گے، امریکہ
  • بھارت کیخلاف سپر فور مرحلے کے میچ کیلئے پاکستان کے ممکنہ 11 کھلاڑیوں کے نام سامنے آگئے
  • بھارتی کرکٹ بورڈ کا نیا صدر کون ہوگا؟ ممکنہ امیدوار کا نام سامنے آگیا
  • امریکی ورک ویزا فیس میں ہوشربا اضافہ، 71فیصد بھارتی لپیٹ میں آگئے
  • بھارت: کشمیری دستکاروں پر ٹرمپ ٹیرفس کے اثرات
  • پاک سعودیہ معاہدہ: ممکنہ اثرات اور چیلنجز