امریکا اور بھارت کی نئی تجارتی کشیدگی
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے خلاف بڑا معاشی حملہ کرتے ہوئے 50 فیصد تک اضافی ٹیرف عائد کردیا ہے اور خبردارکیا ہے کہ یہ صرف شروعات ہے۔ امریکی صدر نے بھارت کی جانب سے روسی تیل کی مسلسل خریداری پر سخت برہمی کا اظہارکیا اورکہا ہے کہ بھارت کو اس فیصلے کی قیمت چکانی پڑے گی۔
بلاشبہ بھارت میں اس فیصلے کے بعد معاشی بے چینی بڑھ گئی ہے۔ روس سے سستا تیل خریدنے کی پالیسی نے بھارت کو مغربی ممالک سے دورکردیا ہے۔ بھارت، جو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے، اس وقت روس سے سب سے زیادہ خام تیل خرید رہا ہے، یوکرین جنگ کے دوران روس کے لیے یہ ایک بڑی آمدنی کا ذریعہ بن گیا ہے۔
بھارت اب بین الاقوامی سفارتی صفوں میں تنہائی کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت اور امریکا کے درمیان اس نئی تجارتی کشیدگی کے اثرات بھارت کی معیشت اور سفارتی تعلقات پرگہرے ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارت عالمی منڈی میں اپنی برآمدات کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، اس طرح کے ٹیرف اسے مزید مشکلات سے دوچارکرسکتے ہیں۔
امریکا کی جانب سے بھارت پر 50 فیصد مجموعی ٹیرف کا نفاذ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے جا سکتا ہے، اگر بھارت اس دباؤکو قبول کرتا ہے تو یہ اس کی معاشی خود مختاری پر سوال اٹھائے گا اور اگر بھارت جوابی اقدامات کرتا ہے تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔
بھارتی حکومت کے ایک اندرونی تخمینے میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے نئی پابندیوں کے نتیجے میں بھارت کو امریکا میں بھیجی جانے والی تقریباً 64 ارب ڈالر مالیت کی برآمدات، جو اس کی کل امریکی برآمدات کا 80 فیصد بنتی ہیں، پر مسابقتی برتری کھونے کا خطرہ لاحق ہے۔
تاہم، 4 ٹریلین ڈالر مالیت کی بھارتی معیشت میں برآمدات کا حصہ نسبتاً کم ہونے کی وجہ سے، ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کے مجموعی معاشی نمو پر براہِ راست اثرات محدود ہوں گے۔ بھارتی مرکزی بینک (ریزرو بینک آف انڈیا) نے مالی سال اپریل تا مارچ 2024–25 کے لیے معاشی نمو کی پیش گوئی 6.
امریکا کا مؤقف ہے کہ روس پر جاری پابندیوں کے باوجود اگر بھارت جیسے بڑے ممالک روسی تیل خریدتے رہیں گے، تو عالمی سطح پر امریکا کی معاشی اور جغرافیائی حکمت عملی متاثر ہوگی۔ امریکا کے اس نئے فیصلے پر بھارت کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی جیسوال نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے بھارت پر عائد کیا گیا 25 فیصد اضافی ٹیرف نہایت افسوسناک، ناانصافی پر مبنی اور غیر منصفانہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بھارت عالمی اصولوں کے مطابق اپنی درآمدات اور برآمدات کی پالیسی بناتا ہے اور وہ اپنے قومی مفادات سے سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ امریکی ٹیرف کے اس اضافے کے بعد بھارت میں سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہوگیا ہے۔
کانگریس رہنما راہول گاندھی نے مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے بھارت پر لگائے گئے اضافی ٹیرف نے ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ حکومت بین الاقوامی سطح پر مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ راہول گاندھی نے وزیراعظم مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً قوم سے معذرت کرتے ہوئے اقتدار چھوڑ دیں کیونکہ وہ بھارت کے مفادات کا دفاع کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
بھارتی میڈیا میں ایک حکومتی ذریعے نے بتایا ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سات سال سے زائد عرصے بعد پہلی بار چین کا دورہ کریں گے، جو بیجنگ کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور واشنگٹن کے ساتھ کشیدگی کے تناظر میں ایک اہم سفارتی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ مودی 31 اگست سے شروع ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے چینی شہر تیانجن جائیں گے۔
امریکا اور بھارت کے درمیان اس کشیدگی کا آغاز چند ماہ قبل اس وقت ہوا جب بھارت نے امریکی دباؤ کے باوجود روسی تیل کی درآمدات میں کمی لانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ''Mission 500'' نامی اقتصادی مذاکرات ہوئے، جن کا مقصد دوطرفہ تجارت کو 500 ارب ڈالر تک لے جانا تھا، لیکن زراعت، ڈیری مصنوعات اور دیگر حساس شعبہ جات میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
ٹرمپ انتظامیہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت امریکا سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے، اور امریکا کا تجارتی خسارہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ موجودہ ڈھانچہ غیر منصفانہ ہے۔
یہی مؤقف ماضی میں بھی ٹرمپ حکومت کے دور میں دیکھنے کو ملا تھا، جب GSP (Generalized System of Preferences) کی سہولت بھارت سے واپس لے لی گئی تھی۔ اب جب کہ 2025 میں امریکا نے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے، اس کا فوری اثر بھارتی برآمدات پر پڑنا طے ہے۔
بھارت کی بڑی برآمدی اشیاء میں ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، زیورات، زرعی اشیاء اور فارماسیوٹیکل شامل ہیں۔ ان پر بلند ٹیرف کا مطلب ہے کہ امریکی منڈی میں ان اشیاء کی مسابقت میں کمی آئے گی، جو بھارت کے لیے اربوں ڈالر کے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
اس فیصلے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ بھارت کسانوں، ماہی گیروں اور ڈیری صنعت سے وابستہ افراد کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ یہ بیان داخلی سیاسی حلقوں کو مطمئن کرنے کی کوشش بھی ہے اور ایک واضح پیغام بھی کہ بھارت اقتصادی دباؤ میں آکر اپنی خود مختاری کو قربان نہیں کرے گا۔
یہ کشیدگی ایسے وقت میں پیدا ہوئی ہے جب دنیا پہلے ہی معاشی غیر یقینی کا شکار ہے۔ روس یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات، چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت، اور عالمی رسدی زنجیروں کی مشکلات نے بین الاقوامی تجارت کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔
امریکا کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بھارت نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے بلکہ چین کے بعد سب سے بڑی ابھرتی ہوئی معیشت بھی ہے، اگر امریکا چین کے مقابلے میں ایک اسٹرٹیجک حلیف تلاش کر رہا ہے تو بھارت اس کے لیے بہترین انتخاب ہو سکتا ہے، لیکن یہ ممکن تب ہی ہوگا جب دونوں ممالک باہمی احترام، برابری اور مفاہمت کی بنیاد پر تعلقات کو استوار رکھیں۔
اس ساری صورتحال میں ایک پہلو عالمی اداروں کا کردار بھی ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم (WTO) جیسے ادارے ایسے تنازعات کے حل کے لیے موجود ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں ان کی موثریت پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ بھارت اگر چاہے تو WTO کے فورم پر امریکا کے خلاف مقدمہ درج کرسکتا ہے، لیکن اس کے نتائج فوری طور پر سامنے نہیں آ سکتے اور نہ ہی ایسے فورمز پر سیاسی اثرات سے پاک انصاف کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
عوامی سطح پر بھی اس فیصلے کے اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ مہنگائی میں اضافہ، بے روزگاری اور برآمداتی شعبے میں کمی، سب کچھ مل کر عوامی سطح پر بے چینی پیدا کر سکتے ہیں۔ بھارتی صنعتکار اور تاجر پہلے ہی اس فیصلے پر سخت نالاں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت فوری طور پر کوئی عملی لائحہ عمل دے تاکہ اس نقصان کو کم کیا جا سکے۔
اسی تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کے لیے یہ ایک چیلنج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک موقع بھی ہے۔ اگر بھارت اس موقع پر اپنی داخلی اقتصادی پالیسیوں کو مزید جدید بناتا ہے، عالمی معیارات سے ہم آہنگ کرتا ہے، اور برآمدات کو نئی منڈیوں میں پھیلانے پر توجہ دیتا ہے تو نہ صرف وہ اس بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ مستقبل میں مزید خود کفیل ہو سکتا ہے۔
ادھر امریکا کو بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ایسے اقدامات سے وہ اپنے اسٹریٹجک اتحادیوں کو بدظن کر رہا ہے؟ کیونکہ اگر بھارت جیسے ملک کو امریکا اپنی قومی سلامتی کے مفاد میں قربانی دینے پر مجبور کرے گا، تو یہ ایک سنگین پیغام باقی دنیا کے لیے بھی جائے گا۔ مجموعی طور پر اس تنازعے سے یہی سبق حاصل ہوتا ہے کہ تجارتی تعلقات کو جذبات، سیاسی بیانات، اور دباؤ کی پالیسیوں سے نہیں بلکہ باہمی مشاورت، اقتصادی حقیقت پسندی اور دور اندیشی سے ہی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اس وقت جب کہ عالمی معیشت کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، ایسے تنازعات کا حل تلاش کرنا نہ صرف ان دونوں ممالک کے لیے اہم ہے بلکہ عالمی معیشت کے استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ کیونکہ جب دو بڑی جمہوریتیں باہم الجھتی ہیں تو اس کا اثر صرف ان کی سرحدوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہوتی ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے کی جانب سے اگر بھارت کے درمیان اس فیصلے کہ بھارت بھارت کی بھارت کے نے بھارت برا مدات کرتا ہے سکتا ہے میں ایک رہا ہے کے لیے کرے گا کے بعد بھی ہے
پڑھیں:
دفاع سے تجارت تک: پاکستان اور سعودی عرب کا نیا مشترکہ معاشی سفر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) مقامی میڈیا کی طرف سے ہفتے کے روز سامنے آنے والی رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب کے اعلیٰ سطحی تجارتی وفد کے اس دورے کا مقصد پاکستان کی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے ذریعے سعودی مملکت کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینا ہے۔
ریاض اور اسلام آباد نے 17 ستمبر کوباہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، جس سے دہائیوں پرانی سکیورٹی شراکت داری کو نمایاں طور پر مضبوط کیا گیا۔
یہ معاہدہ اس وقت ہوا جب اسرائیل کے قطر پر حملوں کے بعد خطے کی سفارتی اور سکیورٹی صورتحال میں بڑی تبدیلی آئی۔ سعودی تجارتی وفد کے دورے کی تیاریاںدی نیوز انٹرنیشنل کے ذرائع کے مطابق اعلیٰ سطحی سعودی تجارتی وفد کے پاکستان کے دورے کی تیاریوں کے ضمن میں اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے کے سینئر حکام نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایل سی سی آئی) کے صدر میاں ابوذر شاد سے ملاقات کی۔
(جاری ہے)
اس موقع پر سعودی کمرشل اتاشی نائف بن عبدالعزیز الحربی نے اعلان کیا کہ مملکت ایل سی سی آئی میں ایک خصوصی کمرشل ڈیسک قائم کرے گی، جس کا مقصد دو طرفہ تجارتی اقدامات کو آسان بنانا اور کاروباری روابط کو فروغ دینا ہے۔
الحربی نے پاکستان کی اُن معاشی صلاحیتوں جنہیں ہنوز بروئے کار نہیں لایا گیا، کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کی خاطر ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہپاکستانی مصنوعات کی براہ راست سعودی عرب برآمدات کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جس سے یورپ سمیت تیسرے فریق کے ذریعے برآمدات کی ضرورت ختم ہو جائے گی، اس طرح لاگت میں کمی اور کارکردگی میں بہتری آئے گی۔امداد سے زیادہ تجارت پر زور
سعودی کمرشل اتاشی نائف بن عبدالعزیز الحربی نے کہا ، ''ہمارا مقصد ایسی منظم پالیسیاں بنانا ہے جو نہ صرف اقتصادی تعاون کو مضبوط کریں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان عوام کے عوام کے ساتھ روابط کو بھی بہتر بنائیں۔
‘‘دی نیوز انٹرنیشنل کے ذرائع نے مزید انکشاف کیا ہے کہ دورے کے دوران سعودی وفد پنجاب بھر کی اہم کاروباری شخصیات سے بھی ملاقاتیں کرے گا۔ پنجاب بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ اور لاہور چیمبر آف کامرس کے اشتراک سے خصوصی سیشنز کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ صوبہ بھر کے چیمبرز کے نمائندوں کو ایل سی سی آئی میں اکٹھا کیا جائے گا تاکہ وہ سعودی کاروباری رہنماؤں سے بات چیت کر سکیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد نے امداد سے زیادہ ''تجارت‘‘ کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہپاکستان کو امداد کی ضرورت نہیں بلکہ تجارت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے میری ٹائم فیری سروس کو بحال کرنے کی تجویز بھی پیش کی جو 1960 کی دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان چلنے والی نقل و حرکت کو آسان بنانے اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے تھی۔
ادارت: افسر اعوان