مائکروچپس کیا ہیں اور ان پر ٹرمپ 100 فیصد ٹیکس کیوں لگا رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ سیمی کنڈکٹرز (مائیکروچپس) کی درآمد پر 100 فیصد کسٹمز ڈیوٹی (ٹیکس) عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کرنا چاہ رہے ہیں اور درحقیقت یہ سیمی کنڈکٹرز ہوتے ہیں کیا ہیں، آئیے جانتے ہیں اس رپورٹ میں۔
یہ بھی پڑھیں: کمپیوٹر چپ کی تیاری: چین 2025 میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کے لیے پُرعزم
بی بی سی کے مطابق یہ چھوٹے چپس جدید ٹیکنالوجی کے لیے انتہائی اہم ہیں اور کئی طرح کے آلات میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ٹیکس اگرچہ کچھ سیمی کنڈکٹر بنانے والی کمپنیوں پر لاگو نہیں ہوں گے مگر اس کے باوجود ٹیکنالوجی کی صنعت پر اثر پڑنے کا امکان ہے اور بعض مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
سیمی کنڈکٹر کیا ہیں اور کہاں استعمال ہوتے ہیں؟سیمی کنڈکٹرز، جنہیں مائیکروچپس یا انٹیگریٹڈ سرکٹس بھی کہا جاتا ہے، جدید آلات جیسے اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپس، ویڈیو گیم کنسولز، پیک میکرز اور سولر پینلز میں استعمال ہوتے ہیں۔
یہ چپس بنیادی طور پر سلیکون جیسے خام مواد سے بنائے جاتے ہیں اور جزوی طور پر بجلی کو گزرنے دیتے ہیں جس سے یہ برقی سوئچز کی طرح کام کرتے ہیں۔ اسی کی بدولت یہ کمپیوٹرز کی زبان یعنی صفر اور ایک کے بائنری نظام کو سمجھتے اور چلتے ہیں۔
سیمی کنڈکٹرز کہاں بنتے ہیں؟برطانیہ، امریکا، یورپ اور چین زیادہ تر تائیوان پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ وہاں کی کمپنی ٹی اسی ایم سی دنیا کی آدھی سیمی کنڈکٹر فراہمی کرتی ہے۔
ٹی ایس ایم سی 1987 میں قائم ہوئی تھی اور یہ دنیا کی پہلی کمپنی تھی جو خاص طور پر دوسرے برانڈز کے لیے چپس بناتی ہے۔ اس کے بڑے کلائنٹس میں نویڈیا، ایپل اور مائکروسوفٹ ہیں۔
مزید پڑھیے: جاپان نے سیمی کنڈکٹر کے اہداف کے لیے تقریباً 4 بلین ڈالر کی سبسڈی دے دی
یہ کمپنی امریکا اور چین کے درمیان جاری ’چپ وارز‘ کا مرکز بھی رہی ہے جہاں دونوں ممالک ایک دوسرے کی سپلائی چینز کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جنوبی کوریا کی سامسنگ الیکٹرانکس اور ایس کے ہائینکس بھی خصوصاً میموری چپس کے شعبے میں بڑے سیمی کنڈکٹر سپلائرز میں شامل ہیں۔
ٹرمپ 100 فیصد ٹیکس کیوں لگانا چاہتے ہیں؟ٹرمپ کی حکومت کا مقصد امریکی صنعت کو فروغ دینا اور کمپنیوں کو امریکا میں زیادہ مصنوعات بنانے کی ترغیب دینا ہے۔
گزشتہ اپریل میں کچھ الیکٹرانک مصنوعات جیسے اسمارٹ فونز اور کمپیوٹرز کو چین سے آنے والے ٹیکس سے مستثنیٰ کر دیا گیا تھا جس سے ٹیکنالوجی کی صنعت نے راحت کی سانس لی۔
لیکن اگست میں صدر نے اعلان کیا کہ وہ بیرون ملک سے آنے والے سیمی کنڈکٹرز پر 100 فیصد ٹیکس لگائیں گے اور کمپنیوں کو کہا کہ وہ امریکا میں سرمایہ کاری کریں تاکہ اس ٹیکس سے بچ سکیں۔
اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟اگر 100 فیصد ٹیکس نافذ ہو جاتا ہے تو یہ امریکی اور غیر ملکی سیمی کنڈکٹر بنانے والی کمپنیوں کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ زیادہ تر چپس ایشیا میں بنتے ہیں۔
یہ صورتحال مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور پیداوار میں تاخیر کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ کمپنیاں اپنی پیداوار امریکا منتقل کرنے کی کوشش کریں گی۔
البتہ بڑی کمپنیوں جیسے ایپل، سامسنگ ایس کے ہائینکس نے امریکا میں سرمایہ کاری کی ہے جس کی وجہ سے وہ اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہو سکتے ہیں۔
امریکا سیمی کنڈکٹر پیداوار کیسے بڑھا سکتا ہے؟امریکا نے حالیہ برسوں میں ٹیکنالوجی کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے، اور ٹی ایس ایم سی نے بھی ایریزونا میں فیکٹری بنا کر امریکا میں اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
لیکن وہاں ماہر ورکرز کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لیے ٹی ایس ایم سی ہزاروں ملازمین تائیوان سے لائی ہے۔
مزید پڑھیں: دنیا کی سب سے طاقتور برین چپ نے انسانی آزمائش میں کامیابی حاصل کر لی
سیمی کنڈکٹرز جدید دور کی اہم ترین ٹیکنالوجی کا حصہ ہیں اور ٹرمپ کا 100 فیصد ٹیکس لگانے کا منصوبہ امریکی مینوفیکچرنگ کو بڑھانے اور قومی سلامتی کے تحفظ کی کوشش ہے۔ تاہم اس کے اثرات عالمی سپلائی چین اور صارفین کی جیب پر پڑ سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیکنالوجی سامسنگ سیمی کنڈکٹر مائیکروچپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیکنالوجی سیمی کنڈکٹر سیمی کنڈکٹرز سرمایہ کاری سیمی کنڈکٹر امریکا میں فیصد ٹیکس ہوتے ہیں ہیں اور کی صنعت ایم سی کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کے مالی خسارے، سود , اخراجات اور محصولات پر اقتصادی تھنک ٹینک کی رپورٹ جاری
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) معروف اقتصادی تھنک ٹینک ٹاپ لائن ریسرچ نے بتایا ہے کہ پاکستان کے مالی خسارے اور سود اخراجات میں نمایاں کمی جبکہ محصولات میں اضافہ ہوا اور گزشتہ مالی سال کے معاشی اشاریے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی توقعات سے بھی بہت بہتر رہے ہیں۔
ٹاپ لائن ریسرچ نے پاکستان کی معاشی صورت حال پر رپورٹ جاری کردی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 25-2024 میں پاکستان کا مالی خسارہ 9 سال کی کم ترین سطح پر آگیا، مالی خسارہ مجموعی قومی پیداوارکا صرف 5.38 فیصد رہا اور یہ کامیابی ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو میں 36 فیصد سالانہ اضافے کی وجہ سے ہوئی ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران اخراجات میں بھی صرف 18 فیصد اضافہ ہوا۔خسارہ حکومت کی نظرثانی شدہ 5.6 فیصد اور آئی ایم ایف کی پیش گوئی سے بہتر رہا ہے اور ابتدائی بجٹ میں خسارے کا تخمینہ 5.9 فیصد لگایا گیا تھا.
حکومت کا رجسٹریشن کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کے حوالے سے بڑا فیصلہ
ایکسپریس نیوز کے مطابق رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال نان ٹیکس آمدن میں 66 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا، اسٹیٹ بینک سے حاصل ریکارڈ 2.62 ٹریلین روپے کے منافع سے ممکن ہوا ہے جبکہ اس سے پچھلے سال اسٹیٹ بینک کا منافع ایک ہزار ارب روپے سے بھی کم تھا۔
مزید :