اقوامِ متحدہ کے ساتھ ہمارا رشتہ: امید، مایوسی اور سوال
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
جب انسان نے دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کو دیکھا تو شاید پہلی بار اسے اپنی اجتماعی کمزوری کا ادراک ہوا، وہ ٹینکوں، ہوائی جہازوں اور ایٹم بموں سے لیس تھا، مگر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے شہروں کو راکھ میں بدل بیٹھا تھا۔
لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے، بستیاں اجڑیں، تمدن بکھر گئے اور وہ تہذیب جو اپنے آپ کو روشن خیالی کا ترجمان کہتی تھی، وہ خود تاریکی میں ڈوب گئی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا کو احساس ہوا کہ طاقت اگر قانون کے تابع نہ ہو تو وہ تمدن کو بھی مٹا سکتی ہے۔ اسی احساسِ زیاں سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی، جس کا مقصد یہ تھا کہ آئندہ نسلوں کو جنگ کی ہلاکت خیزی سے بچایا جا سکے۔
اقوامِ متحدہ کا قیام محض ایک ادارہ قائم کرنا نہ تھا، بلکہ یہ انسان کے ضمیر کا ایک اجتماعی فیصلہ تھا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد مختلف ریاستیں سان فرانسسکو میں جمع ہوئیں اور انہوں نے ایک ایسا منشور مرتب کیا جو صرف اقوام کے درمیان تعلقات کا ضابطہ نہ تھا بلکہ انسانوں کے درمیان ایک نیا اخلاقی معاہدہ بھی تھا۔
منشور کے آغاز میں جو جملہ درج کیا گیا، وہ دراصل اس ادارے کی روح ہے۔ ’ہم اقوامِ عالم کے لوگ یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو جنگ کی لعنت سے محفوظ رکھیں گے اور باہمی افہام وتفہیم، مساوات اور انسانی حقوق کے احترام پر مبنی ایک دنیا کی تعمیر کریں گے۔‘
یہ ادارہ پہلی کوشش نہیں تھا، اس سے قبل پہلی عالمی جنگ کے بعد (لیگ آف نیشنز) کے نام سے ایک بین الاقوامی ادارہ قائم کیا گیا تھا، جو امن قائم رکھنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا، اس ادارے میں قانونی اختیار کمزور تھا اور بڑی طاقتوں نے اس میں شرکت ہی نہ کی یا پھر اس کے فیصلوں کو نظر انداز کیا۔
جب دوسری جنگ چھڑی تو یہ ادارہ پہلے ہی عملاً ختم ہو چکا تھا، یہی ناکامی اقوامِ متحدہ کے قیام کے وقت سامنے رکھی گئی اور عہد کیا گیا کہ اب جو ادارہ قائم ہوگا وہ قانونی طور پر مضبوط، اختیاری طور پر مؤثر اور اخلاقی طور پر غیر جانبدار ہوگا۔
اقوامِ متحدہ کے منشور میں ایسے اصول طے کیے گئے جو بین الاقوامی قانون میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم اصول یہ تھا کہ کوئی بھی قوم، بڑی ہو یا چھوٹی قانون کے برابر تابع ہوگی۔ یہ وہ دعویٰ تھا جو اس سے قبل کبھی بین الاقوامی سطح پر اس وضاحت سے نہیں کیا گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ نے ریاستوں کے درمیان نہ صرف جنگ کو روکنے کی کوشش کی بلکہ امن کو ایک مستقل حالت کے طور پر قائم رکھنے کا ہدف بھی مقرر کیا۔ اس کے لیے ادارے کو متعدد ذیلی اداروں میں تقسیم کیا گیا جن میں سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی، اقتصادی وسماجی کونسل، بین الاقوامی عدالتِ انصاف اور سیکریٹریٹ شامل ہیں۔
ان میں سب سے زیادہ اختیار سلامتی کونسل کو حاصل ہے، جہاں پانچ ریاستوں کو مستقل رکنیت اور فیصلہ کن اختیار حاصل ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اقوامِ متحدہ کے بنیادی دعوے اور عملی ساخت میں تضاد پیدا ہوتا ہے۔
امن کا ادارہ ایک ایسے ڈھانچے پر قائم ہے جس میں بعض اقوام کو دوسری اقوام پر فوقیت حاصل ہے۔ جن ریاستوں نے جنگ میں فتح حاصل کی، وہی آج بھی فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہیں اور ان کی منظوری کے بغیر کوئی کارروائی ممکن نہیں۔ یہ وہ پہلو ہے جس پر سب سے زیادہ علمی واخلاقی تنقید وارد ہوتی ہے، اور جو اقوامِ متحدہ کی اخلاقی اتھارٹی کو محدود کرتا ہے۔
اس سب کے باوجود اس ادارے نے عالمی سطح پر کئی مثبت پیش رفتیں بھی ممکن بنائیں۔ نو آبادیاتی نظام کے خاتمے میں اقوامِ متحدہ کا کردار مرکزی رہا، انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اس ادارے ہی کی نگرانی میں مرتب ہوا، اور تعلیم، صحت، خوراک، ہجرت، اور اطفال کے تحفظ کے لیے متعدد عالمی ایجنسیاں اسی کے زیرِ اثر قائم ہوئیں۔ اگرچہ ان اداروں کے اثرات دنیا کے ہر گوشے تک یکساں نہ پہنچ سکے، لیکن ان کی موجودگی نے انسانیت کی اجتماعی فلاح کے تصور کو مہمیز ضرور دی۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطین، کشمیر، روانڈا، بوسنیا، شام، عراق، اور یمن جیسے مقامات پر اقوامِ متحدہ کی کارکردگی یا تو محدود رہی یا پھر غیر مؤثر۔ سلامتی کونسل میں بڑی طاقتوں کے باہمی مفادات نے اکثر انصاف کو مؤخر کیا اور کمزور اقوام کے حق میں فیصلے رُک گئے۔ قراردادیں تو منظور ہوئیں، مگر ان پر عمل درآمد ویٹو کی نذر ہوگیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ صرف قانونی ادارہ نہیں، بلکہ سیاسی مصلحتوں کا اسیر بھی ہے۔
آج جب ہم اکیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں داخل ہو چکے ہیں، دنیا ایک بار پھر نظریاتی تقسیم، ماحولیاتی بحران اور اقتصادی غیر مساوات کے گہرے گرداب میں ہے۔ ایسے وقت میں اقوامِ متحدہ کا وجود ایک علامتی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، ایک ایسا ادارہ جو موجود تو ہے، مگر با اختیار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ادارہ اب بھی وہی مقصد پورا کر رہا ہے جس کے لیے اسے قائم کیا گیا تھا؟ کیا امن، انصاف اور انسانی وقار محض قراردادوں کے عنوان بن چکے ہیں؟ یا ہمیں پھر کسی نئے عالمی معاہدے کی ضرورت ہے، جس میں انسان محض ایک قوم یا ریاست کا نمائندہ نہ ہو، بلکہ ایک فطری حق رکھنے والی ہستی کے طور پر پیش ہو؟
اقوامِ متحدہ ایک خواب کی تعبیر تھی، ایک ایسا خواب جس میں دنیا ایک نظامِ عدل کے تحت جی سکے۔ مگر خواب اگر صرف تحریر میں باقی رہ جائے تو وہ بیداری کی دلیل نہیں بنتا۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس ادارے کو محض روایتی سفارت کاری کا مرکز نہ بننے دیں، بلکہ اسے انسانوں کے حق میں بولنے والا اور ان کے حق میں عمل کرنے والا ادارہ بنائیں۔ کیونکہ اگر اقوامِ متحدہ صرف اقوام کی ہوگئی، تو انسانیت اس میں کہاں باقی رہے گی؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ طاقتور ریاستیں طلحہ الکشمیری عالمی جنگ فلسطین وی نیوز بین الاقوامی متحدہ کے کیا گیا کے لیے اور ان
پڑھیں:
سید نور کے بیٹے اور صائمہ نور کے درمیان ماں بیٹے کا رشتہ کیسے پروان چڑھا؟
ہدایتکار سید نور کے صاحبزادے شازل نے انکشاف کیا ہے کہ والدہ کے انتقال کے بعد ان کے اور صائمہ نور کے درمیان کس طرح ایک مضبوط اور خوبصورت ماں بیٹے کا رشتہ قائم ہوا۔
شازل نے حال ہی میں والد کے ہمراہ سینئر صحافی و یوٹیوبر عنبرین فاطمہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنی سوتیلی والدہ صائمہ نور کے ساتھ تعلق کے بارے میں کھل کر گفتگو کی۔
انہوں نے بتایا کہ جب ان کی والدہ رُخسانہ نور کا انتقال ہوا تو وہ بہت کم عمر تھے، ان کی بہنیں بیرون ملک آباد تھیں، اسی لیے وہ والدہ کے انتقال کے کچھ عرصے کے بعد واپس چلی گئیں، جب کہ والد سید نور ہمیشہ شوٹنگز میں مصروف رہتے تھے، ایسے میں وہ بہت اکیلے رہ گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک دن انہیں ایک ایسے نمبر سے کال موصول ہوئی جو ان کے پاس محفوظ نہیں تھا، فون اٹھانے پر آگے سے پوچھا گیا کہ کیا کھانا کھایا ہے؟
شازل نے سوال کیا کہ آپ کون؟ تو چند لمحے کی خاموشی کے بعد جواب آیا کہ صائمہ، ان کے انکار پر صائمہ نور نے اصرار کیا کہ اگر انہوں نے کھانا نہیں کھایا تو یا تو وہ ان کے گھر آجائیں یا وہ خود کھانا لے کر آجائیں گی۔
ان کے مطابق اس واقعے کے بعد سے وہ صائمہ نور کے پاس جانے لگے اور گھنٹوں اپنی والدہ کی یادوں پر بات کرتے، صائمہ نور ان کی تمام باتیں خاموشی سے سنتیں۔
شازل نے کہا کہ انہیں اندازہ تھا کہ یہ باتیں صائمہ نور کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں کیونکہ وہ اپنی سگی والدہ کا ذکر کرتے تھے، لیکن صائمہ نور نے ہمیشہ اس رشتے کا احترام کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح دونوں کے درمیان ایک خوبصورت رشتہ پروان چڑھا، صائمہ نور انہیں تسلی دیتی تھیں اور آج وہ ان کی بہترین سہیلی ہیں۔
شازل نے مزید بتایا کہ وہ صائمہ نور کو ’امّاں‘ کہتے ہیں، جب کہ اپنی سگی والدہ کو ’ماما‘ کہا کرتے تھے۔
واضح رہے کہ صائمہ نور ہدایتکار سید نور کی دوسری اہلیہ ہیں، جب کہ ان کی پہلی شادی مرحومہ رُخسانہ نور سے ہوئی تھی جن سے ان کے بچے بھی ہیں۔
Post Views: 2