Express News:
2025-08-09@23:28:39 GMT

دنبہ کی آمد

اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT

’’ دنبہ‘‘ جانور ایک اہم مذہبی فریضہ سے منسوب ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں بسے مسلمان کے سامنے جب دنبہ کا ذکر یا حوالہ آتا ہے تو اُس کے ذہن میں فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذات سے وابستہ جذبہ قربانی اور توکل عَلَی اللہ کی چاشنی سے لبریز پختہ ایمان کی زندہ جاوید مثال آ جاتی ہے۔

دنبہ، سنتِ ابراہیمی اور پانچ ارکانِ اسلام کا چوتھا رُکن ’’ حج‘‘ یہ تمام ماہِ ذوالحجہ سے منسلک ہیں لیکن دنبہ کی انسانی زندگی میں آمد محض ایک اسلامی مہینے تک محدود نہیں رہتی ہے بلکہ یہ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو علامتی طور پر انسانوں کی زندگیوں میں قدم قدم پر اپنا آپ ظاہر کرتا رہتا ہے اور میری ذات پر یہ انکشاف ابھی چند ماہ قبل ہی عیاں ہوا ہے۔

دنبہ درحقیقت مددِ خداوندی ہے جو کسی بھی رنگ، ساخت اور شکل میں ربِ الٰہی کے صابر بندوں کی زندگیوں میں اُس ذاتِ عظیم کے حکم سے بھیجی جاتی ہے۔ دراصل مددگار تک یہ مدد باآسانی نہیں پہنچتی ہے بلکہ سب سے پہلے تخلیق کا آزمائشی امتحان لیا جاتا ہے جس کے ذریعے اُس کے وجود میں موجود توکل و ایمان کو باریک بینی سے جانچا جاتا ہے پھر اُس کے صبر کو آزمایا جاتا ہے۔ انسان اپنے خالق کی آزمائش میں اگر صابر، شاکر، ثابت قدم اور ایماندار پایا جاتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد اُس تک پہنچنے سے دنیا کی کوئی بھی طاقت روک نہیں سکتی ہے۔

 یہ باتیں لکھنا اور کہنا جتنا آسان ہے، اس کے برعکس ان حالات سے گزرنا اتنا ہی کٹھن ہے۔ درج بالا باتیں پڑھ کر اگر کوئی انسان سوچ رہا ہے، معاملہ اس قدر سہل ہوگا کہ انسان پر مصیبت آئی اور کچھ وقت گزرنے کے بعد اُس تک خدا تعالیٰ کی مدد پہنچ گئی تو وہ غلطی پر ہے کیونکہ جب اس کائنات کو خلق کرنے والی بڑی ذات کے پسندیدہ بندوں کی فہرست میں اپنی جگہ بنانے کی بات آتی ہے تو دشوار گزار راستوں پر تخلیقِ خداوند کا چلنا لازم و ملزوم ہوجاتا ہے۔

دراصل دنبہ کی جلوہ افروزی سے قبل زیستِ انسانی تابناک حالات سے دوچار ہوتی ہے، جان سولی پر اور تیز دھار چُھری انسان کو اپنے حلق پر رکھی محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک سانس کے بعد دوسری سانس لینا انسان کو محال لگ رہا ہوتا ہے، اُس کا جسم سُن اور عقل بالکل ماؤف ہو جاتی ہے۔ ایسے وقت میں انسان کو اپنے آگے کنواں اور پیچھے کھائی دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ ہر گزرتا لمحہ انسانی وجود پر صرف اور صرف بوجھ میں اضافے کا باعث بن رہا ہوتا ہے جو اُس کی روح کو بھی شدید زخمی کر کے رکھ دیتا ہے۔

قرآنِ کریم کی سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، ’’ اور ہم تمہیں اچھائی اور برائی (دونوں طرح) سے آزماتے ہیں۔‘‘ سورۃ العنکبوت میں ربِ جلیل اس بات کو مزید اس طرح واضح کرتے ہیں، ’’ اور بے شک ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمایا جو ان سے پہلے تھے، تاکہ اللہ جان لے کہ واقعی ایمان والے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں۔‘‘

خاتم النبیین حضور اکرم ﷺ نے ایک موقعے پر ارشاد فرمایا، ’’ خداوند عالم ایسے سرکش و نافرمان بندے پر سخت ناراض ہوتا ہے جس کی جان و مال میں کوئی آزمائش یا آفت نہ آئے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ سے مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’ بڑا ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انھیں آزماتا ہے۔ پس جو اس پر راضی ہو، اس کے لیے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لیے ناراضگی ہے۔‘‘

جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اپنے خالق پر توکل چٹان کی مانند مضبوط تھا تو اُن کے گلے پر رکھی چُھری بھی چل نہ پائی اور دنبہ کی آمد وقوع پذیر ہوئی، بالکل اسی طرح جس انسان کا ربِ الٰہی کی ذات پر پختہ یقین ہوگا طوفان کی خطرناک سے خطرناک موجیں بھی اُس کا بال بیکا نہیں کر پائیں گی۔

ہم انسان اپنی روزمرہ کی زندگی میں بیشمار مشکلات کا سامنا کرتے ہیں جن میں سے بعض کی نوعیت ہلکی جب کہ کچھ نا قابلِ برداشت ثابت ہوتی ہیں جو ہمارا دن کا چین اور راتوں کی نیندیں اُڑا کر رکھ دیتی ہیں، اُس دوران ہمیں اپنا دم گھُٹتا، جان نکلتی اور حلق پر کسی بھی لمحے چلنے کو تیار تیز دھار چُھری محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔

یہی رحمٰن و رحیم پر کامل یقین رکھتے ہوئے اُس بڑی ذات کی مدد کو پکارنے کا اصل وقت ہوتا ہے، جس انسان نے اس موقع پر اپنے ایمان و یقین کو متزلزل ہونے سے بچا لیا اور اپنے خالق کو صدقِ دل سے پکار لیا اُس کی چند لمحے قبل نکلتی ہوئی جان اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجے گئے دنبہ پر ٹل جاتی ہے۔

یہ فلسفہ غیبی مدد اللہ تعالیٰ کے جس بندے کی سمجھ میں آگیا، اُس کے لیے اپنی زندگی میں موجود اذیتوں کو جھیلنا سہل ہو جاتا ہے اور ایک عجب لطف کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جہاں اُسے ہر بار اپنے حلق پر چُھری آنے پر دنبہ کی آمد کا انتظار رہتا ہے کہ ستر ماؤں سے زیادہ اُس سے محبت کرنے والا ربِ کائنات اب کس رنگ، ساخت اور شکل میں اپنی مدد مجھ تک پہنچائے گا اور جیسی ہی دنبہ منظر پر ظاہر ہوتا ہے اُس کے جسم کا روم روم اس کرم نوازی پر سرشار ہوتا ہوا بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اللہ تعالی دنبہ کی ا جاتا ہے جاتی ہے ہوتی ہے ہوتا ہے ہے اور

پڑھیں:

قومی سطح پر حزب اللہ لبنان کی حمایت

اسلام ٹائمز: ایک طرف امریکی حکام لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ضاحیہ، بعلبک، صور اور لبنان کے دیگر علاقوں میں عوام وسیع پیمانے پر حزب اللہ لبنان کی حمایت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل لبنان میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہوا ہے جس میں بڑے ٹرن آوٹ کے ساتھ ساتھ حزب اللہ لبنان کو بھی بھاری عوامی مینڈیٹ حاصل ہوا ہے۔ حزب اللہ لبنان اور امل تنظیم کے اتحاد کی گذشتہ طویل عرصے سے مختلف انتخابات میں مسلسل کامیابیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ لبنانی عوام ہر قسم کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی حالات میں اسلامی مزاحمت کی حمایت پر مصر ہیں۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
"ہم جانتے ہیں کہ جنگ میں قربانی دینی پڑتی ہے لیکن ہم اپنے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہیں"۔ یہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کی تازہ ترین تقریر کا ایک جملہ ہے جو ایسے وقت بیان کیا گیا ہے جب امریکہ نے لبنانی حکومت پر حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے بھرپور دباو ڈال رکھا ہے۔ شیخ نعیم قاسم نے اس جملے کے ذریعے ایک بار پھر امریکی صیہونی جرائم کے خلاف مسلح جدوجہد میں استقامت ظاہر کرنے کے عزم راسخ کا اظہار کیا ہے۔ درحقیقت غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے لبنان پر بھرپور فوجی جارحیت کا مرحلہ ناکامی کا شکار ہو کر ختم ہو جانے کے بعد امریکہ نے انہی اہداف کو سفارتی طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کا آغاز کر دیا تھا۔ امریکہ نے لبنان میں برسراقتدار آنے والی نئی حکومت کو بھی اسی روڈ میپ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہدایت کی ہے۔
 
سرمایہ کاری کے شعبے میں ٹرمپ کے خصوصی نمائندے تھامس براک نے بیروت کو قرضے اور مالی امداد فراہم کرنے کی یہ شرط لگائی تھی کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ شروع کیا جائے۔ لہذا جوزف عون کی سربراہی میں جدید لبنانی حکومت ایک مشکل دو راہے پر آن کھڑی ہوئی ہے اور حزب اللہ لبنان کے خلاف اس کے اقدامات نے لبنانی عوام میں غصے کی لہر پیدا کر دی ہے۔ حال ہی میں بیروت کے جنوبی علاقوں المشرینہ اور الکفاءات میں حزب اللہ لبنان کے حق میں عظیم عوامی اجتماعات منعقد ہوئے اور یوں لبنانی عوام نے اسلامی مزاحمت سے تجدید عہد کیا ہے۔ ملکی آئین پر فرقہ واریت کا رنگ غالب ہونے کے باعث لبنان کا سیاسی ڈھانچہ شدید اداری کمزوریوں کا شکار ہے جس کی وجہ سے لبنانی حکومت فوری طور پر کوئی بھی بڑا فیصلہ اختیار کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا ایک نتیجہ سیکورٹی کمزوری بھی ہے جس کے باعث عوام زیادہ تر بیرونی طاقتوں پر انحصار کرتے ہیں۔
 
فرقہ واریت کے اس ماحول میں جس نے لبنان کے وجود کو خطرے میں ڈال رکھا ہے، حزب اللہ لبنان نے اپنے بیانیے کا مرکز و محور قومیت اور دین مبین اسلام کو بنایا ہے۔ اس نقطہ نظر کی روشنی میں حزب اللہ لبنان وہ واحد تنظیم ہے جو بھرپور قومی حمایت سے برخوردار ہے۔ یقیناً اس عوامی حمایت کے نتیجے میں حاصل ہونے والا اقتدار اور اثرورسوخ دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ مختلف قسم کے ہتھکنڈوں اور سازشوں سے حزب اللہ کو کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ لبنان کی نئی حکومت اس وعدے سے برسراقتدار آئی تھی کہ وہ اسرائیل کی فوجی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہ کاریوں کی تعمیر نو کرے گی۔ اس مقصد کے لیے لبنانی حکومت کا انحصار بیرونی سرمایہ کاری پر تھا لیکن وائٹ ہاوس نے سرمایہ کاری کے لیے ایک شرط عائد کر دی اور وہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا ہے۔ اس وقت لبنانی حکومت کے اہداف میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
 
ایک طرف امریکی حکام لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ضاحیہ، بعلبک، صور اور لبنان کے دیگر علاقوں میں عوام وسیع پیمانے پر حزب اللہ لبنان کی حمایت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل لبنان میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہوا ہے جس میں بڑے ٹرن آوٹ کے ساتھ ساتھ حزب اللہ لبنان کو بھی بھاری عوامی مینڈیٹ حاصل ہوا ہے۔ حزب اللہ لبنان اور امل تنظیم کے اتحاد کی گذشتہ طویل عرصے سے مختلف انتخابات میں مسلسل کامیابیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ لبنانی عوام ہر قسم کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی حالات میں اسلامی مزاحمت کی حمایت پر مصر ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کے خلاف حزب اللہ لبنان کی مزاحمت کا تسلسل صیہونی کابینہ کی آنکھ میں کانٹا بن چکا ہے کیونکہ لبنان میں ان کے پست اہداف کی راہ میں حزب اللہ ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
 
امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے لبنانی حکومت پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباو بڑھ جانے کے بعد بیروت میں اس بیرونی فتنے کے خلاف بڑا عوامی اجتماع منعقد ہوا جس میں شریک افراد نے حزب اللہ لبنان کے حق میں نعرے لگائے۔ اسی طرح انہوں نے "لبیک یا نصراللہ" کا نعرہ لگاتے ہوئے حزب اللہ کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت اور لبنانی حکومت پر اپنے مطالبات منوانے کے لیے دباو ڈالنے کی بھی مذمت کی۔ اس بارے میں اخبار رای الیوم نے لکھا: "یوں دکھائی دیتا ہے کہ حزب اللہ لبنان نے اسلحہ زمین پر نہ رکھنے اور اپنے شہید سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کا راستہ اور مشن جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔" حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاس نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس کے شہید کمانڈر جنرل محمد سعید ایزدی یا "حاج رمضان" کے چہلم کے موقع پر تقریر کی۔
 
شیخ نعیم قاسم نے اس تقریر میں کہا: "اسلامی مزاحمت کی جانب سے اسلحہ زمین پر رکھ دینے سے ہر گز اس بات کی ضمانت فراہم نہیں ہو گی کہ دشمن دوبارہ لبنان پر فوجی جارحیت نہیں کرے گا اور خود صیہونی حکمران بھی اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ حزب اللہ نے جنگ بندی معاہدے کی پوری پابندی کی ہے اور اب تک اس کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔" انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "وزیراعظم ہمیشہ مقبوضہ سرزمین آزاد کروانے کا عہد کرتے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی اقدام انجام نہیں دیتے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی مزاحمت اور عوام کو غیر مسلح کرنے کی بجائے اس طاقت کو اپنے دفاع کے لیے استعمال کرے۔" شیخ نعیم قاسم نے زور دیتے ہوئے کہا: "ہم کوئی نیا معاہدہ قبول نہیں کریں گے اور امریکہ اور اسرائیل کے دباو پر کوئی ڈیڈ لائن نہیں مانیں گے۔"

متعلقہ مضامین

  • لبنان میں حزب اللہ کے اسلحہ ڈپو میں دھماکا، 6 اہلکار جاں بحق
  • حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی خام خیالی
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آباد ہندو برادری کو رکشا بندھن کی پیشگی مبارکباد پیش کرتے ہیں، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
  • اقوال زریں!
  • مثالی سول سرونٹ اور انسان دوست رہنماء کو خراجِ تحسین
  • چین کا پہلا مون لینڈر ٹیسٹ کامیاب، انسان بردار مشن کی راہ ہموار
  • قومی سطح پر حزب اللہ لبنان کی حمایت
  • لکی مروت،فائرنگ کے 2مختلف واقعات میں تین افرادجاں بحق
  • قیام پاکستان کے دوران لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا:  عبدالخبیر آزاد