بیجنگ ()
جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ماحولیاتی تحفظ اور اس کے عالمی اثرات میں چین کے جدید نقطہ نظر کی وضاحت کی گئی ہے۔اتوار کے روز
شنہوا نیوز ایجنسی سے وابستہ تھنک ٹینک اور ماحولیاتی تہذیب پر شی جن پھنگ کی سوچ کے تحقیقی مرکز نے مشترکہ طور پر یہ رپورٹ جاری کی جس کا عنوان “‘سرسبز پہاڑاورشفاف پانی انمول اثاثے ہیں’ایک خوبصورت منظر کی تشکیل دیتا ہے–حیاتیاتی تہذیبوں کی تعمیر میں چین کی جدت طرازی اور عالمی اہمیت”۔
رپورٹ میں “سرسبز پہاڑاورشفاف پانی انمول اثاثے ہیں ” کےتاریخی پس منظر، بنیادی سوچ اور اہمیت کا تفصیلی تعارف پیش کیا گیا ہے،نیز اس تصور کی نظریاتی جدت طرازی، چین میں اس پر عمل درآمد اور اس کی عالمی قدر کی وضاحت کی گئی ہے۔
امریکن انسٹی ٹیوٹ آف ایکولوجیکل سولائزیشن کے نائب صدر اینڈرو شوارٹز نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا چین کی جدیدیت کی ایک منفرد خصوصیت بن گئی ہے۔ “سرسبز پہاڑ اور شفاف پانی انمول اثاثے ہیں” کے تصور میں گہری ماحولیاتی حکمت شامل ہے ،جو چین کی روایت “فطرت اور انسان کے اتحاد” سے ہم آہنگ ہے، اور عالمی ماحولیاتی تہذیب میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

Post Views: 7.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

آوازا کانفرنس: خشکی میں گھرے ممالک کا نیا ماحولیاتی اتحاد بنانے پر اتفاق

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اگست 2025ء) سمندر تک براہ راست رسائی سے محروم ممالک (ایل ایل ڈی سی) کی خصوصی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک نئے ماحولیاتی مذاکراتی اتحاد کے قیام پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔

یہ فیصلہ ترکمانستان کے شہر آوازا میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام جاری خشکی سے گھرے ممالک کی تیسری کانفرنس (ایل ایل ڈی سی 3) کے تیسرے روز کیا گیا۔

موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کے تحت یہ اتحاد عالمی سطح پر موسمیاتی بات چیت میں ان ممالک کی آواز بنے گا جہاں انہیں درپیش مسائل کو طویل عرصہ سے مناسب توجہ نہیں مل رہی۔ Tweet URL

اگرچہ یہ ممالک دنیا کے تقریباً 12 فیصد رقبے کا احاطہ کرتے ہیں لیکن گزشتہ دہائی میں کرہ ارض پر خشک سالی اور پہاڑی علاقوں میں تودے گرنے کے 20 فیصد واقعات انہی ممالک میں پیش آئے۔

(جاری ہے)

اس سے موسمیاتی آفات سے انہیں ہونے والے غیرمتناسب نقصان کا اندازہ ہوتا ہے۔

سمندر تک رسائی نہ ہونے کے باعث ان ممالک کو اپنے ہمسایہ ملکوں کے ذریعے تجارت کرنا پڑتی ہے جس کے موسمی شدت کے واقعات سے متاثر ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

'آوازا پروگرام آف ایکشن' کے تحت پہلی مرتبہ ایسا لائحہ عمل بنایا جا رہا ہے جس میں ان ممالک کو کڑے موسمیاتی حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد کی فراہمی پر بھرپور توجہ دی جائے گی۔

محدود صلاحیتیں، بڑھتے مسائل

قدرتی آفات سے لاحق خطرات میں کمی لانے کے امور پر اقوام متحدہ کے دفتر (یو این ڈی آر آر) کی سربراہ نتالیا الونسو کانو نے یو این نیوز کو انٹرویو میں بتایا ہے کہ 'ایل ایل ڈی سی' کا نصف سے زیادہ علاقہ خشک ہے اور ان میں کئی ممالک پہاڑی خطوں میں واقع ہیں اور بعض کا جغرافیہ ایسا ہے جہاں زلزلے آنے کا شدید خطرہ رہتا ہے۔

عالمی اوسط کے مقابلے میں ان ممالک کو معاشی نقصانات کا خطرہ تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ قدرتی آفات آنے کی صورت میں ان ممالک میں اموات کی شرح بھی عالمی اوسط سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

ان ممالک کو ماحولیاتی مسائل کا مؤثر طور پر مقابلہ کرنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ ان کے پاس مالی وسائل محدود ہوتے ہیں اور ان کی معیشتیں غیر متنوع اور اشیائے صرف پر مبنی ہوتی ہیں جبکہ ایسے کئی ممالک میں حکومتی نظام کمزور ہوتا ہے۔

2024 میں ایسے ایک تہائی ممالک تنازعات کا شکار تھے یا ان کی حالت غیرمستحکم تھی۔طویل المدتی منصوبہ بندی

اقوام متحدہ کے نئے 10 سالہ لائحہ عمل میں ان ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے، پائیدار ترقی اور قدرتی آفات سے لاحق خطرات میں کمی لانے کے لیے مدد دینے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔

الونسو کانو نے اس حوالے سے اٹھائے جانے والے ضروری اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آفات سے بروقت آگاہی دینے کے نظام کی بدولت زندگیوں کو تحفظ ملتا ہے۔

اس کے ذریعے لوگوں کو آفات کے لیے تیار رہنے اور بروقت انخلا کرنے میں مدد ملتی ہے۔

انہوں نے خشک سالی سے نمٹنے کی تیاری کی مثال دیتے ہوئے کہا، اگر کسی علاقے کو مسلسل اس مسئلے کا سامنا ہو تو مقامی سطح پر لوگوں کے تعاون سے اس کے اثرات پر قابو پانے کی تیاری کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں مویشیوں کی تعداد کو کم کرنے اور پانی کے ذرائع کی طرف منتقل ہونے سمیت کئی طرح کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

تاہم، ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور یاد رکھنا ہو گا کہ آئندہ دو یا تین دہائیوں میں کیا ہونے والا ہے۔ یقینی طور پر اس عرصہ میں موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔

خواتین اور لڑکیوں کی ترقی

'ایل ایل ڈی سی' میں خواتین اور لڑکیوں کو لاحق مسائل اور خطرات کے تناظر میں آج کانفرنس میں خصوصی بات چیت ہوئی۔

اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل رباب فاطمہ نے ویمن لیڈرز فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کی مکمل شرکت کے بغیر پائیدار ترقی کا حصول ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خشکی میں گھرے ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی صورتحال میں بہتری کی جانب بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ اس وقت ان ممالک کی پارلیمان میں ایک تہائی ارکان کی تعداد خواتین پر مشتمل ہے جبکہ 25 برس پہلے یہ شرح 7.8 فیصد تھی۔

اسی طرح دنیا بھر کے قانون ساز اداروں کی 54 خواتین سپیکر میں سے 11 کا تعلق انہی ممالک سے ہے۔صنفی عدم مساوات

رباب فاطمہ نے کہا کہ متعدد کامیابیوں کے باوجود خواتین کی حالت میں بہتری لانے سے متعلق پیش رفت سست اور ناہموار ہے۔ ایسے ممالک میں ایک چوتھائی خواتین شدید غربت کا شکار ہیں جن کی تعداد تقریباً سات کروڑ 50 لاکھ ہے۔ اسی طرح، تقریباً نصف (25 کروڑ) خواتین کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔

روزگار سے متعلق اعدادوشمار میں بھی صنفی حوالے سے نمایاں تفاوت دکھائی دیتا ہے۔ ان ممالک میں 80 فیصد خواتین غیررسمی شعبے میں کام کرتی ہیں جنہیں ٹھیکوں یا تحفظ تک رسائی نہیں ہے جبکہ ایسی خواتین کی عالمی اوسط 56 فیصد ہے۔

خشکی میں گھرے ترقی پذیر ممالک میں ایک تہائی لڑکیوں کی شادی کم عمری میں ہو جاتی ہے۔ یہ عالمی اوسط کے مقابلے میں دو گنا بڑی تعداد ہے اور ایک تہائی لڑکیاں ہی ثانوی درجے کی تعلیم مکمل کر پاتی ہیں۔

علاوہ ازیں، ان ممالک میں صرف 36 فیصد خواتین کو ہی انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔

اسی لیے، ان کا کہنا تھا کہ صنعتی اور ترقیاتی پالیسیوں میں صنفی مساوات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ان پالیسیوں کو ہر ملک کے حالات کے مطابق ہونا چاہیے اور دیہی علاقوں میں صنعتی ترقی، کاروبار میں مدد کی فراہمی، روزگار کو رسمی صورت دینا اور شراکتوں کو مضبوط کرنا بہت ضروری ہے۔

مساوی ڈیجیٹل مواقع

'عالمی مواصلاتی یونین' (آئی ٹی یو) میں ٹیلی مواصلات کی ترقی کے دفتر کے سربراہ کاسموس لوکسن زاوازاوا نے یو این نیوز کو بتایا کہ اگرچہ بعض خطوں نے انٹرنیٹ تک رسائی کے معاملے میں صنفی مساوات کا ہدف حاصل کر لیا ہے لیکن 'ایل ایل ڈی سی' کو تاحال بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسطی ایشیائی خطے میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے خصوصی پروگرام وضع کیے گئے ہیں۔

اس کا مقصد محض انٹرنیٹ تک رسائی کو یقینی بنانا ہی نہیں بلکہ خواتین اور لڑکیوں کو کوڈنگ اور روبوٹکس کی صلاحیتوں سے بہرہ ور کرنا اور انہیں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی میں کیریئر بنانے کی ترغیب دینا بھی ہے۔فیصلہ کن موڑ

کل اس کانفرنس کا آخری دن ہےجس میں شرکا کی جانب سے 'آوازا پروگرام آف ایکشن' کے لیے سیاسی عزم کی توثیق متوقع ہے جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2024 میں منظور کیا تھا۔

رباب فاطمہ کا کہنا تھا اس پروگرام پر عملدرآمد کا وقت آ گیا ہے اور اس کے لیے آوازا کانفرنس کو فیصلہ کن موڑ بننا ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں بنجر زمینوں کو سرسبز بنانے کے لیے ہائیڈروسیڈنگ ٹیکنالوجی کا آغاز
  • چینی تھنک ٹینک نے بھارتی فضائیہ کے سربراہ کا بے بنیاد دعویٰ مسترد کردیا
  • پرنٹ میڈیا اور موسمیاتی بحران، قلم سے ماحول کی حفاظت
  • مودی کے ٹرمپ اور چین کیساتھ کشیدہ تعلقات، بھارت عالمی تنہائی کا شکار، امریکی جریدے کی رپورٹ
  • علی رضا ساتھی اداکارہ انمول بلوچ سے شادی کرنے والے ہیں؟
  • آوازا کانفرنس: خشکی میں گھرے ممالک کا نیا ماحولیاتی اتحاد بنانے پر اتفاق
  • ٹائی ٹینک میں ‘جیک’ کا مرکزی کردار لیونارڈو سے پہلے کس کو آفر ہوا تھا؟
  • پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے لئے عالمی ماحولیاتی معاہدوں میں رسائی، استطاعت اور پائیداری کو یقینی بنانا ناگزیر ہے، ڈاکٹر مصدق ملک
  • امریکی ٹیرف کے بھارتی معیشت پر ممکنہ اثرات