بیجنگ ()
جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ماحولیاتی تحفظ اور اس کے عالمی اثرات میں چین کے جدید نقطہ نظر کی وضاحت کی گئی ہے۔اتوار کے روز
شنہوا نیوز ایجنسی سے وابستہ تھنک ٹینک اور ماحولیاتی تہذیب پر شی جن پھنگ کی سوچ کے تحقیقی مرکز نے مشترکہ طور پر یہ رپورٹ جاری کی جس کا عنوان “‘سرسبز پہاڑاورشفاف پانی انمول اثاثے ہیں’ایک خوبصورت منظر کی تشکیل دیتا ہے–حیاتیاتی تہذیبوں کی تعمیر میں چین کی جدت طرازی اور عالمی اہمیت”۔
رپورٹ میں “سرسبز پہاڑاورشفاف پانی انمول اثاثے ہیں ” کےتاریخی پس منظر، بنیادی سوچ اور اہمیت کا تفصیلی تعارف پیش کیا گیا ہے،نیز اس تصور کی نظریاتی جدت طرازی، چین میں اس پر عمل درآمد اور اس کی عالمی قدر کی وضاحت کی گئی ہے۔
امریکن انسٹی ٹیوٹ آف ایکولوجیکل سولائزیشن کے نائب صدر اینڈرو شوارٹز نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا چین کی جدیدیت کی ایک منفرد خصوصیت بن گئی ہے۔ “سرسبز پہاڑ اور شفاف پانی انمول اثاثے ہیں” کے تصور میں گہری ماحولیاتی حکمت شامل ہے ،جو چین کی روایت “فطرت اور انسان کے اتحاد” سے ہم آہنگ ہے، اور عالمی ماحولیاتی تہذیب میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

Post Views: 7.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پاکستان کا معاشی ترقی کا ماڈل ناکام ہو رہا ، غربت میں کمی کرنے میں معاون نہیں

لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 ستمبر 2025ء ) عالمی بینک کی رپورٹ "ریکلیمِنگ مومینٹم ٹوورڈز پراسپرٹی: پاکستان کی غربت، مساوات اور لچک کا جائزہ" میں مزید انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کی ابھرتی ہوئی متوسط طبقہ آبادی، جو کل آبادی کا 42.7 فیصد ہے، ''مکمل معاشی تحفظ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔‘‘ رپورٹ میں کہا گیا کہ متوسط طبقہ بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے جیسے کہ محفوظ نکاسیٔ آب، صاف پینے کا پانی، سستی توانائی اور رہائش، جو پاکستان میں "کمزور عوامی خدمات کی فراہمی" کی نشاندہی کرتا ہے۔

ایک تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے 15 سے 24 سال کی عمر کے 37 فیصد نوجوان نہ تو ملازمت کر رہے ہیں اور نہ ہی تعلیم یا تربیت میں شامل ہیں، جس کی وجہ سے آبادی کا دباؤ اور مزدور منڈی کی طلب و رسد میں عدم توازن ہے۔

(جاری ہے)

اس رپورٹ کو، جسے پاکستان کے متعدد میڈیا اداروں نے شائع کیا ہے، کے مطابق "پاکستان کا ترقیاتی ماڈل جس نے ابتدا میں غربت کم کرنے میں مدد دی تھی، اب ناکافی ثابت ہوا ہے، اور 2021-22 سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

‘‘ جب عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی اس ناکام ماڈل کی حمایت پر ذمہ داری کے بارے میں پوچھا گیا تو عالمی بینک کے سینئر ماہر معاشیات ٹوبیاس ہاک نے کہا کہ پاکستان نے کوئی ایک مخصوص معاشی ماڈل اختیار نہیں کیا جو عالمی بینک یا آئی ایم ایف نے مسلط کیا ہو۔ رپورٹ میں کہا گیا، ''پاکستان کا کبھی امید افزا غربت میں کمی کا سفر اب رک گیا ہے اور برسوں کی محنت سے حاصل کردہ کامیابیاں ضائع ہو رہی ہیں۔

‘‘ پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آنگابازر نے کہا کہ بینک یہ جاننا چاہتا ہے کہ غربت کی شرح ماضی کی طرح تیزی سے کم کیوں نہیں ہو رہی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں معیشت اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہی۔ رپورٹ کے مطابق "حالیہ دھچکوں نے غربت کی شرح کو مالی سال 2023-24 میں بڑھا کر 25.3 فیصد تک پہنچا دیا ہے، جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے۔

صرف گزشتہ تین برسوں میں غربت کی شرح 7 فیصد بڑھ گئی ہے۔‘‘ رپورٹ نے پاکستان میں غربت کی دو مختلف شرحیں ظاہر کیں: قومی سطح پر غربت 25.3 فیصد ہے، جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے، لیکن بین الاقوامی غربت لائن کے مطابق یہ شرح 44.7 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ عالمی بینک کی غربت پر تحقیق کی ماہر کرسٹینا ویسر نے کہا کہ 2001 سے 2015 تک غربت میں اوسطاً سالانہ 3 فیصد کمی ہوئی، جو 2015-18 کے دوران کم ہو کر سالانہ صرف 1 فیصد رہ گئی۔

انہوں نے کہا کہ 2018 کے بعد مختلف دھچکوں، جن میں معاشی حالات کی خرابی شامل ہے، نے غربت میں اضافہ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2022 کے سیلاب سے غربت میں 5.1 فیصد اضافہ ہوا اور مزید 1.3 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ 2022-23 میں توانائی کی قیمتوں میں حکومتی اضافے کے باعث مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا جس نے گھرانوں کی قوتِ خرید اور حقیقی آمدنی کو شدید متاثر کیا۔

رپورٹ کے مطابق ترسیلاتِ زر اگرچہ گھرانوں کی فلاح میں مددگار ہیں لیکن یہ صرف آبادی کے ایک چھوٹے حصے تک پہنچتی ہیں۔ دیہی اور کم آمدنی والے گھرانے زیادہ تر اندرونِ ملک ترسیلات کے وصول کنندہ ہیں۔ مزدور منڈی میں زیادہ تر غیر رسمی اور کم اجرت والی ملازمتیں ہیں، جہاں 85 فیصد سے زیادہ روزگار غیر رسمی ہے۔ شہری مرد زیادہ تر تعمیرات، ٹرانسپورٹ یا تجارت میں کم اجرت والی ملازمتیں کرتے ہیں، جبکہ دیہی مرد جمود کا شکار زراعت چھوڑ کر کم پیداواری غیر زرعی کاموں کی طرف جاتے ہیں۔

عورتیں اور نوجوان بڑی حد تک مزدور منڈی سے باہر ہیں اور خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت صرف 25.4 فیصد ہے۔ عالمی بینک نے کہا کہ زیادہ تر گھرانے نچلی سطح کی فلاح پر محدود ہیں، جس سے وہ دھچکوں کے لیے نہایت کمزور ہو جاتے ہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان کا مالیاتی ڈھانچہ غربت اور عدم مساوات میں کمی کے لیے معاون نہیں رہا۔ پاکستان میں عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر بولورما آنگابازر نے کہا، ''یہ نہایت اہم ہے کہ پاکستان اپنی مشکل سے حاصل کردہ غربت میں کمی کے ثمرات کو محفوظ رکھے اور اصلاحات کو تیز کرے جو روزگار اور مواقع بڑھائے، بالخصوص خواتین اور نوجوانوں کے لیے۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • عالمی موسمیاتی ادارہ اور سیلاب سے بچاؤ
  • پاکستان کا معاشی ترقی کا ماڈل ناکام ہو رہا ، غربت میں کمی کرنے میں معاون نہیں
  • پاکستان کا معاشی ترقی کا ماڈل ناکام ہو رہا ہے، عالمی بینک
  • پاکستان میں 3 سال کے دوران غربت تشویشناک حد تک بڑھ گئی، عالمی بینک
  • اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے مترادف، عالمی کمیشن کا انکشاف
  • پاکستان میں غربت کی شرح میں 7فیصد اضافہ ہوا: عالمی بینک کی رپورٹ
  • پاکستان میں 3 سال کے دوران غربت کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ گئی، عالمی بینک کا انکشاف
  • پاکستان میں غربت کتنی بڑھ گئی؟ عالمی بینک کی تفصیلی رپورٹ آگئی
  • ورلڈ بینک رپورٹ: پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافہ، عوامی اصلاحات پر زور
  • عالمی بینک نے پاکستان میں غربت سے متعلق رپورٹ جاری کردی