Islam Times:
2025-11-09@10:33:36 GMT

ایک خطرناک سازش کے تانے بانے 

اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT

ایک خطرناک سازش کے تانے بانے 

اسلام ٹائمز: زنگیزور روٹ کا مستقبل دو متضاد منظرناموں کے درمیان پھنس گیا ہے۔ اگر کامیاب ہو، تو 2027ء تک یہ راہداری سالانہ 20-50 بلین ڈالر کی تجارت کو منتقل کرسکتی ہے، 11 ملین ٹن سامان کی نقل و حمل کی صلاحیت کو فعال کرسکتی ہے اور ترکی کو خطے میں توانائی اور ٹرانزٹ کے ایک اہم مرکز میں تبدیل کرسکتی ہے۔ ایک ایسی کامیابی جو نہ صرف جنوبی قفقاز کی معیشت کو بدل دے گی بلکہ مہنگے راستوں پر یورپ کا انحصار بھی کم کر دے گی۔ لیکن ناکامی کے منظر نامے میں، مسلسل سیاسی تعطل اور خود مختار حساسیت امریکی ثالثی پر اعتماد کو ختم کرسکتی ہے اور یورپ کو طویل، پرخطر راستوں کا استعمال جاری رکھنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

آرمینیا اور آذربائیجان نے جمعے کو وائٹ ہاؤس میں ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کی ثالثی امریکہ نے کی۔ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ زنگیزور کوریڈور پر ایک دیرینہ تنازعہ کو حل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ تاہم، آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ خطے میں امریکی مداخلت کا ایک نیا اقدام ۔ یہ معاہدہ پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم اس معاہدے اور خطے میں اس کے جغرافیائی سیاسی اثرات پر ایک نظر ڈالیں گے۔

معاہدے کی تفصیلات
تینوں ممالک آرمینیا، آذربائیجان اور امریکہ کا مشترکہ بیان جسے فارن پالیسی نے بھی شائع کیا، اس میں درج ذیل نکات شامل ہیں: تینوں ممالک نے ایک ٹرانزٹ کوریڈور بنانے پر اتفاق کیا ہے، جو آذربائیجان کے اندرونی حصے کو نخچیوان خود مختار جمہوریہ سے جوڑے گا، جو آرمینیا کے سب سے جنوبی صوبے سینوئجو سے گزرتا ہے۔ اس ٹرانزٹ کوریڈور کو لیز پر دینے کا حق واشنگٹن کو ہوگا۔ راستے کا نام تبدیل کرکے ٹرمپ کوریڈور فار انٹرنیشنل پیس اینڈ پراسپریٹی، مختصراً TRIPP رکھ دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ آرمینیائی حکومت کے قانونی دائرہ اختیار میں لاگو کیا جائے گا۔ 43 کلومیٹر کے راستے کی زمین امریکی حکومت کو 99 سال کے لیے لیز پر دی جائے گی۔

امریکی حکومت تعمیرات اور انتظام کی نگرانی کے لیے اپنے زیر کنٹرول ٹرانزٹ روٹ کو ایک نجی امریکی کمپنی کو لیز پر دے گی۔ زنگیزور، جو اس وقت جنوبی آرمینیا کا حصہ ہے، پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ایک متنازع علاقہ رہا ہے۔ کمیونسٹ سوویت یونین کے تحت، یہ علاقہ، جو باکو کے نخچیوان خود مختار علاقے اور آذربائیجان کے درمیان واقع ہے، آرمینیائی سوویت سوشلسٹ جمہوریہ (SSR) کا حصہ بن گیا۔ آج آرمینیا اس علاقے کو اپنا صوبہ سیونک سمجھتا ہے۔ سوویت دور کے دوران، ماسکو نے نخچیوان کو ایک ایسے خطے میں مرکزی آذربائیجانی علاقے سے جوڑنے کے لیے دو ریلوے لائینیں تعمیر کیں، جسے باکو اب زنگیزور کوریڈور کہتے ہیں، جسے کبھی کبھی آذربائیجانی میڈیا اور تجزیہ کار نخچیوان کوریڈور کہتے ہیں۔ لیکن یہ ریل گاڑیاں 1992ء میں شروع ہونے والی پہلی کاراباخ جنگ کے دوران ناقابل استعمال ہوگئیں۔

ایک مخصوص معنی میں، زنگیزور کوریڈور کا مقصد آذربائیجان کو بغیر کسی آرمینیائی چوکیوں کے اس کے نخچیوان انکلیو تک غیر محدود رسائی دینا ہے جبکہ یہ تہران-ایریوان سرحد کے قریب آرمینیائی علاقے سے گزرتا ہے۔ عام مفہوم میں یہ راہداری ایک جغرافیائی سیاسی منصوبہ ہے، جو یورپ کو وسطی ایشیا اور چین سے آذربائیجان-ترکیہ کے راستے سے ملاتا ہے۔ جنوبی آرمینیا میں 43 کلومیٹر کا زنگیزور راستہ پہلی نظر میں محض ایک جغرافیائی چوراہے کی طرح لگتا ہے، لیکن آج کی جغرافیائی سیاسی آب و ہوا میں، یہ عظیم طاقت کے مقابلے کے حساس ترین مقامات میں سے ایک بن گیا ہے۔ اس راستے کو ایک صدی کے لیے لیز پر دینے کا امریکی منصوبہ نہ صرف یوریشیائی تجارتی اور توانائی کے راستوں کو تبدیل کرسکتا ہے بلکہ جنوبی قفقاز اور یہاں تک کہ یورپی توانائی کی منڈی میں طاقت کے توازن کو بھی بدل سکتا ہے۔

زنگیزور روٹ کا مستقبل دو متضاد منظرناموں کے درمیان پھنس گیا ہے۔ اگر کامیاب ہو، تو 2027ء تک یہ راہداری سالانہ 20-50 بلین ڈالر کی تجارت کو منتقل کرسکتی ہے، 11 ملین ٹن سامان کی نقل و حمل کی صلاحیت کو فعال کرسکتی ہے اور ترکی کو خطے میں توانائی اور ٹرانزٹ کے ایک اہم مرکز میں تبدیل کرسکتی ہے۔ ایک ایسی کامیابی جو نہ صرف جنوبی قفقاز کی معیشت کو بدل دے گی بلکہ مہنگے راستوں پر یورپ کا انحصار بھی کم کر دے گی۔ لیکن ناکامی کے منظر نامے میں، مسلسل سیاسی تعطل اور خود مختار حساسیت امریکی ثالثی پر اعتماد کو ختم کرسکتی ہے اور یورپ کو طویل، پرخطر راستوں کا استعمال جاری رکھنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ اس کوریڈور جس کو اب ٹرمپ روٹ کا نام دیا جا رہا ہے، اقتصادی اور اسٹریٹجک حوالے سے بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ امریکہ کے اس میں داخل ہونے سے ایران اور روس کے چیلنجوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں اس کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔

???? اقتصادی ادارے فوربس نے لکھا ہے کہ زنگیزور کوریڈور 2027ء تک اپنے شراکت داروں کے لیے سالانہ $50-100 بلین تجارتی مالیت پیدا کرے گا۔
???? یہ راستہ باکو کی برآمدات میں 700 ملین ڈالر سے زیادہ کا اضافہ کرے گا اور یورپ کو باکو کی گیس کی برآمدات 12 سے 20 بلین کیوبک میٹر تک بڑھ جائے گی۔
????ایران کو اپنے ٹرانزٹ کردار اور اہم محصولات کا 20-30% کھونے کے خطرے کا سامنا ہے۔
????روس کو 10-20 بلین ڈالر کی آمدنی اور یورپی انرجی مارکیٹ پر اپنے 10-15% لیوریج سے بھی نقصان ہوسکتا ہے۔
???? نیو سلک روڈ میں چین کے 20-30 بلین ڈالر کے مفادات بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
????ترکیہ، ترک زبان بولنے والے ممالک تک براہ راست رسائی حاصل کرکے سالانہ 10-15 بلین ڈالر ٹرانزٹ ریونیو کما سکتا ہے۔
یورپ کے لیے، یہ راہداری 2030ء تک توانائی کے اخراجات میں 20-30 بلین ڈالر کی بچت کرسکتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کرسکتی ہے اور بلین ڈالر کی یہ راہداری کے درمیان خود مختار اور یورپ یورپ کو لیز پر کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نئی دہلی: بھارت میں حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی کھلی نفرت انگیز تقاریر اور عسکری و مذہبی حلقوں کے باہمی رابطوں نے ایک بار پھر ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو زہر آلود کر دیا ہے اور ملک کے اندر اقلیتوں، خصوصاً مسلم کمیونٹی میں خوف و بے چینی فروغ پا رہی ہے۔

مختلف ذرائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ریکارڈنگز اور بیانات کے مطابق چند متحرک ہندو مذہبی رہنماؤں نے ایسی زبان استعمال کی ہے جسے انسانی حقوق تنظیموں  اور متعدد سول سوسائٹی گروپس نے اشتعال انگیز اور انتہا پسند قرار دیا ہے۔

ان متنازع بیانات میں بعض رہنماؤں کے ایسے الفاظ شامل ہیں جو اسلام کو ملک یا دنیا سے ختم کرنے کی دھمکیوں کے مترادف سمجھے گئے ہیں، جس نے عام طور پر تحمل اور برداشت کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق یہ رجحان محض چند شرپسند اور انتہا پسند گروپوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بعض سرکاری یا نیم سرکاری عہدیداروں کے اقدامات اور تقاربات سے ان گروپوں کو تقویت ملی ہے۔

اس سلسلے میں فوجی سربراہ کے حالیہ دورے اور بعض مذہبی مقامات کی وردی میں زیارت کو بھی مختلف حلقوں نے تشویش انگیز قرار دیا ہے۔

سیاسی منظرنامے میں یہ کشیدگی اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے جب اتر پردیش کے ایک بااثر وزیراعلیٰ کے بیانات میں ایسا پیغام ملتا ہے جسے بعض مبصرین سناتن دھرم کو فروغ دیتے ہوئے تنوع اور مذہبی آزادیاں محدود کرنے کی سمت قدم تصور کر رہے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف اقلیتی نمائندوں نے حکومت اور سیکورٹی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے بیانات اور مظاہروں کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے فوری کارروائی کریں اور مذہبی منافرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف مؤثر تحقیقات کروائیں۔

قانون دانوں اور تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ آئین و قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت مذہبی آزادی اور اقلیتی تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور حکومت کو ایسے تمام اقدامات سے باز رکھنا چاہیے جو فرقہ وارانہ تقسیم کو ملک میں مزید گہرا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • اسمارٹ فون کا استعمال بچوں کی ذہنی صحت کیلیے خطرناک ہے، تحقیق
  • امریکی پابندیاں، بلغاریہ نے واحد آئل ریفائنری بچانے کے لیے کوششوں شروع کر دیں
  • طوفانی بارش دمہ کے مریضوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، تحقیق
  • ایران میکسیکو میں اسرائیل کے سفیر کو قتل کرنے کی سازش کر رہا تھا، امریکا کا الزام
  • مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا
  • جیکب آباد میں چوہوں، بلیوں اور کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں خطرناک اضافہ، 750 سے زائد افراد متاثر
  • کراچی میں خطرناک اور غیر قانونی عمارتوں کے خلاف کارروائیاں جاری
  • برطانوی حکام کی غفلت سے ایک بار پھر خطرناک قیدی رہا
  • 27ویں ترمیم ایوبی آمریت سے زیادہ خطرناک ہے، عوامی تحریک
  • 27ویں آئینی ترمیم میں صوبائی خود مختاری سے چھیڑچھاڑ خطرناک نتائج لا سکتی ہے: بیرسٹر گوہر