Daily Sub News:
2025-08-11@10:01:53 GMT

سردار ایاز صادق، جامعہ نعیمیہ اور حلقہ کی تبدیلی

اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT

سردار ایاز صادق، جامعہ نعیمیہ اور حلقہ کی تبدیلی

سردار ایاز صادق، جامعہ نعیمیہ اور حلقہ کی تبدیلی WhatsAppFacebookTwitter 0 11 August, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال

سردار ایاز صادق اُن چند منفرد اسپیکرز میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے بحثیت سپیکر ایسی روایات قائم کیں جو اس سے قبل پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کی نمایاں کوششوں میں سے ایک غیر معمولی اقدام عام شہریوں، بالخصوص طلبہ، کے لیے پارلیمنٹ کے دروازے کھول دینا تھا تاکہ وہ قانون سازی کے عمل اور عوامی نمائندوں کے طریقۂ کار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ یہ محض رسمی یا نمائشی قدم نہ تھا بلکہ عوام اور پارلیمان کے درمیان فاصلے کو کم کرنے کی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کوشش تھی۔ ان کی قیادت میں طلبہ کے لیے انٹرن شپ پروگرام شروع کیے گئے، جن کے ذریعے نوجوانوں کو پارلیمانی امور کا عملی تجربہ ملا۔ یہ منصوبہ اب ایک منظم روایت کی شکل اختیار کر چکا ہے، جو سردار ایاز صادق کی گزشتہ اسپیکر شپ سے کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور جمہوری عمل سے واقف نوجوانوں کی ایک نئی کھیپ تیار کر رہا ہے۔

گزشتہ جمعرات کے اسمبلی اجلاس کے آغاز پر اسپیکر سردار ایاز صادق نے لاہور کے گڑھی شاہو میں واقع جامعہ نعیمیہ کے طلبہ کو، جو وزیٹرز گیلری میں موجود تھے، خوش دلی سے خوش آمدید کہا۔اس جامعہ سے جڑی اپنی یادوں کو تازہ کرتےہوئے انہوں نے کہا: ’’یہ جامعہ کبھی میرے حلقے کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ اب نہیں ہے، مگر یہ آج بھی میرے دل کے قریب ہے۔”‘‘

یہ جملہ سن کر میں بھی ماضی میں لوٹ گیا۔ لاہور کا باسی اور اسپیکر کے سابق حلقے کا رہائشی ہونے کے ناطے مجھے اپنے صحافت کے دن یاد آئے جب میں مذہبی امور کا بیٹ رپورٹر ہوتے ہوئے جامعہ نعیمیہ کا اکثر دورہ کرتا تھا۔ ایک دہائی سے زائد عرصے تک میرا اس کے علما اور منتظمین سے قریبی تعلق رہا۔ میں اکثر مفتی محمد حسین نعیمی سے شریعت اور فقہ کے معاملات میں رہنمائی لیتا، مگر ان کے صاحبزادے ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی سے میرا تعلق نہایت مضبوط اور دلی نوعیت کا تھا۔

ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی ایک جری شخصیت کے مالک تھے—ایمان کے معاملے میں غیر متزلزل، اصولوں میں اٹل اور اظہار میں بے باک۔ ان کی شخصیت میں علم و جرات کا حسین امتزاج تھا۔ مجھے یاد ہے جب انہوں نے جامعہ میں کمپیوٹر کلاسز اور جدید علوم کا آغاز کیا، تو یہ فیصلہ بعض روایتی حلقوں کے لیے غیر معمولی تھا۔ انہوں نے خود مجھے اس پروگرام کا مشاہدہ کرنے کی دعوت دی اور بعد میں اپنے گھر پر دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا، جہاں ان کے صاحبزادے راغب نعیمی، جو اس وقت نوعمر تھے، بھی موجود تھا۔ ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کی دور اندیش سوچ سے متاثر ہو کر میں نے ایک رپورٹ قلم بند کی جو روزنامہ پاکستان میں جناب مجیب الرحمن شامی کی ادارت میں شائع ہوئی۔

یہ دور پاکستان کے لیے پرآشوب دور کہلاتا تھا چونکہ خودکش حملوں نے ملک کے امن کو تہ و بالا کر رکھا تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے ایک جرات مندانہ فتویٰ جاری کیا جس میں خودکش حملوں کو اسلامی تعلیمات سے متصادم اور دہشت گردی قرار دیا۔ ان کا یہ بے خوف مؤقف ان کی جان لے گیا—12 جون 2009 کو وہ اپنے دفتر میں شہید کر دیے گئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آج ان کے صاحبزادے ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی اس مشن کو بطور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل آگے بڑھا رہے ہیں، ایمان اور جدید تقاضوں کے درمیان ہم آہنگی کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے۔

اس موقع پر اسپیکر کا اپنے بدلے ہوئے حلقے کا ذکر کرنا ان کی سیاسی نظم و ضبط اور جماعتی فیصلوں سے وفاداری کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنے پرانے حلقے سے کئی انتخابات جیتے اور وہاں سڑکوں کی تعمیر، تعلیمی اداروں کا قیام، سوئی گیس اور صاف پانی کی اسکیموں سمیت بڑے منصوبے مکمل کیے، لیکن انہوں نے بغیر کسی شکوے کے ایک بالکل نئے حلقے سے الیکشن لڑنے کا چیلنج قبول کیا۔

پاکستان کی انتخابی سیاست میں جہاں پارٹی پلیٹ فارم اہمیت رکھتا ہے، وہیں امیدوار کی ذاتی ساکھ بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ مختلف معتبر سرویز کے مطابق شہری حلقوں میں 30 فیصد سے زائد ووٹرز عموماً امیدوار کے ذاتی ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہیں نہ کہ صرف پارٹی وابستگی کو۔ کسی سیاسی رہنما کی خدمت کا ریکارڈ، عوام تک رسائی اور دیانت داری عوامی اعتماد حاصل کرنے کے بنیادی عوامل ہیں۔

سردار ایاز صادق کا سیاسی سفر سیاست میں کامیابی کے لوازم کو واضح کرتا ہے: پارٹی سے وفاداری، ذاتی ساکھ، خدمات کا نمایاں ریکارڈ اور بدلتے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت۔ ان کی مسلسل انتخابی کامیابیاں حتی کہ حلقہ بندی کی مشکلات کے بعد بھی—یہ ثابت کرتی ہیں کہ عوام سے قریبی تعلق سیاست کا اصل سرمایہ ہے۔ پاکستان جیسے متحرک مگر پیچیدہ جمہوری نظام میں سیاست کا فن صرف پارلیمان میں تقاریر کرنے کا نام نہیں بلکہ گلی محلوں میں موجودگی، بحران کے وقت بروقت ردعمل اور وعدوں کی سچائی ہے۔

کامیاب سیاستدان یہ بھی جانتے ہیں کہ تسلسل کی کیا اہمیت ہے۔ وہ وقتی فائدے کے لیے موقع پرستی پر مبنی پارٹی تبدیلیوں سے گریز کرتے ہیں، جو عوامی اعتماد کو مجروح کرتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ طویل مدت میں سیاسی چالاکیوں کے بجائے عملی کارکردگی ہی عوام کے دل میں جگہ بناتی ہے۔ جیسے مرحوم عبدالستار ایدھی—اگرچہ سیاستدان نہ تھے—نے خدمتِ انسانیت کے ذریعے ایک دائمی ورثہ تخلیق کیا، اسی اصول کا اطلاق سیاسی زندگی پر بھی ہوتا ہے۔

یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں سیاسی بقا کے لیے حکمت، صبر اور تدبیر لازم ہیں۔ انتخابی شکست، حلقہ تبدیلی اور جماعتی سیاست میں اتار چڑھاؤ ناگزیر ہیں۔ جو لوگ ان حالات کا سامنا وقار اور ثابت قدمی سے کرتے ہیں، وہی دیرپا رہتے ہیں۔ سردار ایاز صادق کا بغیر اعتراض نئے حلقے کو قبول کرنا اسی پختگی کی علامت ہے۔ انہوں نے ذاتی رابطے، ترقیاتی منصوبوں اور بے داغ عوامی شبیہہ کے امتزاج سے نئی عوامی حمایت حاصل کی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ اعتماد ایک بار جیت لیا جائے تو حدود و قیود سے ماورا ہو جاتا ہے۔

بلا شبہ، سیاست کردار کا بھی امتحان ہے اور طاقت کے حصول کا مقابلہ بھی ۔ کامیابی کا اصل معیار صرف انتخاب جیتنا نہیں بلکہ حامیوں اور مخالفین دونوں کا احترام برقرار رکھنا ہے۔ سردار ایاز صادق کا سیاسی سفر یہ سبق دیتا ہے کہ جمہوریت کے ایوانوں میں وفاداری، خلوص اور خدمت کا جذبہ وہ بنیادیں ہیں جن پر پائیدار سیاسی وراثت تعمیر ہوتی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایشیا کے امیر ترین آدمی مکیش امبانی کو اپنی کمپنی سے کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج آزادی کا مطلب کیا؟ — تجدیدِ عہد کا دن اوورسیز پاکستانی: قوم کے گمنام ہیرو اسلام میں عورت کا مقام- غلط فہمیوں کا ازالہ حقائق کی روشنی میں حرام جانوروں اور مردار مرغیوں کا گوشت بیچنے اور کھانے والے مسلمان “کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: سردار ایاز صادق جامعہ نعیمیہ

پڑھیں:

پرنٹ میڈیا اور موسمیاتی بحران، قلم سے ماحول کی حفاظت

جب زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہو، برف پگھل رہی ہو، سمندری سطح میں اضافہ ہو رہا ہو اور موسمیاتی تغیرات ہماری روزمرہ زندگی کو بدل رہے ہوں تو یہ سوال مزید اہمیت اختیارکرجاتا ہے کہ عوام تک یہ تمام خطرات کس ذریعے سے پہنچائے جا رہے ہیں؟

اگر کوئی پلیٹ فارم ان پیچیدہ مسائل کو عام فہم انداز میں، مستند معلومات کے ساتھ پیش کر رہا ہے، تو وہ ہے پرنٹ میڈیا۔ اخبارات، جرائد اور ماحولیاتی میگزین نہ صرف موسمیاتی بحران کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ رائے عامہ، پالیسی سازی اور اجتماعی شعور کی تعمیر میں ایک خاموش مگر طاقتور انقلاب کا آغاز کرتے ہیں۔

پرنٹ میڈیا محض خبر نہیں دیتا، بلکہ خبر کے پیچھے چھپے محرکات، اس کے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی جیسے طویل المدتی اور سائنسی نوعیت کے موضوعات کے لیے یہ انداز نہایت موزوں ہے۔

اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی پینل (IPCC) کی 2023 کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ’’مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مؤثر ابلاغ عوامی شعور اجاگر کرنے اور پالیسی سازی پر اثر ڈالنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔‘‘ اسی طرح رائٹر انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ ’’پرنٹ جرنلزم موسمیاتی تجزیے کے لیے ایک معتبر ذریعہ ہے، خصوصاً ان علاقوں میں جہاں انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہے۔‘‘

لمس یونیورسٹی کی 2021 کی ایک تحقیق کے مطابق ’’ پاکستانی اخبارات میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق خبروں کی شرح 3 فیصد سے بھی کم ہے، جب کہ قدرتی آفات کی رپورٹنگ 60 فیصد سے زیادہ ہے، مگر ان میں موسمیاتی پس منظر اکثر غائب ہوتا ہے۔‘‘

یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ اگرچہ سیلاب، بارشوں، شدید گرمی کی لہروں، آندھیوں اور دیگر آفات پر خبریں آتی ہیں، مگر انھیں موسمیاتی تبدیلی سے جوڑنے کا تناظر انتہائی کم ہوتا ہے۔ پاکستان میں اردو زبان عوامی سطح پر سب سے زیادہ پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔

لہٰذا، اردو اخبارات، جرائد اور ماحولیاتی میگزین جیسے ’’ فروزاں‘‘ اگر موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر تواتر اور سادہ انداز میں مواد شایع کریں تو نہ صرف شہروں بلکہ دیہی اور نیم شہری علاقوں میں بھی ماحول دوست شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بڑھتا ہوا بحران بن چکی ہے، جس کے اثرات ہر گزرتے سال کے ساتھ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے جڑی آفات، بشمول شدید بارشیں، سیلاب اور گرمی کی لہریں سمیت دیگر مظاہر، نہ صرف سیکڑوں انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن رہے ہیں بلکہ اربوں روپے کے معاشی نقصانات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC)'' کی چھٹی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اگر موجودہ درجہ حرارت میں اضافے کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو 1.5°C کی حد عبور ہونے کے بعد دنیا کو ناقابلِ واپسی ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا، جس میں پانی کی قلت، زرعی پیداوار میں کمی اور قدرتی آفات کی شدت میں اضافہ شامل ہے۔

اس تناظر میں میڈیا، بالخصوص پرنٹ میڈیا کی ذمے داری کہیں زیادہ اہم ہو جاتی ہے کیونکہ وہ عوامی رائے سازی اور شعور کی بیداری کا مؤثر ذریعہ ہے، اگرچہ ڈیجیٹل میڈیا کے عروج کے باعث یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ پرنٹ میڈیا اپنی اہمیت کھو چکا ہے، لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اخبارات اور رسائل اب بھی ایک بڑا طبقہ متاثر کرتے ہیں، خصوصاً وہ قارئین جو سنجیدہ، تفصیلی اور حوالہ جاتی تجزیے کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی مسائل جیسے پیچیدہ موضوعات کی تفہیم کے لیے پرنٹ میڈیا ایک قابلِ اعتماد اور گہرائی پر مبنی پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے تاہم جنوبی ایشیا میں ہونے والی ایک علاقائی تحقیق ’’ کلائمٹ ٹریکر ایشیا رپورٹ 2022 ‘‘ کے مطابق اس خطے میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پرنٹ میڈیا میں شایع ہونے والی خبروں اور مضامین کی شرح محض 12 فیصد کے قریب ہے، جو کہ بحران کی وسعت کے لحاظ سے انتہائی ناکافی ہے۔

ناروے کے روزنامہ Aftenposten  نے ایک سالہ ’’ کلائمیٹ چینج اسپیشل سیریز‘‘ شایع کی، جس کا اثر ملکی انتخابی مہم پر بھی پڑا۔ برطانیہ کا اخبار ’’ دی گارڈین ‘‘ موسمیاتی خبروں کے لیے مخصوص سیکشن ’’ کلائیمٹ کرائسس‘‘ کے تحت رپورٹنگ کر رہا ہے، جو دنیا بھر میں اثر انداز ہو رہا ہے۔

بھارت میں ''Down To Earth'' ایک ماحولیاتی ہفت روزہ ہے جو دیہی سطح پر ماحولیاتی شعور کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ ماحولیاتی تربیت یافتہ صحافیوں کی کمی، ادارتی ترجیحات میں موسمیاتی موضوعات کی کم اہمیت، اشتہارات کا دباؤ، خاص طور پر ماحولیاتی نقصان دہ صنعتوں کا، قارئین کی ترجیح سیاست، کرائم اور معاشی خبروں کی طرف زیادہ ہے۔

ڈاکٹر ساجدہ بی بی، ماحولیاتی ابلاغ کی ماہر اپنے شایع شدہ مقالے میں کہتی ہیں کہ ’’پرنٹ میڈیا کو ماحولیاتی مسئلے کو سیاسی اور اقتصادی مسئلے کے طور پر بھی پیش کرنا چاہیے، تاکہ یہ اشرافیہ کی ترجیح بنے۔‘‘

موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ماحولیاتی موضوعات پر پرنٹ میڈیا میں باقاعدہ کالم، صفحات یا اسپیشل ایڈیشن مختص کیے جائیں۔ ماحولیاتی صحافیوں کو خصوصی تربیت دی جائے۔ ماحولیاتی ادارے، جامعات اور میڈیا ہاؤسز کے درمیان اشتراک قائم کیا جائے۔

ماحولیاتی تحقیق پر مبنی فیچرز، انٹرویوز اور ڈیٹا رپورٹنگ کو فروغ دیا جائے۔پرنٹ میڈیا ایک سست مگر پائیدار انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی جیسا مسئلہ فوری توجہ نہیں مانگتا، بلکہ مستقل مزاجی، تحقیق اور عوامی آگہی کا تقاضا کرتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پرنٹ میڈیا دیگر ذرایع ابلاغ پر سبقت لے سکتا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں صاف فضا، محفوظ زمین اور مستحکم موسم کا سامنا کریں تو ہمیں آج ہی سے پرنٹ میڈیا کو اس جنگ کا اصل سپاہی بنانا ہوگا، ایک ایسا سپاہی جو قلم سے ماحول کی حفاظت کرے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم شہباز کو اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل، تبدیلی افواہیں بے بنیاد قرار
  • آزادی اور قربانی کی کہانی، ہیروز آف پاکستان کی زبانی
  • پرنٹ میڈیا اور موسمیاتی بحران، قلم سے ماحول کی حفاظت
  • پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد روشن کو اکیڈمک ایکسیلنس ایوارڈ 2025 سے نوازا گیا
  • گورنرپنجاب سردار سلیم حیدر خان عراق کے 7 روزہ دورے پر روانہ
  • گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان 7 روزہ دورے پر عراق روانہ ہو گئے
  • ملکی سلامتی کے تحفظ کیلئے سکیورٹی فورسز کی جراتمندانہ کارروائیوں پر فخر ہے، ایاز صادق
  • 11 سالہ لڑکے سے زیادتی کرکے جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے والے پڑوسی گرفتار
  • سردار ایاز صادق نے الیکشن کمیشن کی جانب سے اپوزیشن لیڈر سمیت نااہل کئے گئے ارکان کے حوالے سے ایوان کو آگاہ کیا