Express News:
2025-11-10@06:09:57 GMT

ماضی کی غلطیوں سے سب کو سیکھنا ہوگا

اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT

پاکستان ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے، اس کا احساس سنجیدہ افراد اور اہل دانش کی سطح پر پایا جاتا ہے،اگرچہ کچھ لوگ ملک کی ایک ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جو حقایق سے زیادہ جذباتیت کی عکاسی کرتی ہے۔

اس وقت ملک کو جن اہم مسائل کا سامنا ہے، ان میں معیشت ، سیکیورٹی، دہشت گردی ، گورننس ، عوامی مفادات کی عدم ترجیحات ،احتساب اور عدم شفافیت جیسے امور شامل ہیں۔ حکمرانو اور عوام یا اہل دانش کی سطح پر موجود بیانیہ میں بہت زیادہ فرق ہے۔ حکمرانو اور عوام کے درمیان میں خلیج بڑھ رہی ہے۔

اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔لیکن ایک وجہ تمام طاقتور فریق اپنے اپنے آئینی اور قانونی دائرہ کار میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں اور سب کا طرز عمل ایک دوسرے کی مخالفت پر استوار ہے۔ یہ عمل سیاسی ، انتظامی ،قانونی ، آئینی اداروں کے درمیان جہاں عدم اعتماد کو پید ا کرتا ہے وہیں ایک دوسرے میں ٹکراو کو بھی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

یہ جو ہم نے سیاسی بندوبست کا نظام قائم کیا ہوا ہے وہ حکمرانی کی مشکلات کو کم کرنے کے بجائے اس میں زیادہ مشکلات کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔غیر جمہوری ، غیر آئینی ، غیر قانونی اور ہائبرڈ یا ہائبرڈ پلس کے نام پر جو نظام کئی برسوں سے چلایا جا رہا ہے، وہ بھی ایک مضبوط جمہوری حکومت کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ حق حکمرانی عوام کا ہے یا یہ حکمرانی عوام کے مقابلے میں اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے، اس کا تجزیہ کرناچاہیے اور اس کے نتیجہ میں جو نظام پر عدم اعتماد بڑھ رہا ہے، اس سے جمہوری کی لیوا لیڈرشپ کو یقیناً سبق حاصل کرنا چاہیے۔

وہ انتظامی ادارے جو آئین اور قانون کے پابند ہیں جب وہ من مانی اس وقت ہی کرتے ہیں جب سیاسی قیادت کا جمہوریت سے رشتہ محض دکھاوے کا ہوتا ہے اور وہ ہر وقت اسٹیلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہے۔ ہم آج کے اس دور میںجہاںجدیدیت کا نظام دنیا میں رائج ہے، اس سے ہم کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔

روائتی طرز حکمرانی، موقع پرست سیاسی قیادت، معاشی ،قانونی اور انتظامی روائتی ادارہ جاتی نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی سیاسی ضد نے ہمیں دنیا کی ترقی سے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔جب ہم اس ملک میں اختیارات حاصل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملانے کے لیے تیار رہیں گے، مشکل وقت آئے تو سیاسی فریقین سے مذاکرات کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کا برملا اعلان کریں گے تو آپ کو جمہوری قوت کون تسلیم کرے گا۔جو بڑی طاقتیں سیاسی اور انتظامی نظام میں فرنٹ فٹ پر کھیلنے کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنا چکی یا چاہتی ہیںکہ براہ راست کنٹرول ان ہی کا ہو تو پھر سیاست اور جمہوریت کا ہمارا مقدمہ دنیا کی سیاست میں اور کمزور ہوجاتا ہے۔

دنیا میں اسٹیبلیشمنٹ کی موجودگی ایک سیاسی طور پر حقیقت ہے اور اس کو حکمرانی کے نظام میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔لیکن اہم سوال یہ ہے کہ یہ کردار فرنٹ فٹ پر کھیلا جائے گا یا اس کا کوئی دائرہ کار آئین اور قانون کی حکمرانی کو بنیاد بنا کر اختیار کیا جائے گا۔  کیونکہ جب اسٹیبلیشمنٹ براہ راست قومی فیصلوں کا حصہ بنے گی تو اس کے نتیجے میں اس کی ذمے داری لینے پر ان پر تنقید بھی ہوگی اور خرابی کی صورت میں یہ تنقید اور زیادہ شدت اختیار کرجائے گی۔عدلیہ ہی کے محاذ کو دیکھ لیں یا سیاسی اداروں یعنی پارلیمنٹ کو دیکھیں تو ان کی خود مختاری کے بغیر یہ ادارے اپنی شفافیت برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔

اسی طرح اگر اہل دانش سیاسی قیادت کے قول و فعل کا تنقیدی جائزہ نہیں لے گی ، تو پھر سیاسی قیادت کھل کر کہے گی کہ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے اور مخالف سیاسی قیادت کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔اس قسم کی سیاست قیادت کے ہوتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو روکنا ناممکن ہے۔جس طرح سے ہمارے درمیان باہمی ٹکراو کا ماحول ہے اس سے مسائل بڑھ رہے ہیںبلکہ سیاسی تقسیم گہری ہورہی ہے ۔

اس وقت ہم جمہوری سیاسی قیادت کے بحران سے دوچار ہیں اور اس بحران کا علاج سیاسی تنہائی میں تلاش کرنا ممکن نہیں۔غلطی کسی ایک فریق کی نہیں اور ہمیں اس روش سے بھی باہر نکلنا ہوگا کہ ہم حالات کی ناکامی کسی ایک فرد یا ادارے پر ڈال کر خود کو یا دوسروں کو بچانے کی کوشش کریں ۔یہ جو کچھ اس وقت ملک میں ہورہا ہے یہ ہماری اجتماعی ناکامی سے جڑا ہوا مسئلہ ہے اور کسی فریق نے اس ناکامی میں زیادہ اور کسی نے کم حصہ ڈالا ہے۔

یہ نہیں کہ ہمارے پاس مواقع یا نئے امکانات نہیں ہیں ۔حالیہ کچھ مہینوں میں پاکستان کے لیے دنیا کی سیاست میں ایک نرم گوشہ پیدا ہوا ہے اور ہم نے اپنی اہمیت بھی سفارتی اور دفاعی طور پر منوائی ہے ۔لیکن ان نئے امکانات سے فائدہ محض ہم جذباتیت کی بنیاد پر نہیں اٹھاسکیں گے ۔ ہمیں جذباتیت کی سیاست سے باہر نکل کر قومی سطح پر موجود سیاسی تلخ حقایق ، معاشی یا سیکیورٹی کے حالات کی سنگینی کو تسلیم کرکے نئی حکمت عملیوں کو اختیار کرنا ہوگا۔پاکستان کی ریاست اور حکومت کے نظام کو تمام فریقوں کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے وجود سے انکاری یا اس کا خاتمہ یا اس کو کمزور کرناہماری ترجیحات کا حصہ نہیںہونا چاہیے۔

اس کا ایک ہی حل ہے کہ اس ریاست اور اس کے نظام کو آئینی اور قانونی بنیاد پر چلایا جائے اور تمام فریق ایک دوسرے کے دائرے کار کو تسلیم کرکے ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کی سیاست سے گریز کریں ۔ ایسی حکومت جس میں عام لوگوں کا حصہ نہ ہو یا جس کی بنیاد طبقاتی نظام پر قائم ہواور حکمرانی کا نظام طاقت کی حکمرانی کی بنیاد پر ہی چلایا جارہا ہو وہاں ریاست ہو یا حکومت اپنی اہمیت کھودیتی ہے ۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کیا اشرافیہ واقعی اس نظام کی شفافیت اور درستگی چاہتی ہے اور اگر ایسا ہے تو ایسا کون سا روڈ میپ ہے جو اس سسٹم پر لوگوں کا اعتماد بڑھا سکے۔یہ ملک فرسودہ نظام حکمرانی کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

لوگوںکو سیاست دانوں ، سیاسی جماعتوں اور حکمران جماعتوں سے بہت سی توقعات وابستہ ہوتی ہیں مگر ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت نظام کو تبدیل کرنے یا ان میں اصلاحات پیدا کرنے کے بجائے پہلے سے موجود بگاڑ کے نظام کا حصہ دار بن کر تبدیلی کے عمل کو اور اس کی ترجیحات کو اور زیادہ دورکردیتی ہیں۔

اس لیے سیاسی نظام سمیت سیاسی جماعتوں کی اپنی داخلی اصلاح بھی ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔سیاست،جمہوریت، آئین، قانون یا سیاسی و معاشی معاملات میں عام آدمی کا حصہ مسلسل کم اور طاقت ور طبقہ کا مسلسل بڑھتا جارہا ہے جو کئی طرح کے خطرناک رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے۔اس لیے اب بھی سب فریقوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنا اپنا داخلی محاسبہ کریں تاکہ ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے آگے بڑھنے کے لیے ایسا کچھ کریں جو اس ریاست اور حکمرانی کے نظام کو مضبوط بناسکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی قیادت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی سیاست قیادت کے کو تسلیم نظام کو کرنے کے کے نظام کے لیے اور اس ہے اور رہا ہے کا حصہ

پڑھیں:

ظہران ممدانی، قصہ گو سیاستدان

ظہران ممدانی کی جیت پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے، اس کے پس منظر، خاندان اور اس کی بیوی کے حوالے سے بھی۔ مگر جس پہلو پر کم گفتگو ہوئی، وہ ہے ظہران کی انتخابی مہم کا تخلیقی بیانیہ، اس کا کہانی سنانے کا ہنر، اور اس ہنر کے ذریعے عوام سے جڑنے کی صلاحیت۔ یہی وہ عنصر ہے جو ہماری سیاست میں شاذ و نادر دکھائی دیتا ہے۔

اپنی جیت کی تقریر میں جواہر لعل نہرو کا حوالہ دینے والا یہ نوجوان نیویارک شہر کی 130 سالہ تاریخ کا کم عمر ترین، پہلا مسلمان اور پہلا جنوبی ایشیائی نژاد میئر ہے۔ نیویارک کے 111ویں میئر کے طور پر اس کی جیت تاریخی تھی۔ 1969 کے بعد سب سے زیادہ عوامی ٹرن آؤٹ اسی انتخاب میں ہوا۔ یہاں تک کہ اسے اپنے حمایتیوں سے کہنا پڑا کہ اب چندے بھیجنا بند کریں، کیونکہ مہم کے تمام اخراجات پورے ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے

یہ وہی ظہران ممدانی ہے جو سال کے آغاز میں انتخابی دوڑ میں بالکل صفر پر کھڑا تھا، نہ سرمایہ، نہ اثر و رسوخ، اور اوپر سے وہ تمام شناختی ’لیبلز‘ جو نیویارک جیسے شہر میں کسی امیدوار کو کمزور بنا دیتے ہیں۔ مگر ظہران کی سیاست دراصل اُس نئے شہری بیانیے کی نمائندہ ہے جو نسل، مذہب یا قومیت سے آگے بڑھ کر تعلق، شناخت اور شمولیت کو مرکز بناتا ہے۔ اس نے امریکی سیاست کے اُس بیانیے کو چیلنج کیا جس میں طاقت، سرمایہ اور سفید فام شناخت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

ظہران ممدانی کے خلاف مخالفین اور طاقت ور طبقے کی طرف سے ایک نفرت انگیز، نسلی امتیاز پر مبنی مہم چلائی گئی۔ اونچے طبقے نے اسے اُنھی الزامات کا نشانہ بنایا جو وہ ہمیشہ تارکینِ وطن پر لگاتے ہیں۔ مگر ظہران نے اس نفرت آمیز پروپیگنڈے کو سمجھداری سے اپنا ہتھیار بنا لیا۔ جب مخالفین اس کی شناخت پر سوال اٹھا رہے تھے اور بین الاقوامی مسائل میں عوام کو الجھا رہے تھے، وہ صرف نیویارک کے باسیوں کی بات کر رہا تھا۔

اس نے اپنی شناخت کی کمزوری کو طاقت بنایا۔ اس نے سوشل میڈیا کو صرف بیانیہ پیش کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اپنی مہم کو ہی ایک کہانی میں بدل دیا، ایسی کہانی جس میں وہ خود ہیرو نہیں تھا۔ عام طور پر سیاستدان صرف اپنی کہانیوں کے ہی نہیں بلکہ عوام کی کہانیوں کے بھی ہیرو خود بننے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ظہران نے اُلٹا راستہ اختیار کیا۔ اُس نے خود کو عوام کی کہانیوں میں ضم کر دیا۔ اس کی ہر کہانی کا ہیرو وہ مزدور طبقہ ہے جو کرایوں کے دباؤ، صحت کی خرابی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سے دوچار ہے، اور ظہران اس کہانی میں صرف ایک معاون کردار ہے، ہیرو کا دوست۔

یہ بھی پڑھیں:جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی

ظہران کی مہم اپنے لہجے اور عوامی انداز میں لندن کے میئر صادق خان اور امریکی سیاست دان الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز کی یاد دلاتی ہے، مگر اس میں جنوبی ایشیائی جذباتیت اور نیویارک کی ثقافتی روانی کا اپنا منفرد رنگ ہے۔ وہ کبھی عربی میں بات کرتا، کبھی اردو میں، کبھی ہسپانوی میں۔ کبھی کسی عوامی ریپر یا سڑک کنارے بینڈ کے ساتھ گاتا، کبھی بولی ووڈ کے مکالمے دہراتا۔

ایک ویڈیو میں وہ پوچھتا ہے:

’کیا تم نے کبھی کسی کو ووٹ دیا ہے؟‘

اور سامنے سے ہجوم گونجتا ہے: ’نہیں یں ں!‘

یہ منظر فوراً قرض فلم کے رشی کپور کی یاد دلاتا ہے، جو کچھ ایسے ہی سوال ہجوم سے کرتا ہے۔ یعنی ظہران بغیر محسوس کرائے عوام کی فلم میں معاون اداکار سے ہیرو بن جاتا ہے۔

ظہران نے اپنی انتخابی مہم کو ایک تھیٹر میں بدل دیا۔ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر وہ کبھی سمندر کنارے کھڑا سنگین مسائل پر بات کرتا ہے، پھر انگریزی میں کہتا ہے:

’ Let’s indulge in the details. ‘

اور یہ کہہ کر سوٹ پہنے سمندر میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ لوگ ہنستے ہیں، اور اسی ہنسی میں ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔

ظہران کی مہم میں توانائی، تحرک اور تاثر تینوں موجود تھے۔ وہ کبھی بھاگتا، کبھی کسی بس میں بیٹھ کر بات کرتا، کبھی ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ تصویر کھنچواتا۔ جب وہ بہتر ٹرانسپورٹ پالیسی کی بات کرتا تو کسی اسٹوڈیو میں نہیں بلکہ بس کے اندر سفر کرتے ہوئے۔ یہ سب علامتی اشارے تھے کہ وہ انہی میں سے ہے، ان ہی کے بیچ سے آیا ہے۔

جہاں دوسرے سیاست دان جلسوں میں دور سے ہاتھ ہلا رہے تھے، وہاں ظہران عوام کے بیچ گھوم رہا تھا، ان کی زبان بول رہا تھا، ان کے دکھ درد کو روز مرہ مناظر میں پیش کر رہا تھا۔ اس کے لہجے میں خوشی بھی تھی، غصہ بھی، درد بھی اور امید بھی۔

اس کی انسٹاگرام پوسٹس محض اعلانات نہیں بلکہ بیانیے کی توسیع تھیں۔ ایک پوسٹ میں وہ نیویارک کے بڑھتے کرایوں، سست بس سروس، مہنگی چائلڈ کیئر اور کرپشن پر بات کرتا ہے، مگر انداز ایک وکیل یا لیڈر کا نہیں بلکہ ایک عام شہری کا ہے:

‘The cost of living is the real crisis… a mayor could change this. And that’s why I’m running… Because this is New York. We can afford to dream.’

ظہران کی سیاست یہ ثابت کرتی ہے کہ جب سیاست کہانی بن جائے تو لوگ منشور نہیں بلکہ احساس کے رشتے میں جڑتے ہیں۔ اس نے سیاست کو پھر سے انسانی شکل دی، اور یاد دلایا کہ اگر کہانی سنانے کا فن ایمانداری، حساسیت اور تخلیقی جرات کے ساتھ استعمال کیا جائے تو صرف ووٹ نہیں، دل بھی جیتے جا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:طلاق اور علیحدگی کے بدلتے اصول: ’گرے ڈائیورس‘ کا بڑھتا ہوا رجحان

البتہ سوال یہ ہے کہ کیا سیاست کو کہانی بنا دینا اس کے پیچیدہ حقائق کو سادہ نہیں کر دیتا؟ کیا ظہران کی مہم جذباتی وابستگی کے بعد عملی گورننس میں بھی وہی تازگی برقرار رکھ سکے گی؟ وقت ہی اس کا جواب دے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قرۃ العین حیدر

ظہران ممدانی قصہ گو نیوریارک نیویارک میئر

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم، صدر مملکت کو ماضی کے مقدمات پر بھی تاحیات استثنیٰ حاصل ہوگا
  • آئین کی ترمیم یا اقتدار کی تحکیم
  • اجتماع عام سے ملک میں نئی سیاسی جدوجہد شروع ہوگی، سہیل شارق
  • اجتماع عام ظلم کے نظام کیخلاف ایک نئی اور منظم تحریک کا آغاز ہوگا‘ منعم ظفر خان
  • 27ویں ترمیم قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے، عطاتارڑ
  • 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی مںظوری، صدر مملکت کو ماضی کے مقدمات پر بھی تاحیات استثنیٰ حاصل ہوگا
  • آئینی ترمیم ، حکومت نے اتحادی جماعتوں کی تجاویز پر کل تک کی مہلت مانگ لی
  • شاہد آفریدی کونسی سیاسی پارٹی میں آنا چاہتے تھے؟ ویڈیو وائرل
  • جماعت اسلامی کا اجتماع عام فرسودہ نظام کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا‘ ڈاکٹر حمیرا طارق
  • ظہران ممدانی، قصہ گو سیاستدان