خیبر پختونخوا حکام نے منظور شدہ پاور پالیسی درست بیان نہیں کی، اویس لغاری
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نےکہا ہے کہ خیبر پختونخوا حکام نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی منظور شدہ پاور پالیسی کو درست بیان نہیں کیا ہے۔
سینیٹ پاور کمیٹی کا اجلاس سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت ہوا، جس میں 207 میگا واٹ کے مدیان اور 88 میگا واٹ کے گبرال ہائیڈرو پاور منصوبے پر بحث ہوئی۔
اجلاس میں معاون خصوصی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ ہم ان منصوبوں کےلیے 5 ارب روپے کی زمین خرید چکے ہیں، منصوبوں کے درمیان میں آئسمو نے کرائیٹیریا تبدیل کردیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ منصوبوں کی فزیکل اور فنانشل پروگریس ہوچکی ہے، وفاقی حکومت کی طرف سے اب یہ منصوبے لسٹ سے نکال دیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ کے پی حکام نے سی سی آئی کی منظورشدہ پاور پالیسی کو درست بیان نہیں کیا، اس پالیسی کی باقی شقوں کو بھی پڑھا جانا چاہیے تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ صرف پالیسی کی ایک شق کو پڑھ کر بتانا درست نہیں ہے، کیا آئی جی سیپ ایک بار منظور کیا جاتا ہے یا یہ ایک ڈائنامک ڈاکومنٹ ہے۔
اویس لغاری نے یہ بھی کہا کہ مطلب ان دو منصوبوں سے بجلی خریدی جائے تو بجلی مہنگی ہوجائے گی، یہ منصوبے کسی انویسٹر کی سرمایہ کاری پر نہیں صرف ورلڈ بینک کا قرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی کیپٹو پاور پلانٹس بینکرپٹ نہیں ہوئے، 5 آئی پی پیز کو ہم نےٹرمینیٹ کیا، جس کا صارفین کو فائدہ ہوا، 3400 ارب روپے کی اگلے 4 سے 5 سال کیلئے بچت کی ہے۔
وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ مسابقتی مارکیٹ کا ہدف ہم نے حاصل کرلیا ہے، ہم نے حکومت کو بجلی خریدنے سے آزاد کردیا ہے، اگر یہ سستی بجلی ہے، جائیں ورلڈ بینک سے قرضہ لیں اور بنالیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جون 2024 سے لیکر اب تک انڈسٹری کے ٹیرف میں 30 سے 35 فیصد کمی آئی ہے، اس سال ڈسکوز کےنقصان کو191ارب روپے کم کیا ہے، کیا یہ بڑا کام نہیں، ہم مانتے ہیں کہ ملک میں بجلی چوری ہورہی ہے۔
دوران اجلاس ایڈیشنل سیکریٹری پاور نے کہا کہ گبرال پاور پروجیکٹ کا آج تک کنٹریکٹ ہی نہیں ہوا، صرف یہی دو منصوبے نہیں ہم نے 8 سے 10ہزار میگاواٹ تک منصوبے نکالے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ ہم نے سی پیک کے بھی کئی پاور پروجیکٹس نکالے ہیں، ہم پروٹیکٹڈ کیٹگریز سے متعلق دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں، 200 یونٹ تک کےصارفین کو بجلی پرسبسڈی دی جارہی ہے۔
سینیٹر احمد خان نے کہا کہ سب سے پہلے یہ بتایا جائے زمین لی گئی تو کس کی اجازت سے لی گئی؟ سینیٹر مرزا آفریدی نے کہا کہ پروٹیکٹڈ کیٹگری 200 یونٹ کی بجائے 250 یونٹ تک کردیں۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ آپ نے ملک میں درخواست کرکےکیپٹو پاور پلانٹس لگائے،کیا ان منصوبوں میں کےپی کےساتھ زیادتی ہو رہی ہے یا نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چاہتے ہیں کہ آپ پروٹیکٹڈ کیٹگری کی پالیسی پر دوبارہ نظرثانی کریں، ان منصوبوں پر کے پی حکومت دوبارہ وفاق کےساتھ بیٹھے، خیبر پختونخوا میں یہ منصوبے مکمل ہو جائیں تو بہتر ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا، بلدیاتی حکومتوں کو توسیع دینے کی بجائے انتخابات کرانے کا فیصلہ
پشاور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 اگست ۔2025 )خیبرپختونخوا حکومت نے بلدیاتی حکومتوں کو توسیع دینے کی بجاے نئے بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم نئے بلدیاتی انتخابات دیگر صوبوں سے مشروط کیے گئے ہیں دوسری جانب بلدیاتی نمائندوں کی تنظیم لوکل کونسل ایسوسی ایشن نے بھی مقررہ وقت میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے.(جاری ہے)
یاد رہے کہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات 2 مرحلوں میں کرائے گئے تھے پہلے مرحلے کے انتخابات 19 دسمبر 2021 کو ہوئے تھے لیکن بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل 31 مارچ 2022 کو ہوئی جبکہ دوسرے مرحلے کے انتخابات پہاڑی علاقوں میں جون 2022 کو ہوئے اس طرح میدانی علاقوں میں بلدیاتی حکومتیں 31 مارچ 2026 اور پہاڑی علاقوں میں جون 2026 کو تحلیل ہوجائیں گی. صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کے مطابق بلدیاتی حکومتوں کی مدت میں توسیع کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے اگر پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے تو صوبائی حکومت بھی بلدیاتی انتخابات کرائے گی ابھی تک پنجاب میں بلدیاتی ادارے فعال نہیں ہیں. دوسری جانب لوکل کونسل ایسوسی ایشن نے بلدیاتی انتخابات بروقت نہ ہونے پر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ایسوسی ایشن کے چیئرمین حمایت اللہ مایار نے کہا ہے کہ آئین کے مطابق جس تاریخ کو بلدیاتی نمائندوں نے حلف اٹھایا ہے اسی روز بلدیاتی حکومتوں کی مدت شروع ہوجاتی ہے اگر بلدیاتی حکومتیں تحلیل ہونے کے بعد بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جاتے تو عدالت سے رجوع کیا جائے گا. لوکل کونسل ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر انتظار خلیل کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کیے گئے، نہ ہی انہیں قانون کے مطابق کام کرنے دیا گیا ہے، حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کی مدت میں توسیع کی جائے اس حوالے سے وزیراعلی خیبرپختونخوا سے مذاکرات بھی جاری ہیں.