وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کا بی آر ٹی پشاور کا دورہ، عام شہری کی طرح بس میں سفر کیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
تصویر سوشل میڈیا۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے اتوار کو بی آر ٹی پشاور کا دورہ کیا۔
اس موقع پر انہوں نے یونیورسٹی آف پشاور اسٹیشن سے ٹکٹ لے کر عام شہری کی طرح بس میں سفر کیا۔
اس دوران خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری اور منتخب اراکین اسمبلی بھی وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے ہمراہ موجود تھے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
خیبر پختونخوا حکومت کا 3 ایم پی او، 16 ایم پی او اور دفعہ 144 میں تبدیلی کا فیصلہ
وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ آزادی اظہار رائے اور پُرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے تاہم احتجاج کے حق اور عوامی سہولت میں توازن کے لیے نیا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا تاکہ احتجاج کے دوران عوام کو تکلیف نہ ہو۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا حکومت نے قوانین کو سیاسی دباؤ یا انتقامی کارروائی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کے لیے 3 ایم پی او، 16 ایم پی او اور دفعہ 144 میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی کی زیر صدارت ہفتہ کو اعلیٰ سطح اجلاس وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں منعقد ہوا، جس میں 3 ایم پی او، 16 ایم پی او اور دفعہ 144 کے حوالے سے تفصیلی غور کیا گیا۔ اجلاس میں طے ہوا کہ صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کی زیر نگرانی چار رکنی کمیٹی مجوزہ قوانین میں اصلاحات کی سفارشات پیش کرے گی تاکہ قوانین کو سیاسی دباؤ یا انتقامی کارروائی کیلئے استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔
وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ آزادی اظہار رائے اور پُرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے تاہم احتجاج کے حق اور عوامی سہولت میں توازن کے لیے نیا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا تاکہ احتجاج کے دوران عوام کو تکلیف نہ ہو۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہر قانون کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وژن کے مطابق قوانین کو مزید بہتر بنایا جائے گا، سیاسی انتقام کے امکانات والے نکات قوانین سے نکالے جائیں گے کیونکہ قوانین کا مقصد صرف عوامی مفاد اور فلاح ہے۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ اور سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور ہمارے ہر اقدام کی معراج عوام کی سہولت اور فلاح ہونی چاہیے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم، چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ محمد عابد مجید اور ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل شریک تھے۔