’ابھی تو میں جوان ہوں‘ دنیا کی معمر ترین مرغی، یہ بڑی بی کتنے سال کی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
دنیا کے لیے یہ محض ایک پرندہ ہو سکتی ہے لیکن سونیا ہل کے لیے ’پرل‘ ایک محبوب ساتھی ہے۔ اب یہی پرل عالمی توجہ کا مرکز بن گئی ہے کیونکہ اسے گنیز ورلڈ ریکارڈز نے دنیا کی زندہ سب سے زیادہ عمر والی مرغی قرار دے دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مختلف اداروں کے بعد اب پیش خدمت ہے جعلی پولیس تھانہ، کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ؟
صرف 14 سال اور 69 دن کی عمر میں پرل نے یہ اعزاز حاصل کرلیا ہے۔ سونیا ہل نے پرل کو 13 مارچ 2011 کو اپنے ذاتی انکیوبیٹر میں انڈے سے نکالا تھا۔
اس نسل کی مرغیاں، جنہیں ایسٹر ایگر کہا جاتا ہے، عموماً 5 سے 8 سال جیتی ہیں لیکن پرل نے سب اندازے غلط ثابت کر دیے۔
اب عمر کے باعث پرل کی چال محدود ہو گئی ہے۔ وہ زیادہ تر گھر کے لانڈری روم میں آرام کرتی ہے لیکن جب ٹی وی کی آواز آتی ہے تو وہ لیونگ روم کا رخ کرتی ہے جیسے اپنی پسندیدہ فلم دیکھنے آ رہی ہو۔ سونیا کہتی ہیں کہ جب وہ ٹی وی کی آواز سنتی ہے تو فوراً متوجہ ہو جاتی ہے۔
مزید پڑھیے: موسیقی کی دلدادہ ہتھنی نے اپنے ردعمل سے سب کو حیران کردیا
پرل گھر کے دیگر پالتو جانوروں جن میں ایک عمر رسیدہ بلی اور اس کے نو عمر بچے کے ساتھ بہت گھل مل چکی ہے۔ اپنی مرغی کی جانب پیار سے دیکھتے ہوئے خوشی سے بولیں ’بلی کا بچہ بسا اوقات پرل کے ساتھ آ کر بیٹھ جاتا ہے لیکن وہ اسے کچھ نہیں کہتی‘۔
اگرچہ پرل کی انڈے دینے کی رفتار کم ہو چکی ہے لیکن جیسے ہی اسے گنیز کی جانب سے ریکارڈ ہولڈر تسلیم کیا گیا اس نے خوشی میں ایک انڈا دے دیا۔
یاد رہے کہ پرل سے پہلے یہ اعزاز ریاست الی نوائے کی مرغی ’پِینَٹ‘ کے پاس تھا جو 21 سال 238 دن کی عمر میں دسمبر 2023 میں دار فانی سے کوچ کرگئی تھی۔
مزید پڑھیں: اولڈ ایج ہوم کی تنہایوں میں مِسٹری مووی کا جنم، معمر افراد نے کمال کردکھایا
پرل کی کہانی نہ صرف ایک مرغی کی عمر کا حیران کن ریکارڈ ہے بلکہ یہ اس محبت اور توجہ کی بھی تصویر ہے جو انسان اور اس کے پالتو ساتھی کے درمیان پروان چڑھتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گنیز بک آف ریکارڈز معمر ترین مرغی معمر مرغی پرل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: گنیز بک آف ریکارڈز ہے لیکن
پڑھیں:
غریب ہک زندہ لاش اے
یقین کریں کامیابی ایسے ہی قدم نہیں چومتی، اور پھر ہمارے قدم جو غربت کی دلدل میں دھنسے ہیں انکو چومنا تو درکنار انکو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی۔ لیکن کچھ قدم اس کیچڑسے باہر نکل ہی آتے ہیں لیکن انکو اس کیلئے بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
کارل مارکس نے کہا تھا ” انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مڈل کلاس طبقہ بنتا ہے ” ان کی نظریں آسمان اور پیر کیچڑ میں ہوتے ہیں”
زندگی کی 37 خزائیں دیکھنے کے بعد آج جب میں ظلمت شب میں بستر پر خود کو گراتا ہوں تو بہت کچھ خیالات میں آتا ہے۔ کمرے میں ایکطرفہ میز پر پڑے برقی دیپک کی ہلکی دھیمی روشنی میں رات کے کئی پہر میں اپنے بستر پر واں گزارتا ہوں، انتظار کرتا ہوں ، سوچتا ہوں، کبھی تکیہ کے سہارے ٹیک لگا کر نیم واں موبائل کو تکتا رہتا ہوں تو کبھی اُٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں ۔ گھر والوں کو کال کرنے کا ان کی جانب سے وقت مقرر ہے اور اسی وقت میں کال کی جاسکتی ہے کیونکہ ہمارے وقت نہیں ملتے۔ دوست احباب کی کال90 فیصد صرف کام سے ہی آتی ہے۔سوشل میڈیا کے احباب کو لگتا ہے میں ایک مصروف شخص ہوں، کل ملا کر حساب کتاب کر کے میں ایک بیرون ملک قیام پذیر شخص ہوں جو اپنے دوست احباب، رشتہ داروں ،تعلق داروں اور خاندان سے دور ہے اور ۔۔۔۔۔وجہ ہے کامیاب زندگی!
میری عمر کے ادھیڑ عمر کے جوان اور خاص طور پر نچلے درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے کروڑوں نو جوان شاید میرے جیسی کامیاب زندگی کی تمنا کرتے ہوں گے۔ لیکن شاید آج بھی غربت نے ان کے پاوں جکڑ رکھے ہوں گے اور وہ چاہ کر بھی گھر والوں کو روز مرہ کی سہولیات باہم پہنچانے سے قاصر ہونگے۔شاید آپکو اندازہ نہیں ہے کہ غربت کس کمبختی کا نام ہے ۔زندگی میں غربت کی وجہ سے جن طَعْن و تَشْنِیع کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے کچھ آج تک نہیں بھولے اور کچھ واقعات ذہن پر نقش ہو کر رہ جاتے ہیں۔
نہ چاہتے ہوئے بھی غربت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر موجود حقیقی مواد کا سہارا لینا پڑ رہا ہے ۔چند دن پہلے سوشل میڈیا پر سرگودھا کے 24 سالہ جواں سال طیب کی تصویر اور ساتھ میں لکھا وہ حساب کتاب گردش کر رہا تھاجو اس نوجوان نے اپنے قریبی لوگوں سے بطور قرض لے تو لیا لیکن شاید واپسی ممکن نہیں رہی تو معاشرہ میں عزت نفس بچانے کا واحد راستہ اپنایا اور وہ تھی موت، ایک جوان موت جو سوشل میڈیا کے لوگ تو بھول جائیں گے لیکن اس کے خاندان ، خاص طور پر اسکو پالنے والی ماں اور جوان کرنے والے باپ اب کبھی نہ بھول پائیں گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے۔۔۔ کتاب) من ال یحضر الفقیہ (
” جب تمہارا کوئی رشتہ دار محتاج ہو تو پھر باہر صدقہ نہ دو”
دوسری طرف میں غربت کے بھوک و افلاس کے ہاتھوں ایک ایک روٹی ٹکڑے کیلئے غزہ میں خون میں لت پت لاشوں کو دیکھتا ہوں جن پر بمباری کی جاتی ہے۔ دل پسیج کر رہ جاتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی ان حالات میں رووں یا پھر چپ چاپ تماشا دیکھوں ؟ تھوڑا بہت لکھنا جانتا ہے تو زبان کے علاوہ لفظوں سے بھی احتجاج کر لیتا ہوں لیکن یقین کریں میں اور میرے جیسے کئی جوان عملی طور پر کوئی بھی اقدام اُٹھانے سے قاصر ہیں ۔ موت کا تماشا تو روز ہی ہوتا ہے میرے آگے لیکن مجھے اب ندامت کے علاوہ احساس گناہ ہونے لگ گیا کہ بروز محشر ذات حق نے مجھ سے غزہ کے مظلوم مسلمانوں بارے سوال کر لیا تو میرے پاس کوئی جواب بن نہ پائے گا۔
ادھر وطن عزیز کے حالات ایسے ہیں کہ وہ لوگ جو پیسوں میں کھیلتے تھے اب خود ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو چکے ہیں سفید پوش تو خاموشی سے موت کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ اشرافیہ سنُ ہو چکی ہے، یقینا سب ہی ایسے نہیں ہے بہت سے امراء غرباء کی امداد کرتے ہیں
اب بات کرتے ہیں دوسری ویڈیو کی : ایک حقیقت کے قریب تر ویڈیو جسے سوشل میڈیا پر بطور مذاق پوسٹ کیا جاتا ہے جس میں دو اشخاص کا مکالمہ ہے جو شاید ہی 15 سیکنڈز سے زیادہ ہو
سوال: سائیں غریب کیا ہے ؟
جواب: غریب کتے دا پترُ ہے ۔ ہک مردہ لاش ہے
میں اپنے قارئین سے ہزار بار معذرت خواہ ہوں ایسے الفاظ لکھنے کیلئے جو کسی طور پر لکھت میں نہیں آنے چاہیں ۔ لیکن میں دست بستہ ، سر ندامت جھکائے اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہمارے معاشرے میں اس سے بہتر ،درست اور حقیقت پر مبنی غربت کی کوئی اور تعریف نہیں ہو سکتی۔ بہت سے افراد تنقید کریں گے شاید مجھے لعن طعن بھی کریں اس حوالے سے لیکن معذرت کیساتھ اور جناب منٹو سے مستعار لیکر کر منٹو صاحب کے ہی جملوں سے اپنا دفاع کروں گا
“اگر میری تحریریں فحش ہیں، تو معاشرہ فاحشہ ہے!”
“میں معاشرے کا آئینہ ہوں۔ اگر چہرہ بدصورت ہے، تو آئینے کو برا نہ کہو!”
التجا! آخر میں ایک التجا ہے کہ اپنے ارد گرد سفید پوش اور غریب لوگوں پر نظر رکھیں اور کوشش کر کے انکا ساتھ دیں کیونکہ وقت اور حالات بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی اور کیا پتہ وقت کی چکی میں کب کون پسنا شروع ہو جائے۔
ایک اور اہم بات، لکھاری جب کچھ لکھتا ہے یا کسی تحریر میں کوئی منظر کشی کرتا ہے تو خود کو بیچ چوراہے میں کھڑا کرکے اردگرد سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ ہمارا معاشرہ استدلال سے زیادہ ڈرامائی انداز اور ذاتی زندگیوں میں دلچسپی رکھتا ہے تو تحریر کا انداز بھی ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ مقصد صرف بات کو کسی نہ کسی طرح پہنچانا ہوتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں