ویسٹ انڈیز کی تاریخ ساز فتح، 34 سال بعد پاکستان کے خلاف سیریز جیت لی
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم نے 34 سال بعد پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز جیت کر ایک تاریخی کارنامہ انجام دے دیا۔ منگل کو ٹرینیڈاڈ میں کھیلے گئے فیصلہ کن میچ میں میزبان ٹیم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 202 رنز سے کامیابی حاصل کی اور 3 میچوں کی سیریز 1-2 سے اپنے نام کر لی۔
کپتان شائی ہوپ نے قیادت کا حق ادا کرتے ہوئے ناقابل شکست 120 رنز بنائے اور ٹیم کو 6 وکٹوں کے نقصان پر 294 رنز کے مستحکم مجموعے تک پہنچایا۔ جواب میں فاسٹ بولر جےڈن سیلز نے تباہ کن باؤلنگ کرتے ہوئے 6 وکٹیں حاصل کیں اور پاکستانی ٹیم کو صرف 92 رنز پر ڈھیر کر دیا۔
یہ 1991 کے بعد پہلی بار ہے کہ ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز جیتی ہے۔ یہ فتح ویسٹ انڈین ٹیم کے حوصلے بلند کرے گی، خاص طور پر اس وقت جب وہ 2027 کے آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ ویسٹ انڈیز 2023 کے ورلڈ کپ میں جگہ بنانے میں ناکام رہا تھا۔
میچ کے دوران ایک موقع پر ویسٹ انڈیز کی ٹیم مشکلات میں گھر گئی تھی جب 42 ویں اوور میں گُڈاکیش موتی 5 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اس وقت اسکور 184تھا اور اس کے 6 کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے۔ تاہم اس کے بعد شائی ہوپ اور جسٹن گریوز (ناٹ آؤٹ 43) نے شاندار شراکت قائم کی اور آخری اوورز میں دھواں دھار بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم کو ایک بڑے ہدف تک پہنچا دیا۔
یہ شائی ہوپ کی ون ڈے کرکٹ میں 18ویں سنچری تھی، جس کے ساتھ وہ ویسٹ انڈیز کی جانب سے سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے بلے بازوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آ گئے ہیں۔ انہوں نے سابق کپتان ڈیسمنڈ ہینز کو پیچھے چھوڑ دیا، جنہوں نے 17 سنچریاں جمع کر رکھی تھیں۔ اب ان کے سامنے کرس گیل 25 اور برائن لارا 19 سنچریوں کے ساتھ بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر کھڑے ہیں۔
یہ فتح ویسٹ انڈیز کی ون ڈے کرکٹ میں رنز کے لحاظ سے چوتھی سب سے بڑی کامیابی بھی تھی۔ شائی ہوپ نے میچ کے بعد کہا:
’یہ ایک بھرپور میچ تھا اور میں انتہائی فخر محسوس کر رہا ہوں کہ ہم نے اتنے عرصے بعد پاکستان کو شکست دی۔ ہم اکثر منفی پہلوؤں پر توجہ دیتے ہیں، لیکن آج ہمارے پاس بہت سی مثبت چیزیں ہیں جن پر خوشی منائی جا سکتی ہے۔‘
جےڈن سیلز کو سیریز میں شاندار کارکردگی (کل 10 وکٹیں) پر پلیئر آف دی سیریز قرار دیا گیا۔ شائی ہوپ نے نوجوان بولر کی تعریف کرتے ہوئے کہا:
’سیلز ایک معیاری بولر ہے… وہ ہر کام کے لیے تیار رہتا ہے اور ہر فارمیٹ میں بہترین کارکردگی دیتا ہے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز کرکٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز کرکٹ ویسٹ انڈیز کی کرتے ہوئے شائی ہوپ
پڑھیں:
سولر پینلز استعمال کرنے والے ہوجائیں خبردار!
ویب ڈیسک: پاکستان میں توانائی کے بحران اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے شہریوں کو متبادل ذرائع کی طرف راغب کیا ہے، جن میں سب سے نمایاں رجحان سولر انرجی ہے۔
گھروں کی چھتوں پر سولر پینلز کی تنصیب سے لے کر بڑے شمسی پارکس تک یہ شعبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، مگر ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں طوفانی بارشیں، سیلاب اور ناقص فضلہ مینجمنٹ اس نظام کو ایک نئے ماحولیاتی بحران میں بدل سکتے ہیں۔
آسٹریلوی کرکٹر ایلکس کیری کے والد چل بسے
ماہر ماحولیات اور پنجاب یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان طارق کے مطابق سولر پینلز اگر پانی میں ڈوب جائیں تو ان کے سلیکون خلیے اور فریم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ برقی کنکشن ناکارہ ہو جاتے ہیں، خاص طور پر بیٹریاں شارٹ سرکٹ یا آگ لگنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لیڈ ایسڈ اور لیتھیم آئن بیٹریاں جب خراب ہوں تو زہریلے کیمیکلز مٹی اور زیر زمین پانی میں شامل ہو کر سانس، جلد، گردے اور جگر کے امراض کا باعث بنتے ہیں۔
سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کیلئے خصوصی سہولت کا اعلان
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ابھی سے انتظامی ڈھانچہ نہ بنایا گیا تو یہ بحران موجودہ الیکٹرانک کچرے (ای ویسٹ) کی طرح شدت اختیار کر سکتا ہے۔
پاکستان پہلے ہی ای ویسٹ کے دباؤ میں ہے۔ دی گلوبل ای ویسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریبا چار لاکھ ٹن برقی آلات کا کچرا پیدا ہوتا ہے، جس میں موبائل فون، کمپیوٹر اور فریج شامل ہیں۔
سابق جیولوجسٹ ڈاکٹر نعیم مصطفی کے مطابق اس مسئلے کا ایک حل اربن مائننگ ہے، جس کے تحت شہروں میں پھینکے گئے پرانے آلات سے قیمتی دھاتیں جدید اور محفوظ طریقوں سے نکالی جا سکتی ہیں۔ ان کے بقول اگر یہ عمل منظم ہو تو معیشت کو فائدہ اور ماحول کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔
Currency Exchange Rate Thursday September 25, 2025
ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز نے بتایا کہ فی الحال پاکستان میں ای ویسٹ مینجمنٹ کی کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، تاہم اس پر کام جاری ہے اور جلد ایک مؤثر حکمت عملی متعارف کرائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سولر تنصیبات کے لیے نئے حفاظتی معیارات وضع کیے گئے ہیں تاکہ پینلز بارش اور تیز ہوا کے اثرات برداشت کر سکیں، مگر ماہرین کے مطابق یہ اقدامات ناکافی ہیں۔