34سال بعد ویسٹ انڈیز کی پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں کامیابی
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
ویسٹ انڈیز کی تاریخی کامیابی، 34 سال بعد پاکستان سے ون ڈے سیریز جیت لی۔ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو تیسرے اور آخری ایک روزہ میچ میں 202 رنز کے بھاری مارجن سے شکست دے کر 34 سال بعد پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز اپنے نام کر لی۔ویسٹ انڈیز کے 295 رنز کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم محض 92 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ نائب کپتان سلمان آغا 30 رنز کے ساتھ نمایاں رہے، جبکہ محمد نواز 23 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ حسن نواز 13، بابر اعظم 9، نسیم شاہ 6 اور حسین طلعت 1 رن ہی بنا سکے۔ صائم ایوب، عبداللہ شفیق، کپتان محمد رضوان، حسن علی اور ابرار احمد کھاتہ کھولے بغیر آؤٹ ہوئے۔میزبان ٹیم کے جیڈن سلز نے شاندار بولنگ کرتے ہوئے 6 وکٹیں حاصل کیں، گداکیش موتی نے 2 اور روسٹن چیز نے 1 کھلاڑی کو پویلین کی راہ دکھائی۔اس سے قبل ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا آغاز کیا اور کپتان شے ہوپ کی شاندار سنچری کی بدولت مقررہ 50 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 294 رنز بنائے۔ شے ہوپ نے 94 گیندوں پر ناقابل شکست 120 رنز اسکور کیے۔ ایون لوئس نے 37، روسٹن چیز نے 36، کیسی کارٹی نے 17، شرفین ردرفورڈ نے 15 رنز بنائے جبکہ گداکیش موتی اور برینڈن کنگ 5، 5 رنز پر آؤٹ ہوئے۔اختتامی اوورز میں جسٹن گریوز نے صرف 24 گیندوں پر جارحانہ 43 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی۔ پاکستان کی جانب سے ابرار احمد اور نسیم شاہ نے 2، 2 وکٹیں حاصل کیں جبکہ صائم ایوب اور محمد نواز کے حصے میں ایک، ایک وکٹ آئی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ویسٹ انڈیز
پڑھیں:
ملک میں سولر پینلز کے استعمال کا بڑھتا رجحان، ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کر دیا
لاہور:پاکستان میں توانائی کے بحران اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے شہریوں کو متبادل ذرائع کی طرف راغب کیا ہے، جن میں سب سے نمایاں رجحان سولر انرجی ہے۔
گھروں کی چھتوں پر سولر پینلز کی تنصیب سے لے کر بڑے شمسی پارکس تک یہ شعبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، مگر ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں طوفانی بارشیں، سیلاب اور ناقص فضلہ مینجمنٹ اس نظام کو ایک نئے ماحولیاتی بحران میں بدل سکتے ہیں۔
ماہر ماحولیات اور پنجاب یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان طارق کے مطابق سولر پینلز اگر پانی میں ڈوب جائیں تو ان کے سلیکون خلیے اور فریم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ برقی کنکشن ناکارہ ہو جاتے ہیں، خاص طور پر بیٹریاں شارٹ سرکٹ یا آگ لگنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لیڈ ایسڈ اور لیتھیم آئن بیٹریاں جب خراب ہوں تو زہریلے کیمیکلز مٹی اور زیر زمین پانی میں شامل ہو کر سانس، جلد، گردے اور جگر کے امراض کا باعث بنتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے گزشتہ مالی سال میں لاکھوں سولر پینلز اور ہزاروں میگاواٹ گنجائش رکھنے والی بیٹریاں درآمد کیں چونکہ سولر پینلز کی اوسط عمر 20سے 25 سال اور بیٹریوں کی پانچ سے دس سال ہے، اس لیے آنے والے برسوں میں ان کے ناکارہ ہونے سے پیدا ہونے والا کچرا کئی گنا بڑھنے کا امکان ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ابھی سے انتظامی ڈھانچہ نہ بنایا گیا تو یہ بحران موجودہ الیکٹرانک کچرے (ای ویسٹ) کی طرح شدت اختیار کر سکتا ہے۔
پاکستان پہلے ہی ای ویسٹ کے دباؤ میں ہے۔ دی گلوبل ای ویسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریبا چار لاکھ ٹن برقی آلات کا کچرا پیدا ہوتا ہے، جس میں موبائل فون، کمپیوٹر اور فریج شامل ہیں۔
پنجاب اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جہاں پرانا سامان غیر رسمی کباڑ بازاروں میں پہنچ کر غیر محفوظ طریقوں سے تلف کیا جاتا ہے۔ ان بازاروں میں دھاتیں نکالنے کے لیے تیزاب اور آگ کا استعمال نہ صرف ماحول بلکہ مزدوروں اور بچوں کی صحت کے لیے بھی خطرناک ہے۔
سابق جیولوجسٹ ڈاکٹر نعیم مصطفی کے مطابق اس مسئلے کا ایک حل اربن مائننگ ہے، جس کے تحت شہروں میں پھینکے گئے پرانے آلات سے قیمتی دھاتیں جدید اور محفوظ طریقوں سے نکالی جا سکتی ہیں۔ ان کے بقول اگر یہ عمل منظم ہو تو معیشت کو فائدہ اور ماحول کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔
ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز نے بتایا کہ فی الحال پاکستان میں ای ویسٹ مینجمنٹ کی کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، تاہم اس پر کام جاری ہے اور جلد ایک مؤثر حکمت عملی متعارف کرائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سولر تنصیبات کے لیے نئے حفاظتی معیارات وضع کیے گئے ہیں تاکہ پینلز بارش اور تیز ہوا کے اثرات برداشت کر سکیں، مگر ماہرین کے مطابق یہ اقدامات ناکافی ہیں۔
سولرپینلز کے امپورٹر میاں عبدالخالق کہتے ہیں کہ پاکستان کو فوری طور پر سولر ویسٹ مینجمنٹ پالیسی اور ری سائیکلنگ ڈھانچے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر توانائی کا یہ متبادل نظام اپنے ماحولیاتی فوائد کھو بیٹھے گا۔
ان کے مطابق ناکارہ پینلز اور بیٹریوں سے ایلومینیم، تانبا اور سلکان دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ری سائیکلنگ مراکز قائم کرنا ہوں گے، جنہیں ٹیکس مراعات دی جائیں تاکہ سرمایہ کار اس شعبے میں آئیں۔
ماحولیاتی وکیل التمش سعید کے مطابق یورپی یونین میں ویسٹ الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانک ایکوئپمنٹ ڈائریکٹو سختی سے نافذ ہے اور جاپان میں ری سائیکلنگ کے واضح قوانین موجود ہیں، مگر پاکستان میں اس حوالے سے ضابطہ بندی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بیسل کنونشن خطرناک کچرے کی سرحد پار منتقلی کو ریگولیٹ کرتا ہے، لیکن پاکستان میں اس پر عمل درآمد کمزور ہے۔
ڈاکٹر سلمان طارق نے زور دیا کہ حکومت توسیعی ذمہ داری برائے سازندگان کے اصول کو اپنائے تاکہ کمپنیوں کو اپنی مصنوعات کے بعد از استعمال مرحلے کی ذمہ داری دی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ نظام قائم ہوا تو نہ صرف ماحول محفوظ ہوگا بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ بصورت دیگر صاف توانائی کا خواب نئے ماحولیاتی بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے۔