اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ “گریٹر اسرائیل” کے تصور سے گہری وابستگی رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں خود کو ایک “تاریخی اور روحانی مشن” پر سمجھتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے حال ہی میں ایک اسرائیلی ٹی وی انٹرویو میں کہی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ گریٹر اسرائیل کے نظریے سے خود کو منسلک محسوس کرتے ہیں، تو نیتن یاہو نے جواب دیا: “بہت زیادہ۔” ان کے مطابق اس تصور میں صرف فلسطینی علاقے ہی نہیں، بلکہ اردن اور مصر کے بعض حصے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ کچھ عرب ممالک کے ساتھ بے گھر فلسطینیوں کو پناہ دینے سے متعلق بات چیت کر رہے ہیں، تاہم انہوں نے ان ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے۔
عرب ممالک کا شدید ردعمل
نیتن یاہو کے اس بیان پر عرب دنیا کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔
سعودی عرب نے اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے منصوبے خطے میں استحکام کے لیے خطرناک ہیں۔
اردن نے نیتن یاہو کے بیان کو اپنی علاقائی خودمختاری کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا۔
مصر نے اسرائیلی حکومت سے باضابطہ وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیانات خطے میں قیامِ امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
عرب لیگ نے اسے ایک سنگین اور ناقابلِ قبول اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بیان عرب دنیا کی سلامتی، بین الاقوامی قوانین، اور اقوام متحدہ کے اصولوں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔
یمن کی وزارتِ خارجہ نے نیتن یاہو کے بیان کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا اور خبردار کیا کہ ایسی پالیسیوں کا تسلسل خطے کو مزید کشیدگی اور عدم استحکام کی طرف لے جائے گا۔
یاد رہے کہ کچھ ماہ قبل اسرائیل کی جانب سے ایک متنازعہ “گریٹر اسرائیل” کا نقشہ جاری کیا گیا تھا، جس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے علاوہ اردن، شام، لبنان اور دیگر عرب علاقوں کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا تھا۔

Post Views: 3.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: گریٹر اسرائیل نیتن یاہو

پڑھیں:

اور بات ختم ہو گئی!

۔۔۔۔۔۔۔
شعیب واجد

سن48میں جب اسرائیل نے اپنے قیام کے بعد فلسطینی علاقوں پر قبضہ شروع کیا تو مغرب کی جانب سے اس قبضے کے خلاف آواز اُٹھی۔ ہم خوش ہو گئے اور ان کی آواز کو توانا سمجھتے ہوئے اعتماد کیا اوراپنی کوششیں ترک کردیں۔۔بات ختم ہو گئی۔۔ ہم بھول گئے ۔۔
سن 67 میں اسرائیل نے بیک وقت مصر، شام اور اُردن پہ حملہ کیا اور تینوں ملکوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔۔امریکہ اس بار بھی اسرائیل کا سب سے بڑا سپورٹر تھا۔۔ ہم تڑپ اٹھے لیکن مغربی ملکوں کو اسرائیل کی مذمت کرتے دیکھ کے ہم خاموش ہو گئے کہ اب تو یہ معاملہ حل ہی کرا لیں گے ۔۔مگر وقت گزرا ، معاملہ اقوام متحدہ کی یاترا بھی کر آیا۔۔اور بات ختم ہوگئی۔۔
سن73 کی عرب اسرائیل جنگ میں یہ تنازع پھر گرم ہوا۔۔ امریکا بدستور اسرائیل کی مدد اس طرح کر رہا تھا کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان جنگی ہتھیاروں کی فراہمی کا ایک پل قائم تھا ، ہر چار منٹ بعد ایک امریکی طیارہ ہتھیار لیکر اسرائیل اتر رہا تھا۔۔۔ادھر کئی مغربی ملکوں سے آوازیں آرہی تھیں کہ عرب ممالک کا غصہ بجا ہے کیونکہ ان کے علاقوں پہ قبضہ ہوا ہے ۔۔ اور 25برس سے مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ ہم خوش ہو گئے کہ امریکی اتحادی امریکہ کے موقف کے خلاف بات کر رہے ہیں اب مسئلہ حل ہو جائے گا۔یورپ میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہمارا دل بڑھا رہے تھے ۔مگر وقت گزرا اور بات ختم ہو گئی۔۔
34 برس گزر چکے تھے ۔1982میں اسرائیل نے لبنان کے خلاف بھی محاذ کھول دیا۔ فلسطینیوں کے صابرہ اور شتیلہ کیمپ میں قتل عام کیا۔ بے یارو مددگار فلسطینیوں کی ہزاروں لاشیں دیکھ کے مغرب تڑپ اٹھا۔مغربی ملکوں نے سخت مذمت کی اس بار امریکہ بھی بول اٹھا۔ یورپی ملکوں میں اتنے بڑے مظاہرے ہوئے کہ ہم خوش ہو گئے ۔ اور ان کی انسانیت دوستی کو داد دی۔بات ختم ہو گئی۔ ہم بھول گئے ۔ 1987میں فلسطینیوں نے مظاہرے شروع کیے جسے انتفاضہ تحریک کا نام دیا گیا۔۔یہ پُرامن مظاہروں کی ایک بے مثال تحریک تھی، جو بنیادی طور پر ایک سول نافرمانی کی تحریک کہی جاتی ہے ۔لیکن اس کی بدولت فلسطینی اپنے مقبوضہ علاقے واپس لینے اور بیت المقدس کی آزادی کی جدوجہد کو دنیا کے آگے روشناس کرانے میں ایک بار پھر کامیاب ہو گئے ۔ ان مظاہروں پر اسرائیل کی فائرنگ سے روزانہ فلسطینی زخمی اور شہید ہوتے تھے پرامن مظاہرین پر اسرائیلی فائرنگ کی پوری مغربی دنیا میں شدید مذمت کی گئی۔فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کا معاملہ پھر زندہ ہو گیا مغربی ملکوں سے اوازیں آنے لگی فلسطینیوں کو آزاد مملکت کا حق دیا جائے ۔ہم سمجھے دنیا بدل رہی ہے ۔ان دنوں مشرقی اور مغربی جرمنی ایک ہوئے تھے اور سوویت یونین ٹوٹ چکاتھا، ہم سمجھے عالمی تنازعات حل ہورہے ہیں۔فلسطین کو بھی حق مل جائے گا۔ مگر وقت گزرا اور بات پھر ختم ہو گئی۔بُھولی دنیا کو جگانے کیلئے سن 2000میں فلسطینیوں نے ایک نئی انتفاضہ کا آغاز کیا۔اس باریہ مزاحمتی احتجاج تھا۔فلسطینیوں کی اسرائیل سے روزانہ جھڑپیں ہوتیں۔پتھراؤ کے جواب میں اسرائیلی فوج کی جانب سے فائرنگ کی جاتی۔یہ تحریک پانچ سال چلی۔تین ہزار نوجوانوں نے جانیں دیں۔مغربی ممالک میں فلسطینی مظاہرین کے حق میں احتجاج ہوئے ۔مظاہرے دیکھ کر ہم خوش ہوئے ۔کہ دنیا اس بار تو جاگ ہی جائے گی۔امریکا نے بھی مذاکرات کی بات کی۔ وقت گزرا،بات ختم ہو گئی۔ ہم بھول گئے۔
فلسطین پر قبضے کو2008میں نصف صدی بیت چکی تھی۔ مسلم دنیا کو سمجھ آنے لگا تھا کہ مغرب کی فلسطین کی زبانی حمایت،مذمت اور مظاہرے لولی پاپ سے ذیادہ نہیں۔2008میں اسرائیلی فوج نے غزہ میں فوجی کارروائی کی۔جس میں 1300فلسطینی شہری شہید ہوئے۔ یہ اس دور کا بڑا قتل عام تھا۔جس پر دنیا چیخ اٹھی۔ٹی وی میڈیا اس دور میں عروج پاچکاتھا۔ہم نے سمجھا یہ تصویریں دنیا کو ہلا دیں گی۔ مگر وقت گزرا اور بات پھر ختم ہو گئی۔2012میں حماس لیڈر کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی،اسرائیل نے فلسطین پر شدید بمباری بھی کی۔ 167 افراد کی شہادت کے بعد دنیا میں مظاہرے ہوئے ۔ہم چپ رہے ۔بات ختم ہوگئی۔
اور پھر 2014آگیا۔دنیا نے پہلی بار فلسطینی بچے مرتے دیکھے ۔نئی صدی کا بدترین قتل عام ہوا۔2200 شہید شہریوں میں 1300 بچے تھے ۔دنیا ہل گئی۔اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ بھی پھٹ پڑی۔لندن اور پیرس کے مظاہرے ہمارا حوصلہ بڑھا گئے ۔ ہم نے سوچا دنیا بچوں کا قتل تو برداشت نہیں کرے گی۔ مگرپھر وہی ہوا۔سب مذمتیں،قراردادیں اور مظاہرے وقت گزاری کا بہانہ نکلے ۔ہم تاریخ کی بدترین مکاری اور دوغلے پن کا شکار ہوچکے تھے ۔2018میں فلسطینیوں نے غزہ اسرائیل سرحد پر احتجاج شروع کیا۔200 لاشیں گریں۔بات ختم ہوگئی۔7اکتوبر2023کو حماس نے اسرائیل کے اندر پہلی بڑی کارروائی کی۔1200اسرائیلی مارے گئے ۔دنیا نے اس کی بڑی مذمت کی۔کسی نے نہیں کہا کہ 75سال سے جاری اسرائیلی دہشت گردی کے جواب میں یہ ردعمل کیوں نہیں آتا؟دنیا کا ردعمل عجیب تھا۔فلسطینیوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیاگیاتھا۔اسرائیل کوفلسطینیوں کے کسی قتل عام کیلئے کبھی کوئی جواز درکار نہیں رہا تھا۔لیکن اس بار تو جواز موجود بھی تھا۔12سو اسرائیلی جومرگئے تھے ۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔صرف اگلے دس دن میں 2700فلسطینی مارے جا چکے تھے ۔اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی۔ دنیا میں مظاہرے ہوئے ۔مذمتیں ہوئیں۔ہم سمجھے اسرائیل کے لہو کی پیاس اب بجھ گئی ہوگئی۔ لیکن اسرائیل جو سوچ رہا تھا وہ پکچرتو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی تھی۔ اور پھر کسی مشین سے کٹ کر گرتی گاجر مولی کی طرح فلسطینیوں کی لاشیں گرنا شروع ہوگئیں۔آج اس جاری قتل عام کو ایک سال نو ماہ بیت چکے ہیں۔قتل عام مستقل بنیادوں پر جاری ہے ، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ فلسطینیوں کی لاشیں نہ گرتی ہوں۔ساٹھ ہزار سے زائد وہ شہری شہید ہوچکے ہیں۔جو نہ مسلح جنگجو تھے یا حماس کے رکن۔ انہیں گھروں میں شہید کیا گیا۔روٹی اور پانی کیلئے بنی قطاروں میں شہید کیا گیا۔قتل عام سے بات نسل کشی تک آن پہنچی۔اب غزہ پر قبضہ کرکے مزید قتل عام اور فلسطینیوں کو سرحد سے باہر دھکلینے کا منصوبہ ہے ۔دنیا چیخ رہی ہے ۔بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں۔ہفتے کو سڈنی اور ٹوکیو کے مظاہروں نے ‘دل خوش’ کردیا۔ خوب نعرے لگے تھے ۔لاکھوں لوگ نکلے تھے ۔ہم 77سال کے ماضی کی عینگ لگائے ،ان مظاہروں کو دیکھتے رہ گئے ۔

متعلقہ مضامین

  • اور بات ختم ہو گئی!
  • اگر نیتن یاہو خود اعتراف کر لے تو کیا یہ بھی "یہود دشمنی" ہو گی، سید عباس عراقچی
  • عظیم تر اسرائیلی ریاست کا قیام میرا روحانی مشن ہے؛ نیتن یاہو
  • پریانکا گاندھی پر اسرائیلی سفیر کی تنقید، کانگریس رہنماؤں کا سخت ردعمل
  • اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا ’گریٹر اسرائیل‘ منصوبے کا ’تاریخی اور روحانی مشن‘ جاری رکھنے کا عزم
  • اسرائیلی وزیراعظم کا اعلان: غزہ کے شہریوں کو باہر جانے کی اجازت دی جائے گی
  • اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران 21 ہزار مشتبہ افراد گرفتار کیے، ایران کا دعویٰ
  • اسرائیل نے ہولوکاسٹ کا سبق بھلا کر غزہ پر قبضے کا غیر قانونی منصوبہ بنایا، روسی سفارتکار
  • آسٹریلوی وزیراعظم کا نیتن یاہو پر غزہ کے انسانی بحران کا الزام اور شدید تنقید