برطانوی پاکستانی طالبہ ماہ نور چیمہ نے کیمبرج سسٹم میں تاریخ رقم کر دی
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
18 سالہ ماہ نور نے 24 اے لیول مضامین میں اعلیٰ امتیازی نمبر حاصل کر کے ایک ہی وقت میں چار نئے عالمی ریکارڈ قائم کر دیے۔ اس سے قبل وہ 34 جی سی ایس ای مضامین میں بھی شاندار کامیابی حاصل کر چکی ہیں۔
ماہ نور چیمہ اب مجموعی طور پر چھ عالمی ریکارڈز کی مالک ہیں، جو دنیا میں کسی بھی سیکنڈری اسکول طالب علم کے لیے سب سے زیادہ ہیں۔ شاندار کارکردگی کے بعد انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی میں میڈیسن کی تعلیم کے لیے داخلہ مل گیا ہے۔
ماہ نور نے سب سے زیادہ انفرادی اے لیول مضامین پاس کرنے، سب سے زیادہ اے پلس اور اے گریڈز حاصل کرنے، اور سب سے زیادہ کل مضامین میں امتیازی کامیابی حاصل کرنے جیسے ریکارڈز قائم کیے۔
ماہ نور کا کہنا ہے: "یہ میرے بچپن کا خواب تھا، جو اب پورا ہو گیا ہے۔ آکسفورڈ میں داخلہ پانا میرے لیے خوشی کا لمحہ ہے، اور اس کا سہرا میرے والدین کی قربانیوں کو جاتا ہے۔"
پاکستانی طالبہ نے موسیقی میں بھی ڈپلومہ حاصل کر رکھا ہے، اداکاری اور پبلک اسپیکنگ میں گولڈ میڈلز جیتے ہیں، اور وہ مینسا کی ممبر بھی ہیں۔ ان کی یہ شاندار کامیابیاں پاکستان اور برطانیہ دونوں کے لیے فخر کا باعث ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سب سے زیادہ ماہ نور
پڑھیں:
چھتوں پہ نصب سولر سسٹم، پاورگرڈ کے لیے چیلنج
بجلی کے نرخ بڑھنے کی وجہ سے چھتوں پر نصب ہونیوالے سولر پینلز کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور صارفین کی بڑی تعداد اس کی طرف منتقل ہورہی ہے۔ یہ رجحان بلوں میں کمی کے ساتھ ساتھ صارفین کو توانائی کے معاملے میں خود مختار بنا رہا ہے۔
لیکن دوسری جانب پاکستان کے روایتی بجلی کے نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر بھی سامنے آیا ہے،کیونکہ یہ نظام صرف ایک سمت میں بجلی کی ترسیل یعنی گرڈ سے صارف تک کے لیے ہے۔
موجودہ نیٹ میٹرنگ پیکیج 5 سے 25 کلو واٹ کے سولر منصوبوں پر سرمایہ 2 سے 4 سال میں واپس ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے کے پورے محلے سولر انرجی کی جانب منتقل ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً وہ صارفین جو صرف بجلی استعمال کرتے تھے، اب پروزیومرز (Prosumers) بن گئے ہیں۔
یعنی وہ بیک وقت بجلی پیدا بھی کرتے ہیں اور استعمال بھی۔یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب پروزیومرز زیادہ بجلی پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور گرڈ سے بجلی لینا بند کر دیتے ہیں، چونکہ روایتی نظام میں بجلی کا بہاؤ صرف ایک سمت میں ہوتا ہے، یعنی بجلی پاور پلانٹ سے پیدا ہوتی ہے، ٹرانسمیشن نیٹ ورک کے ذریعے مقامی گرڈ تک پہنچتی ہے اور پھر تقسیم کے نظام کے ذریعے صارفین کو فراہم کی جاتی ہے۔
جب پروزیومرز ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں تو اس کا نتیجہ ’’ریورس پاور فلو‘‘ کی صورت میں نکلتا ہے۔گھریلو آلات کے برعکس، جنھیں ضرورت نہ ہونے پر بند کردیا جاتا ہے۔
تاہم نیشنل گرڈ کے پاس ایسا کوئی آف سوئچ نہیں جس کو دبا کر اضافی بجلی لینا بند کردے، لہٰذا جب پروزیومرز بجلی لینا بند کرکے اضافی سولر توانائی برآمد کرتے ہیں تو گرڈ کو وہ بجلی لینا پڑتی ہے، چاہے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔
سولر پینلز سے گرڈ میں بھیجی جانیوالی اضافی بجلی ریورس پاور فلو کی صورت میں ٹرانسفارمرز کے لوڈنگ ماڈل کے تیسرے حصے میں آتی ہے، جہاں ایکٹیو اور ری ایکٹیو دونوں اقسام کی توانائی بیک وقت گرڈ میں داخل ہوتی ہیں۔
یہ صورتحال ٹرانسفارمرز پر ضرورت سے زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں، جسے اوور ایکسائٹیشن کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کور سیچوریشن پیدا ہوتی ہے، جس سے کور لاسز بڑھ جاتے ہیں، حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور انسولیشن تیزی سے خراب ہونے لگتی ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر تقسیم کار ٹرانسفارمرزکی عمرکو نمایاں طور پر کم کردیتے ہیں۔ اوور ایکسائٹیشن وولٹیج میں شدید اتار چڑھاؤ اور ہارمونکس کی پیداوار کا باعث بن سکتی ہے، جو پاور کوالٹی پر منفی اثر ڈالتی ہے۔
وولٹیج کے اُتار چڑھاؤ پر قابو پانے کے لیے کے۔ الیکٹرک جیسی پاور یوٹیلیٹیز ٹرانسفارمرزکی ٹیپ پوزیشن میں تبدیلی کرکے وولٹیج کو مستحکم رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن جیسے ہی سولر آؤٹ پٹ میں تبدیلی آتی ہے، وولٹیج کی سطح بھی دوبارہ بدل جاتی ہے، جس کے باعث ٹرانسفارمرز کی ٹیپ پوزیشن دوبارہ تبدیل کرنا پڑتی ہے۔
ٹرانسفامرز ٹیپنگ میں بار بار تبدیلی مکینیکل خطرات کو بڑھادیتی ہے ، جس سے مرمت کے اخراجات اور فیل ہونے کے خدشات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، جو صرف دستی ایڈجسٹمنٹ تک محدود نہ ہو، تاکہ ریورس پاور فلو کے منفی اثرات کو درست بھی کرے۔
اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ صارفین ایسے اسمارٹ انورٹرز نصب کریں جن میں خودکار ’’وولٹ۔ وار کنٹرول‘‘ موجود ہو، جو مقامی وولٹیج کے مطابق ری ایکٹیو پاورکو ایڈجسٹ کرے، اگرچہ یہ فیچر ریورس پاور فلو کو مکمل طور پر روک نہیں سکتا، لیکن یہ وولٹیج کو مستحکم رکھنے اور ٹرانسفارمرز سمیت دیگر آلات پر دباؤ کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ساتھ ہی یوٹیلٹیز کو یقینی بنانا چاہیے کہ نصب کیے جانے والے انورٹرز IEEE 1547-2018 کے معیار اور خصوصی صلاحیت کے حامل ہوں، جو گرڈ کے استحکام کو یقینی بنائے۔ اسی طرح AEDB سے تصدیق شدہ انسٹالرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان جدید فیچرز کو مکمل طور پر سمجھیں اور انورٹرز کو درست طریقے سے ہم آہنگ کریں۔
یوٹیلٹیز کو چاہیے کہ وہ تقسیم شدہ توانائی کے ذرایع کے انضمام کے لیے ایڈوانسڈ ڈسٹری بیوشن مینجمنٹ سسٹم (ADMS) کی منصوبہ بندی کریں، تاکہ گرڈ کو زیادہ پائیدار اور مستحکم بنایا جاسکے۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ڈسٹری بیوشن ٹرانسفارمرز کے لو ٹینشن سائیڈ پر مقامی بیٹری انرجی اسٹوریج سسٹمز (BESS) نصب کیے جائیں۔ یہ بیٹریاں دن کے وقت سولر سسٹمز سے پیدا ہونے والی اضافی بجلی کو محفوظ کرلیتی ہیں اور رات کے اوقات میں صارفین کو دوبارہ فراہم کرتی ہیں۔
لو ٹینشن سائیڈ پر اگر درست سائزنگ کے ساتھ BESS نصب کیا جائے تو یہ ریورس پاور فلو کو نمایاں طور پر کم کر تا ہے اور نیٹ ورک اَپ گریڈ پر آنیوالے بھاری اخراجات سے بچا تا ہے۔ آسٹریلیا میں پہلے ہی ’’پول ماؤنٹڈ بیٹریز‘‘ کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے تاکہ نیٹ ورک کی کارکردگی قابل اعتماد اور گرڈ کی استعداد کو بہتر بنایا جاسکے۔
آسٹریلیا کی کچھ یوٹیلٹیز نے ’’ سن ٹیکس‘‘ بھی نافذ کیا ہے، یعنی جب پروزیومرز سولر پیداوار کے عروج کے اوقات کے دوران بجلی گرڈ کو بھیجتے ہیں تو ان پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ اس پالیسی کو نیٹ ورک پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔
2015 میں ہوائی کی پبلک یوٹیلٹیزکمیشن نے ریاست کے تمام نئے سولر صارفین کے لیے نیٹ میٹرنگ ختم کرنے کا فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ ہواوے الیکٹرک کمپنی HECO) کی اس درخواست پر سنایا گیا کہ نیٹ میٹرنگ کے باعث گرڈ کی قابل اعتماد کارکردگی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ وولٹیج میں اتار چڑھاؤ اور ریورس پاور فلو بڑھ گئے ہیں۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے HECO نے ایسے متبادل پروگرام متعارف کروائے جو نیٹ میٹرنگ کے مقابلے میں محدود اور قابوشدہ برآمد کی اجازت دیتے ہیں۔2023 میں کیلیفورنیا نے ایک نیا نیٹ بلنگ NEM 3.0 متعارف کرایا، جس کے تحت پروزیومرز کو بجلی کی مکمل خوردہ قیمت دینے کے بجائے وہ رقم دی جاتی ہے جو برآمد کے وقت بجلی کی اصل ’’قدر‘‘ کے مطابق ہو۔ایسی پالیسیاں نہ صرف پاور انفرا اسٹرکچر کو تحفظ فراہم کرتی ہیں بلکہ یہ بھی یقینی بناتی ہیں کہ سولر انرجی کی ترقی پائیدار انداز میں جاری رہے۔