Kodokushi۔۔۔۔تنہائی میں موت
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
اور ایک دن فلیٹ کا کرایہ آنا بند ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو اس تحریر کا یہ آغاز یقیناً بہت بے تکا لگا ہوگا، لیکن میں جو المیہ بیان کرنے جارہا ہوں وہ زر کی چمک سے جُڑے اس واقعے کے باعث ہی سامنے آیا۔۔۔چلیے آگے چلیں۔ فلیٹ میں رہنے کا معاوضہ آنا بند ہوتے ہی مالک مکان کو اپنے کرایہ دار کے ہونے کا احساس ہوا، جس کا کرایہ بینک کے ذریعے آتا تھا۔ اس نے متعدد بار فون کیا مگر دوسرے طرف بس گھنٹی بجتی رہ گئی۔ آخر مالک مکان غصے میں فلیٹ پر پہنچا، جہاں تنہا رہنے والے ساٹھ سالہ کرایہ دار کی لاش اس کی منتظر تھی۔
بے جان جسم کے ارد گرد موجود بستر کی چادروں سے پیشاب کے بھپکے اٹھ رہے تھے، قریب رکھے برتنوں میں رکھے کھانے پر لال بیگوں کا راج تھا، ہفتوں پہلے جان اُگل دینے والا اور رطوبتوں میں ڈوبا بدن گلنے سڑنے کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ لاش کی تدفین کا فریضہ پولیس کو ادا کرنا پڑا، کیوں کہ اسے لینے کوئی نہیں آیا۔ اسے ایک بے نام قبر میں دفنادیا گیا۔ تحقیقات کے بعد پولیس نے بتایا،’’یہ خودکشی تو نہیں، لیکن متوفی مرجانا چاہتا تھا۔‘‘ یہ قصہ ساٹھ سال جی کر تنہائی میں مرجانے والے ہاروکی وتن ایبل (Haruki Watanable) کا ہے۔
جاپان کے شہر اوساکا سے میں جیون کرتا ہاروکی نہ عمررسیدہ تھا، نہ غریب، تاہم اس کے پاس بیوی تھی، دوست تھے نہ ملازمت۔ وہ باپ تھا، مگر اولاد نے کئی سال سے رابطے توڑ رکھے تھے۔ پھر جمع پونجی بھی ٹھکانے لگ گئی اور مالی محتاجی نے آلیا۔ بینک کے ذریعے جاتا کرایہ رک گیا، جس سے اس کے ہونے کا خیال آیا اور اس کا اکیلا وجود لاش کی صورت میں دریافت ہوا۔
ہمارے معاشرے میں ساری خامیوں کے باوجود اب بھی رشتوں اور تعلقات کی ڈوریں اتنی مضبوط ہیں کہ ایسے واقعات بہت کم رونما ہوتے ہیں، اور جب ہوتے ہیں تو خبر بن کر معاشرتی بے حسی کی بحث چھیڑ جاتے ہیں، مگر جاپان میں یہ روزمرہ کے وقوعے ہیں۔
جاپان کی قومی پولیس ایجنسی کے مطابق گذشتہ سال کے پہلے چھے ماہ کے دوران تنہا رہنے والے 37 ہزار
227 بزرگ شہری اپنے گھروں پر مردہ پائے گئے، جن میں سے ستر فی صد کی عمر پینسٹھ سال یا اس سے زیادہ تھی۔ ان مرنے والے میں سے 3 ہزار 939 کی لاش موت کے ایک ماہ بعد دریافت ہوئی، جب کہ ایک سو تیس ایسے تھے جن کے مرنے کا انکشاف موت کے سال بھر بعد ہوا۔ جاپانی ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ سوشل سیکیوریٹی ریسرچ نے تخمینہ لگایا ہے کہ جاپان میں پینسٹھ سال یا اس سے زیادہ عمر کے اکیلے پن کے ساتھ زندگی بتاتے افراد کی تعداد 2050 تک 10ملین سے تجاوز کرجائے گی۔
جاپان میں بڑھاپا تنہا رہ کر گزارنے اور یوں خاموشی سے مرجانے کہ مرنے کا ایک عرصے بعد پتا چلے، کا سلسلہ ایک رجحان، طرزحیات، مسئلے یہاں تک کہ وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس رجحان کو جاپانی میں کودوکوشی ( Kodokushi ) کا نام دیا گیا ہے، اسے ’’کوری تسوشی‘‘ (koritsushi) بھی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ’’اکیلے پن یا علیحدگی میں موت۔‘‘
ٹیکنالوجی، معیشت اور ثقافت کے راستوں پر کہیں ترقی یافتہ ممالک سے ہم قدم اور کہیں ان سے بھی آگے جاپان ’’کودوکوشی‘‘ کی صورت میں ایک بہت بڑے سماجی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ سماج سے ٹوٹ جانے اور تنہائی میں مرجانے کے اس رجحان کے پیچھے کئی محرکات اور وجوہات ہیں، جن میں معاشی جمود، شہروں میں آبادی کا بڑھنا اور جدیدیت سرفہرست ہیں۔ بڑھتی عمر کے لوگوں کی تنہائی میں موت ایک سنگین لیکن عام سا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اس رجحان کی شروعات 1970 کے عشرے میں ہوئی اور پھر یہ رجحان تیزی سے پھیلتا گیا۔ لوگ تنہا رہنے اور یوں مرنے لگے کہ ان کی لاش دنوں، ہفتوں اور مہینوں بعد دریافت ہوتی۔
کودوکوشی کے سب سے زیادہ شکار بوڑھے افراد ہیں۔ اس المیے کے عوامل میں بڑھتی ہوئی سماجی علیحدگی، خودعدم توجہی (Self-neglect)، اکیلاپن، سب سے الگ تھلگ ہوجانا، سماجی روابط اور خاندان کی اعانت کا فقدان، اور صحت کے مسائل نمایاں ترین ہیں۔ تنہائی میں روزوشب گزار کر موت کے اندھیرے میں ڈوب جانے والوں میں سے زیادہ تر وہ ہیں جنھوں نے تاعمر شادی نہیں کی یا وہ جو طلاق یا جیون ساتھی کی رحلت کے باعث اکیلے پن، ذہنی دباؤ، حرکت پذیری سے محرومی میں مبتلا ہوکر اکیلے پن کا راستہ چنتے ہیں، جس کا نتیجہ تنہائی کے ویرانے میں موت کی چاپ سننے کی صورت میں نکلتا ہے۔
تنہائی اور بڑھاپے کے ساتھ تنگ دستی بھی شریک ہوجائے تو بنیادی ضروریات کی عدم دست یابی۔۔۔ جیسے کھانا یا پانی نہ ملنا، حدت، جسمانی اور ذہنی امراض کے لیے طبی امداد کی عدم فراہمی، ناکافی ضروریات زندگی، جیسے جگہ اور ہوا کی کمی اور غیرموزوں ماحول کے باعث صورت حال مزید زبوں ہوجاتی ہے۔ جانوروں اور حشرات الارض سے لگنے والی بیماریاں، اپنے بے یارومددگار ہونے کا احساس، اور اپنی انا اور خودداری برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد وہ عناصر ہیں جو تنہائی میں موت کے سانحے پر منتج ہوتے ہیں۔
یک وتنہا اجل کا سامنا کرنے کی کہانیوں کے کردار مفلوک الحال بزرگ ہی نہیں وہ افراد بھی ہیں جن پر کبھی ہن برستا تھا اور دولت کی فراوانی کے باعث ان کے اردگرد تعلقات کا میلہ لگارہتا تھا۔ جاپانی اقتصادی بگاڑ نے خوش حال طبقے کی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جاپان کی۔ معیشت کو1990 سے بڑھتی ہوئی مندی کا سامنا ہے۔ ان حالات کے باعث گھر بیٹھ جانے والے وہ اہل تجارت اور ایسے ملازمت پیشہ افراد جنھوں نے شادی کو قید سمجھا اور اس بندھن میں نہیں بندھے، کارپوریٹ دنیا کی چکاچوند اور رونقوں سے لاتعلقی کے بعد سماجی علیحدگی کا شکار ہوگئے۔ چناں چہ معاشی جدوجہد، کچے دھاگے سے ٹوٹتے رومانی وجسمانی رشتے اور جذباتی دباؤ انھیں ویران گھروں میں ایک دن موت سے ہم کنار کردیتا ہے۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو تنہائی میں موت کا سراغ جاپان کی صدیوں پہلے رائج ایک روایت میں ملتا ہے۔ اس دور میں موت کی حقیقت سے خائف جاپانی خاندان ’’اوبے سوتے‘‘ (Ubasute) کے عنوان سے رائج رسم پر عمل کرتے ہوئے اپنی بوڑھی عورتوں کو آبادی سے دور کسی ویرانے میں تنہا مرنے کے لیے چھوڑ آتے تھے۔ اس وقت یہ واضح طور پر جبری تھا، لیکن عصرحاضر میں ظاہری طور پر متاثرہ شخص کی رضامندی سے وقوع پذیر ہوتا ہے، مگر درحقیقت یہ سماج اور حالات کے خفیہ جبر ہی کی کارستانی ہے۔
تنہائی میں موت کا سلسلہ اب لاچار اور امیدوں امنگوں سے تہی بڑھاپے ہی تک محدود نہیں رہا، یہ عفریت جوانیاں بھی نگل رہا ہے۔ 2018 سے 2020 کے دوران نوخیز لڑکوں لڑکیوں سے لے کر تیس تا چالیس سال کے 742افراد معاشرے سے لاتعلق ایام بسر کرتے ہوئے بند دروازوں کے پیچھے زندگی کی بازی ہار گئے، ان میں سے لگ بھگ چالیس فی صد کے لاشیں کم ازکم چار دن کے بعد دریافت ہوئیں۔ اس عرصے کے بعد بیتے برس تک اکیلی زندگی اور تنہا موت ایک ہزار ایک سو پینتالیس نوجوانوں کا مقدر بن چکی ہے، جن میں 20 سے 29 سال تک کے 325 افراد اور 15 سے 19 سال تک کے پندرہ نوجوان بھی شامل ہیں۔
تنہائی میں اموات کی وبا جاپانی حکومت اور معاشرے کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اور عوامی سطح پر مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ملک کے کچھ اضلاع میں اس رحجان کے انسداد کے لیے مہمات اور تحریکیں چلائی جارہی ہیں۔ دارالحکومت ٹوکیو میں سماجی اجتماعات کے انعقاد اور بزرگ شہریوں کی خبرگیری مہم کے ذریعے اس رجحان کو روکنے کی کوشش ہورہی ہے۔ خاتون آرٹسٹ Miyu Kojima ان کمروں کو جہاں لوگ تنہا موت کا شکار ہوئے، چھوٹے چھوٹے نمونوں کی صورت میں تخلیق کرکے لوگوں میں اس رجحان کے خلاف شعور بیدار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ٹوکیو کے مضافات میں واقع رہائشی منصوبے Tokiwadaira میں تنہائی میں موت کے واقعات پیش آنے کے بعد اس بستی کے باسیوں نے ازخود صورت حال سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے رہائشیوں کی انجمن نے ہاٹ لائن کے ذریعے سرکاری اداروں کو مطلع کرنے کا اہتمام کیا اور تنہائی میں موت کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی۔
اس مہم کے تحت رضاکار گشت کرکے فلیٹوں میں نمودار ہونے والی ایسی علامات کی خبر رکھتے ہیں جو مکین سے متعلق آگاہ کرسکے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا دُھلے ہوئے کپڑے خشک ہونے کے بعد بالکونی سے ہٹا لیے گئے ہیں؟ دن میں بھی پردے کھڑکیوں پر پڑے ہیں؟ آنے والے خطوط اور اخبارات اٹھالیے گئے ہیں یا جوں کے توں پڑے ہیں؟ روشنیاں ساری رات جلتی رہیں یا بجھادی گئیں؟ اس کے ساتھ بحالی مراکز قائم اور لوگوں کو ورزش اور باہم ملنے جُلنے کی سہولت فراہم کرکے بھی اس رجحان کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ ان سب کوششوں کے باوجود اس آبادی میں تنہائی میں موت کے واقعات کو روکا نہیں جاسکا۔
علم، ترقی اور دولت کے آسمانوں کو چھوتے جاپان کا یہ المیہ ہمیں سمجھا رہا ہے کہ خاندان، خلوص، محبت اور خدا سے تعلق ہی فرد کی تنہائی کا مداوا ہیں، جن کا نعمل البدل کوئی ذہین سے ذہین ترین سائنسی ایجاد نہیں ہوسکتی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تنہائی میں موت کے کی صورت میں اکیلے پن سے زیادہ کے ذریعے ہوتے ہی کے باعث نے والے کے لیے کے بعد رہا ہے
پڑھیں:
جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی
کیا آپ کو کسی نوعمر لڑکی یا لڑکے نے بتایا کہ وہ سٹریس اور تنہائی کا شکار ہے؟ آپ نے سوچا ہوگا یہ تو دنیا بھر سے جڑا ہوا ہے، ہزاروں دوست آن لائن ہیں، پھر کیسی تنہائی ؟ یہ ہے جین زی (Gen Z) ، وہ نسل ہے جو 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئی اور آج ان کی عمریں قریباً 13 سے 28 برس کے درمیان ہیں۔
میرے اپنے بچے جین زی سے ہیں تو اس کالم کو ایک ماں کا مکالمہ سمجھا جائے۔ یہ نوجوان موبائل اور ٹیکنالوجی کے حصار میں بڑے ہوئے ہیں۔ ذہین ہیں۔ بہت سے معاملات میں اپنے سے پہلے کی نسل سے آگے ہیں، مگر سماجی سطح پر کوئی خلا بہر طور ان کی زندگیوں میں موجود ہے۔
امریکی ماہرِ نفسیات جین ٹوینج (Jean Twenge) اپنی کتاب iGen میں لکھتی ہیں کہ یہ نسل سوشل میڈیا کے ذریعے ہر وقت جڑی رہتی ہے لیکن عملی زندگی میں پہلے سے زیادہ تنہا اور بے چین دکھائی دیتی ہے، 2023 کی ایک رپورٹ (Deloitte Global Survey) کے مطابق 46 فیصد جین زی نوجوان روزانہ دباؤ اور اضطراب کا شکار رہتے ہیں اور ماہرین سماجیات انہیں “Loneliest Generation” یعنی سب سے تنہا نسل قرار دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں:’لائیو چیٹ نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہے‘،پنجاب اسمبلی میں ٹک ٹاک پر پابندی کی قرارداد جمع
سوال یہ ہے کہ آخر یہ نسل اتنی اکیلی کیوں ہے؟ جب کہ ان کے اردگرد دنیا سکڑ کر جام جم میں آگئی ہے۔ یہ صبح اٹھتے ہی اپنا موبائل کھولتے ہیں اور ان کی مرضی کی دنیا، مرضی کے لوگ ان کا استقبال کرتے ہیں ۔ ہماری نسل یا اس سے پچھلی نسل کو یہ ’میری دنیا، میری مرضی‘ والی سہولت میسر نہ تھی۔
ہمارے بچپن میں دوست، محلے دار بلا تفریق ساتھ کھیلا کرتے۔ ساتھ پڑھا کرتے۔ کوئی زیادہ امیر کوئی مڈل کلاس کسی کا گھر تنگی معاش کا شکار ، اگر کبھی مڈل کلاس بچہ اپنا موازنہ امیر دوست سے کرتا تو ماں باپ کے پاس وہی گھڑے گھڑائے جواب ہوتے، ’بیٹا قناعت اختیار کرو، اپنے جیسوں میں دوستی کرو، ان کی قسمت ان کے ساتھ ہماری قسمت ہمارے ساتھ‘ اور مزے کی بات ہماری اکثریت مان بھی جاتی۔
جین زی کو آپ اس قسم کی فرسودہ مثالیں نہیں دے سکتے۔ ان کے دور کا ایک بڑا المیہ ہے کمپیریزن/موازنہ کلچر، جو شاید پہلے مین اسٹریم نہیں تھا۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں سے مقابلہ اور موازنہ اب ان کے رہن سہن کا حصہ ہے۔
مزید پڑھیں: نوجوان نسل کو جھوٹے پروپیگنڈے سے بچانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اپنا کردار ادا کرے، وزیراعظم شہباز شریف
اس تنہائی کی ایک بڑی وجہ بہت سارے غیر اہم، غیر متعلقہ لوگوں اور معلومات تک فوری رسائی ہے۔ ان کے دن کا بڑا حصہ انسٹاگرام، فیس بک اور ٹک ٹاک پر گزرتا ہے۔ وہاں ہمیں زیادہ تر جھوٹ یا آدھا سچ دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے سے بات بات پر لڑنے والے میاں بیوی، سوشل میڈیا پر بغل گیر ہوتے وڈیو، تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں، سر عام اظہار محبت کرتے ہیں۔
لوگ کامیابی، خوشی، چمک دمک، شادیاں، مہنگے کپڑے، گاڑیاں دکھائیں گے تو کیا وہ کچے ذہن پر اثر نہ کریں گی؟ معصوم ذہن یہی سوچے گا کہ زندگی یہی ہے، اور پھر سوچے گا میری زندگی ایسی کیوں نہیں؟ نتیجتاً اپنے آپ کو کمتر سمجھنے لگے گا۔ یہی وہ comparison culture ہے جو بے سکون کرتا ہے۔ زندگی سے توقعات بڑھاتا ہے، خواب اور حقیقت کا فرق مٹا دیتا ہے۔
نفسیات دان کہتے ہیں کہ جب کوئی ہر وقت دوسروں کی کامیابی کو معیار بنائے تو اس کا نتیجہ anxiety اور depression کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ اسی کیفیت نے آج جین زی کو اپنے ہی بنائے سراب کا قیدی بنا رکھا ہے۔
مزید پڑھیں: نوجوان نسل میں نفرت اور مایوسی پھیلانے والے عناصر کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے، صدر آصف زرداری
تنہائی کی ایک اور بڑی وجہ شاید صبر کا نہ ہونا ہے۔ صبر ایسا کمال وصف ہے کہ یہ انسانی دماغ کے لیے سب سے بڑا anti-depressant ہے۔ جین زی کو فوری نتائج کی جلدی ہوتی ہے۔ محبت ہے تو فوری اظہار ہو، نفرت ہے تو منہ پر کہہ دو، بالکل اسی طرح جیسے پوسٹ لگا کر فوری لائیکس اور کمنٹس کا انتظار کیا جاتا ہے جسے ماہرین instant gratification بھی کہتے ہیں۔
یہ نسل فوری نتیجہ چاہتی ہے جبکہ زندگی مشکل ہے، پیچیدہ ہے، تعلقات، رشتوں، دوستیوں میں آئیڈیل ملنا یا آئیڈیل حالات نصیب ہونا، قریباً ناممکن ہے۔ رشتوں کی پیچیدہ گرہیں اگر ہاتھوں سے کھولنی ہیں تو سوچنے، غور کرنے، دوسرے کی بات سننے، دوسرے کے جوتوں میں اپنا پیر رکھنے یعنی empathise کرنے سے ہی ممکن ہے۔
سمجھداری اور صبر کا کوئی نعم البدل نہیں ، جین زی کو فوری ری ایکشن دینے کی عادت ہے، یہ عادت تعلق اور دوستیوں میں دراڑ ڈالتی ہے۔ منہ پھٹ ہونا کوئی طرہ امتیاز نہیں۔ جب آپ سب سے ذرا ذرا سی بات پر نالاں رہیں گے تو تنہا ہی رہ جائیں گے ناں۔ کیا خیال ہے؟ محبت ہو، رشتہ ہو یا پروفیشنل کامیابی، یہ سب صبر، سمجھداری اور وقت مانگتی ہیں۔
مزید پڑھیں: چین نے سوشل میڈیا پر سختی کیوں بڑھا دی؟
یہی عادت انہیں ورک پلیس پر بھی مشکل میں ڈالتی ہے۔ ایک پراجیکٹ جسے ہفتوں یا مہینوں لگنے ہیں، وہ چاہتے ہیں کل ختم ہو جائے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو مایوسی اور دباؤ کا احساس بڑھتا ہے۔ یوں فوری خوشی کی چاہ انہیں مسلسل ذہنی تناؤ میں رکھتی ہے۔
اس نسل کا کمال یہ ہے کہ کھل کر ذہنی صحت پر بات تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) میں کمزور دکھائی دیتی ہے۔ ایک دوست کے غصے کو برداشت کرنا، نفسیاتی بیماریوں کے شکار باس کے ساتھ کام کرنا اور اچھا کام کرنا، میاں بیوی کے درمیان مسائل، لڑائیوں میں درمیانی رستہ نکالنا، رشتوں کی نزاکت کو سمجھنا، یا اختلاف کو خوش اسلوبی سے سنبھالنا۔ یہ سب چیزیں مشکل ہیں۔
یہ آمنے سامنے مکالمے سے حل ہوتی ہیں، ٹیکسٹ میسج پر نہ جذبات کی ٹھیک ترجمانی ہوتی ہے نہ باڈی لینگویج کے ذریعے بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ اب ملاقات سے گریز ہے اور مکالمے کا رواج کمزور ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ فیس بک پوسٹ لگائی جاتی ہے کہ ” feeling alone with 99 others”
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
جاری ہے ۔۔۔۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں