کراچی: نامور گلوکارہ صنم ماروی اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر احمد شاہ کے درمیان جاری تنازع ختم ہوگیا۔ دونوں نے غلط فہمیاں دور کرکے ایک دوسرے کو معاف کر دیا۔

چند روز قبل صنم ماروی نے احمد شاہ کو 5 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوایا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ 10 اگست کو سکھر میں سندھ حکومت کے ایک پروگرام کے دوران انہیں دھکے دیے گئے، نامناسب زبان استعمال کی گئی اور دھمکیاں بھی دی گئیں۔ 

گلوکارہ نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر معافی مانگیں ورنہ قانونی کارروائی کا سامنا کریں۔

احمد شاہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے نہ توہین کی اور نہ ہی کسی قسم کی دھمکیاں دیں۔ تاہم اب صوبائی وزیر ثقافت سید ذوالفقار علی شاہ اور لکھاری نور الہدیٰ شاہ کی مداخلت سے دونوں شخصیات کے درمیان صلح ہوگئی۔

وزیر ثقافت نے اپنے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں احمد شاہ نے صنم ماروی کو چھوٹی بہن اور بیٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے درمیان برسوں پرانے تعلقات ہیں اور محض غلط فہمی کی بنیاد پر تنازع سامنے آیا۔ 

انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کے اسٹاف کے نامناسب رویے سے گلوکارہ کو تکلیف پہنچی، تاہم اب تمام اختلافات ختم ہوگئے ہیں۔

https://www.

facebook.com/MPAZulfiqarAliShah/videos/1728012454548073/

صنم ماروی نے بھی سندھی زبان میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کی روایات کے مطابق انہوں نے اپنے تمام الزامات واپس لے لیے ہیں۔ انہوں نے صلح میں اہم کردار ادا کرنے پر سید ذوالفقار علی شاہ اور نور الہدیٰ شاہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ سندھ کے عوام کی شکر گزار ہیں۔

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صنم ماروی احمد شاہ انہوں نے

پڑھیں:

تنازع فلسطین اور مسلم ممالک

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں غزہ میں امن کے لیے منصوبہ پیش کیا ہے، اس منصوبے کے مندرجات پر عالمی سطح پر بحث ومباحثہ جاری ہے۔ بہت سے ملکوں نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے جن میں عرب ملک بھی شامل ہیں۔

ان کے علاوہ یورپی ممالک نے بھی اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے بحث ومباحثہ جاری ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔

میڈیا کے مطابق دونوں رہنماؤں نے مشرق وسطی کی صورت حال اور فلسطین میں جنگ بندی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مسئلہ فلسطین پر مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے، پاکستان نے ہمیشہ دنیا کے ہر فورم پر فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھائی ہے اور آیندہ بھی اٹھاتا رہے گا، پاکستان نے فلسطین کا مقدمہ اقوام عالم کے سامنے ہمیشہ زوردار طریقے سے لڑا ہے۔

میڈیا نے بتایا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان اس گفتگو کے دوران وزیرِ اعظم نے 1967 سے قبل کی سرحدوں کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس الشریف کے بطور اس کے دارالخلافہ کے پاکستان کے مؤقف کو بھی دہرایا، ان کا مزید کہنا تھا کہ8 اسلامی ممالک فلسطین میں جنگ بندی کے لیے اپنی فعال اور بھرپور کوششیں کرر ہے ہیں، پر امید ہیں کہ بہت جلد یہ کوششیں رنگ لائیں گی اور امن کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کا دیرینہ خواب پورا ہوگا۔

پاکستان کا تنازع فلسطین کے حوالے سے مؤقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جہاں تک ٹرمپ امن منصوبے کا تعلق ہے تو اس کی حمایت دنیا کے اکثر ممالک کر رہے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت غزہ میں قیام امن اور فلسطینی ریاست کے قیام کی ذمے داری امریکا کے صدر ٹرمپ نے لے رکھی ہے لہٰذا دیگر ممالک نے یہی دیکھنا ہے کہ امریکا کے صدر ٹرمپ کس حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں اور وہ اسرائیل کو کتنا مجبور کرتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو ان کا حق دینے پر آمادہ ہو جائے۔

اس حوالے سے بھی پاکستان اپنا مؤقف واضح کر چکا ہے کہ پاکستان فلسطین کے حوالے سے وہی مؤقف رکھتا ہے جو قائداعظم نے پیش کیا تھا۔ غزہ میں امدادی سامان لے کر جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے حوالے سے بھی وزیراعظم نے واضح کیا کہ گلوبل صمود فلوٹیلا سے اسرائیلی حراست میں موجود پاکستانیوں بالخصوص سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی وطن واپسی کے لیے حکومت اپنا فعال کردار ادا کررہی ہے۔ 

پاکستان اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کرتی نہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں، پاکستانی شہریوں کی بازیابی و بحفاظت وطن واپسی کے لیے دوست ممالک و بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، بہت جلد گلوبل صمود فلوٹیلا سے اسرائیلی حراست میں لیے گئے پاکستانیوں کو بحاظت وطن واپس لائیں گے۔ 

وزیراعظم اور امیر جماعت اسلامی کی ملاقات کے دوران کشمیر میں موجودہ صورتحال پر بھی گفتگو کی گئی۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کا معاملہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کے حوالے سے اس کی اہمیت ہے، گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ اور گرفتاریاں سخت قابل مذمت ہے۔ 

حافظ نعیم کی جانب سے ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ پروگرام پر قوم کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کو صرف آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبہ پر قائم رہنا چاہیے اور کسی ایسے پلان کی حمایت نہیں کرنی چاہیے جو بالآخر اسرائیل ہی کو طاقت فراہم کرے۔

ادھر ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدرٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کا مقصد غزہ میں جنگ بندی تھا، جب ہمیں 20نکاتی ایجنڈا دیا گیا تو اسلامی ممالک کی طرف سے ہم نے ترمیم شدہ 20نکاتی پلان دیا جو 20نکاتی ڈرافٹ فائنل ہوا اس میں بعد میں تبدیلیاں کی گئیں، 20نکاتی ڈرافٹ میں تبدیلیاں ہمیں قابل قبول نہیں۔ 

وزیر اعظم نے ٹرمپ کے پہلے ٹویٹ کی جواب میں ٹویٹ کیا، اس وقت تک ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ڈرافٹ میں تبدیلیاں کی گئیں،ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اسرائیل سے سفارتی روابطہ نہیں ہیں نہ ہی اسے تسلیم کرتے ہیں، فلسطین کے معاملے پر ہمارا وہی موقف ہی جو قائد اعظم کا تھا۔ 

اسحاق ڈار نے اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے گلوبل صمود فلوٹیلا کو غیرقانونی طور پر روکنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی سمندری قانون اور انسانی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔

پاکستان کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں کے واضح مؤقف کے بعد اب تنازع فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ ویسے بھی تنازع فلسطین میں عالمی اسٹیک ہولڈرز شریک ہیں۔

یہ تنازع کسی ایک ملک کی مرضی سے طے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے مسلم ممالک خصوصاً عرب ممالک کی حمایت لازمی عنصر ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین، مصر، مراکش، الجزائر، ترکی، ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے بڑے ممالک کی تائید وحمایت کے ساتھ ہی فلسطین کا کوئی حل سامنے آ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ فلسطینیوں کی تائید وحمایت بھی لازم ہے۔ بہرحال اطلاعات یہی ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو غزہ منصوبے کا جواب دینے کے لیے آج (اتوار) کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔

ادھر ایک پیش رفت یہ بھی ہے کہ حماس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے حوالے سے اپنا جواب ثالثوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اے ایف پی اور رائٹرز جیسی بڑی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق حماس نے یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ پٹی کی حکمرانی فلسطینی باڈی کے حوالے کرنے سمیت ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے کچھ حصوں کو منظور کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور معاہدے کی تفصیلات پر غور کے لیے مذاکرات کاکہا ہے۔

حماس نے ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت تمام زندہ اور مردہ اسرائیلی یرغمالیوں کو قیدیوںکے تبادلے کے فارمولے کے تحت رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حماس نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ گروپ معاہدے کی تفصیلات پر تبادلہ خیال کے لیے مذاکرات میں داخل ہونے کو تیار ہے۔

امریکی صدر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اپنے بیان میں کہا کہ حماس کے پاس اتوار کی شام چھ بجے، واشنگٹن ڈی سی کے وقت تک مہلت ہے۔ معاہدے پر دیگر ممالک دستخط کر چکے ہیں، حماس معاہدہ نہیں کر سکا تو اس کو سخت نتائج بھگتنا پڑیںگے، معاہدہ کرنے سے حماس کے مزاحمت کاروں کی بھی جان بچ جائے گی۔ امریکی صدر نے واضح کیا کہ معاہدہ طے پانے کا یہ آخری موقع ہے، جس کے بعد حماس کو ایسا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔

اس سارے منظرنامے کو دیکھا جائے تو امن منصوبے کی کامیابی اور ناکامی کے امکانات برابر ہیں۔ اسرائیل کی خواہش ہو گی کہ کسی طرح اس منصوبے کو سبوتاژ کر دیا جائے کیونکہ اسرائیلی انتہاپسند چاہتے ہیں کہ وہ حماس کی قیادت کو مکمل طور پر ختم کر دیں اور غزہ کو فلسطینیوں سے مکمل طور پر خالی کرا کر اسے اسرائیل میں ضم کر دیا جائے اور پھر یہاں یہودیوں کی آبادیاں قائم کر دی جائیں۔

اس طرح تنازع فلسطین کے حل کے جو امکانات نظر آ رہے ہیں، وہ مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔ اسرائیل کے انتہاپسندوں کے علاوہ امریکا اور یورپ میں بھی ایسے طاقتور گروپ موجود ہیں جو کسی طرح بھی فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے قیام کے حق میں نہیں ہیں۔

یہ طاقتور گروپ بھی چاہتے ہیں کہ غزہ میں قیام امن کی سفارتی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ حماس کی جانب سے مثبت اشارے آ رہے ہیں۔ ان نازک حالات میں فلسطینی قیادت کو انتہائی تدبر، دوراندیشی اور زیرکی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

حماس کے پاس آپشنز کم ہیں تاہم ابھی اس کے پاس گیم میں اِن رہنے کے لیے کارڈز موجود ہیں۔ عرب ممالک بھی ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہیں جب کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک جن میں شام، اردن، ترکی اور مصر بھی اس تنازع سے مکمل طور پر جڑے ہوئے ہیں۔

ان ممالک کے علاوہ ایران، عراق اور یمن بھی کسی نہ کسی حوالے سے مشرق وسطیٰ میں ہونے والی پیش رفت سے متاثر ہو رہے ہیں جب کہ پاکستان کی بھی خواہش ہے کہ اس تنازع کا کوئی ایسا حل سامنے آ جائے جس پر تمام مسلم ممالک متفق ہو جائیں۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔

مسلم ممالک میں رائے عامہ کا دباؤ اپنی اپنی حکومتوں پر بہت زیادہ ہے۔ تنازع فلسطین عالم اسلام کے لیے بڑا حساس اور جذباتی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے پر مسلم ممالک کی انٹیلیجنسیا اور باشعور حلقوں کا مؤقف سخت ہے اور وہ اسرائیل کو رعایت دینے کے حق میں نہیں ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • تنازع فلسطین اور مسلم ممالک
  • فلسطین تنازع کے حل کیلئے دو ریاستی فارمولہ قبول نہیں، حافظ نعیم الرحمان
  • عالمی برادری صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کا نوٹس لیں، جماعت اسلامی بلوچستان
  • کرناٹک حکومت جی ایس ٹی نقصان پر عدالت جائے گی، سدارامیا
  • ایشوریا رائے کا یوٹیوب اور گوگل کیخلاف ہرجانے کا دعویٰ، سینکڑوں اے آئی ویڈیوز ہٹادی گئیں
  • کرکٹر ابرار احمد رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کو تیار، شادی کب؟
  • سردار عتیق احمد خان کی زخمی اہلکاروں کی عیادت، پرتشدد واقعات کی شدید مذمت
  • ایشوریا اور ابھیشیک کا گوگل اور یوٹیوب کو 4 کروڑ کا قانونی نوٹس
  • ایشوریا اور ابھیشیک بچن کا گوگل اور یوٹیوب کو 4 کروڑ کا قانونی نوٹس
  • ایشوریا اور ابھیشیک کا گوگل اور یوٹیوب کو 4 کروڑ کا قانونی نوٹس، وجہ کیا بنی؟