زیلنسکی کا امن کی جانب قدم، پوٹن سے براہ راست بات چیت کی خواہش
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اگست 2025ء) وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ میٹنگ کے بعد زیلنسکی نے کہا، ’’میں نے تصدیق کی، اور تمام یورپی رہنماؤں نے میری حمایت کی، کہ ہم پوٹن کے ساتھ دوطرفہ ملاقات کے لیے تیار ہیں۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپی رہنماؤں کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ہونے والی بات چیت کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے یوکرینی رہنما نے کہا کہ وہ ’’کسی بھی فارمیٹ‘‘ میں بغیر کسی پیشگی شرط کے پوٹن کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار ہیں۔
پوٹن-زیلنسکی ملاقات کا انتظام ہو رہا ہے، ٹرمپامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات ’’انتہائی اچھی‘‘ رہی۔
(جاری ہے)
ٹرمپ نے کہا کہ اب روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور زیلنسکی کی ملاقات کا انتظام کیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے کہا، ’’ملاقات کے اختتام پر میں نے صدر پوٹن کو فون کیا اور صدر پوٹن اور صدر زیلنسکی کے درمیان ملاقات کا انتظام شروع کردیا، جس کا مقام بعد میں طے ہو گا۔
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس، وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے انتظامات کریں گے۔
ٹرمپ نے کہا، ’’اس ملاقات کے بعد ہم ایک سہ فریقی اجلاس کریں گے، جس میں دونوں صدور کے ساتھ میں بھی شامل ہوں گا۔‘‘
امریکی صدر نے یہ بھی بتایا کہ یورپی ممالک کی جانب سے یوکرین کے لیے سلامتی کی ضمانتوں پر بھی بات چیت ہوئی۔
پوٹن اور زیلنسکی کی ملاقات دو ہفتوں میں ہو گیجرمن چانسلر فریڈرش میرس نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کی ملاقات آئندہ دو ہفتوں میں ہونے والی ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق میرس نے صحافیوں کو بتایا، ''امریکی صدر نے روسی صدر سے فون پر بات کی اور اس امر پر اتفاق کیا کہ آئندہ دو ہفتوں میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہو گی۔
‘‘جرمن چانسلر نے کہا کہ ملاقات کا مقام ابھی طے نہیں ہوا ہے۔
یہ بیان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پوٹن اور زیلنسکی کے درمیان براہِ راست بات چیت کے انتظامات کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔
’یہ ایک اہم لمحہ ہے‘، یورپی کمیشنقبل ازیں یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈئر لاین نے کہا کہ واشنگٹن میں یوکرین میں امن کے لیے ہونے والے مذاکرات ایک اہم لمحہ ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''ہم یوکرین اور یورپ میں امن کے لیے یہاں اتحادی اور دوست کے طور پر، موجود ہیںِ۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''یہ ایک اہم لمحہ ہے، کیونکہ ہم یوکرین کے لیے مضبوط سلامتی کی ضمانتوں اور پائیدار امن پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
فان ڈئر لاین ان یورپی رہنماؤں میں شامل تھیں جو وائٹ ہاؤس میں یوکرین کی جنگ ختم کرنے کے مقصد سے مذاکرات میں شریک ہوئے۔
’پوٹن امن نہیں چاہتے‘، ماکروںفرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کی ملاقات پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا۔
ماکروں نے کہا کہ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے بعد یہ ملاقات ایک مثبت قدم ہے، لیکن انہیں اب بھی شک ہے۔
ماکرون نے مزید کہا، ''مجھے روسی صدر کی امن کی خواہش پر سب سے زیادہ شک ہے۔ ان کا آخری مقصد زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ کرنا، یوکرین کو کمزور کرنا اور ایسا یوکرین بنانا ہے جو خود کفیل نہ ہو بلکہ روس کے اثر و رسوخ میں رہے۔ یہ بالکل واضح ہے۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے زیلنسکی کی ملاقات صدر ڈونلڈ ٹرمپ یورپی رہنماؤں ٹرمپ نے کہا امریکی صدر ملاقات کا ملاقات کے نے کہا کہ پوٹن اور بات چیت کے ساتھ کے لیے کی صدر کے بعد
پڑھیں:
ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ کو نوبیل انعام دلانے کیلیے حیران شرط رکھ دی
امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے صدارتی انتخاب میں اپنے سابق حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل انعام کی نامزدگی کے لیے ایک دلچسپ اعلان کیا ہے۔
ہیلری کلنٹن نے ایکس (ٹوئٹر) پر لکھا کہ اگر صدر ٹرمپ روس یوکرین جنگ کا اختتام اس شرط کے ساتھ کروا دیں کہ یوکرین کا کوئی علاقہ روس کے قبضے میں نہ جائے، تو میں انھیں نوبیل انعام کے لیے نامزد کروں گی۔
ہیلری کلنٹن کے بقول اس کا مطلب یہ ہوگا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن وقت کے ساتھ ساتھ یوکرینی علاقوں سے دستبردار ہو جائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو یہ عالمی امن کے لیے ایک تاریخی اقدام ہوگا۔
سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیلری کلنٹن نے یہ بات اس لیے کہی کیوں کہ روس اس وقت یوکرین کے تقریباً 18 فیصد علاقے پر قابض ہے اور انھیں اپنی ملکیت قرار دیتا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ روس یوکرین جنگ میں کچھ علاقائی یا جغرافیائی تبدیلیاں ممکن ہیں تاہم انھوں نے تفصیل نہیں بتائی تھی۔
ہیلری کلنٹن نے نوبیل انعام کی نامزدگی کا بیان اس لیے بھی دیا کیوں کہ پاک بھارت کشیدگی سمیت آرمینیا آذربائیجان، تھائی لینڈ کمبوڈیا تناؤ ختم کرانے اور مشرقِ وسطیٰ میں امن معاہدوں کی وجہ سے ٹرمپ خود کو نوبیل انعام کا حقدار سمجھتے ہیں۔
کچھ ممالک اور ارکان اسمبلی کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی نوبیل انعام کے لیے نامزدگی کی تجویز دی جا چکی ہے۔
یاد رہے کہ نوبیل امن انعام ناروے کی کمیٹی دیتی ہے جب کہ اس کے لیے پانچ اراکین کا تقرر ناروے کی پارلیمنٹ کرتی ہے۔ دنیا بھر سے نوبیل انعام کے لیے ہر سال سیکڑوں امیدوار نامزد کیے جاتے ہیں۔