امہ ویلفیئر ٹرسٹ کا انکم جنریشن پروگرام، ضرورت مند افراد میں مفت رکشے اور موٹرسائیکلیں تقسیم
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
کراچی: بے روزگاری کے خاتمے اور غریب خاندانوں کو باعزت روزگار فراہم کرنے کے لیے امہ ویلفیئر ٹرسٹ پاکستان نے "انکم جنریشن پروگرام 2025" کا آغاز کر دیا۔ پہلے مرحلے میں کراچی کے 31 مستحق افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے جن میں 28 افراد کو رکشے اور 3 افراد کو موٹر سائیکلیں مفت دی گئیں۔
زونل آفس کلفٹن میں ہونے والی تقریب میں سابق پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ، امہ ویلفیئر ٹرسٹ کے وائس چیئرمین حاجی عبدالرزاق بیلی، حاجی حبیب اللہ نیازی، مفتی محمد مدنی، ارشاد بخاری اور معروف تاجر آصف گلفام سمیت سماجی و کاروباری شخصیات شریک ہوئیں۔ معزز مہمانوں نے خوش نصیب افراد کو رکشوں اور موٹرسائیکلوں کی چابیاں حوالے کیں۔
تقریب کی نظامت ڈاکٹر حمزہ بیلی نے کی اور ٹرسٹ کی خدمات پر ایک تفصیلی پریزنٹیشن بھی پیش کی گئی۔ شرکا نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام وقتی مدد کے بجائے ایک مستقل روزگار فراہم کرتا ہے، جو غربت کے خاتمے اور خوشحالی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔
اس موقع پر حاجی عبدالرزاق بیلی نے کہا کہ "امہ ویلفیئر ٹرسٹ کا مقصد صرف امداد دینا نہیں بلکہ انکم جنریشن پروگرام کے ذریعے غربت اور بے روزگاری کو جڑ سے ختم کرنا ہے تاکہ مستحق افراد باعزت طریقے سے کما سکیں۔"
واضح رہے کہ ٹرسٹ اب تک 400 سے زائد افراد کو رکشے، 150 افراد کو دکانیں اور ہزاروں خواتین کو سلائی مشینیں فراہم کر چکا ہے، جبکہ آئندہ مرحلوں میں مزید رکشے اور موٹرسائیکلیں تقسیم کیے جائیں گے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امہ ویلفیئر ٹرسٹ افراد کو
پڑھیں:
جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپےٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس ہر چھوٹ ہوتی ہے۔
جسٹس جمال خان نے ایڈیشنل اٹارنی جزل سے مکالمہ کیا کہ یہ تو آپ محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں، عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکھٹا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکھٹا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں۔
عاصمہ حامد نے دلیل دی کہ جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے۔
عاصمہ حامد نے کہا کہ مالی سال کا پروفیٹ موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔