پختونخوا میں سیلاب متاثرین کیلیے معاوضے دُگنے، نقصانات کا 100 فیصد ازالہ کریں گے، گنڈاپور
اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT
پشاور:
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ 15 اگست سے شروع ہونے والے کلاؤڈ برسٹ اور سیلابی بارشوں نے صوبے کے کئی اضلاع کو شدید متاثر کیا جن میں بونیر، سوات، شانگلہ، باجوڑ، مانسہرہ اور صوابی شامل ہیں۔
ان بارشوں اور حادثات کے نتیجے میں مجموعی طور پر 406 افراد جاں بحق اور 245 زخمی ہوئے، جبکہ 664 گھروں کو مکمل اور 2431 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔ مزید برآں 511 سڑکیں، 77 پل اور 2123 دکانیں بھی متاثر ہوئیں۔
اپنے ویڈیو بیان میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے فوری طور پر تمام محکموں، ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کو متحرک کیا۔ ریسکیو کارروائیوں کے دوران 5566 افراد کو بچایا گیا جبکہ 430 لاشیں برآمد ہوئیں۔ متاثرہ علاقوں میں 2061 اہلکار اور 176 گاڑیاں و کشتیاں بھیجی گئیں۔ اب تک 136 رابطہ سڑکیں اور 65 پل بحال کیے جا چکے ہیں۔
ریسکیو آپریشن کے بعد ریلیف سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا جن میں متاثرین کو ایک لاکھ 19 ہزار افراد تک پکا پکایا کھانا فراہم کیا گیا، 125 ٹرکوں پر امدادی سامان بھیجا گیا اور 70 میڈیکل کیمپس قائم کیے گئے۔ وزیراعلیٰ کے مطابق صوبائی حکومت نے معاوضوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اموات کے معاوضے کو 10 لاکھ سے بڑھا کر 20 لاکھ روپے فی کس، زخمیوں کے معاوضے کو ڈھائی لاکھ سے بڑھا کر 5 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ مکمل تباہ شدہ گھروں کا معاوضہ 10 لاکھ اور جزوی متاثرہ گھروں کا 3 لاکھ روپے مقرر کیا گیا ہے۔ پہلی بار تباہ شدہ دکانوں کے مالکان کیلئے 5 لاکھ روپے اور جزوی متاثرہ دکانوں کی صفائی کے لیے ایک لاکھ روپے طے کیا گیا ہے۔ فصلوں، باغات اور مال مویشیوں کے نقصانات کا بھی معاوضہ دیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے بتایا کہ اب تک 350 جاں بحق افراد کے لواحقین کو 654 ملین روپے ادا کیے گئے ہیں جبکہ کمسن بچوں کے لواحقین کے لیے ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر میں اکاؤنٹس کھلوائے جا رہے ہیں تاکہ ان کے حصے کی رقم بھی منتقل کی جا سکے۔ 18 زخمیوں کو ایک کروڑ 95 لاکھ روپے، 4432 افراد کو فوڈ اسٹیمپ کی مد میں 6 کروڑ 65 لاکھ روپے، گھروں کی مد میں 7 کروڑ 90 لاکھ روپے اور دکانوں کے معاوضے میں 2 کروڑ 80 لاکھ روپے ادا کیے جا چکے ہیں۔ مزید ایک ارب روپے دکانوں اور 1.
معاوضوں کی ادائیگی کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم متعارف کرایا گیا ہے اور اتوار تک تمام ادائیگیاں مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ متاثرہ اضلاع میں بحالی کے کاموں کی نگرانی کے لیے سینئر افسران تعینات کر دیے گئے ہیں جبکہ اضافی طبی عملہ، موبائل میڈیکل یونٹس اور ادویات بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔
علی امین گنڈاپور نے اعلان کیا کہ کابینہ اراکین، اراکین اسمبلی اور سرکاری ملازمین اپنی تنخواہیں سیلاب زدگان کے لیے عطیہ کریں گے، جس کے لیے پی ڈی ایم اے میں خصوصی اکاؤنٹ کھولا گیا ہے۔ صوبائی حکومت اب تک ریلیف اور بحالی کے لیے 6.5 ارب روپے جاری کر چکی ہے جبکہ مزید 5 ارب روپے جاری کیے جائیں گے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ اور چیف سیکرٹری خود متاثرہ اضلاع میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ جن کے گھر تباہ ہوئے انہیں دوبارہ گھر بنا کر دیں گے اور نقصانات کا سو فیصد ازالہ کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ ایسے حادثات سے بچنے کے لیے کچھ آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے گا۔ جن بچوں کے والدین اس آفت میں جاں بحق ہوئے ہیں ان کی کفالت کی مکمل ذمہ داری صوبائی حکومت اٹھائے گی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پنجاب میں سیلاب متاثرین کے ساتھ بھی خیبرپختونخوا حکومت یکجہتی کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صوبائی حکومت لاکھ روپے ارب روپے کیا گیا گیا ہے کیے جا کے لیے
پڑھیں:
پنجاب میں سیلاب سے 112 اموات، 47 لاکھ افراد متاثر، پی ڈی ایم اے
پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے دریائے راوی، ستلج اور چناب میں سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کر دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مختلف حادثات میں اب تک 112 شہری جاں بحق ہو چکے ہیں، جب کہ 4700 سے زائد موضع جات متاثر ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران سیلاب کے باعث کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا۔
رپورٹ کے مطابق سیلاب کے باعث پنجاب بھر میں 47 لاکھ 21 ہزار افراد متاثر ہوئے، جن میں سے 26 لاکھ 8 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ متاثرہ اضلاع میں 363 ریلیف کیمپس، 446 میڈیکل کیمپس اور 382 ویٹرنری کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔
ریلیف کمشنر پنجاب کے مطابق منگلا ڈیم 94 فیصد اور تربیلا ڈیم 100 فیصد تک بھر چکے ہیں، جبکہ بھارت میں دریائے ستلج پر واقع بھاکڑا ڈیم 88 فیصد، پونگ ڈیم 94 فیصد اور تھین ڈیم 88 فیصد تک بھر چکے ہیں۔
پنجاب کے جنوبی علاقوں میں پانی کی سطح کم ہونے کے باوجود سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ جلال پور پیروالا میں ایم فائیو موٹروے کا بڑا حصہ پانی میں بہہ جانے کے باعث ٹریفک کی روانی دوسرے روز بھی معطل رہی۔
شجاع آباد میں سیلاب سے 15 گاؤں متاثر ہوئے تاہم رابطہ سڑکیں بحال ہونے کے بعد لوگ واپس اپنے علاقوں میں جانا شروع ہو گئے ہیں۔ مظفرگڑھ میں دریائے چناب کی سطح معمول پر آ چکی ہے، مگر حالیہ سیلاب سے چار لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ سیلاب نے شیر شاہ پل کے مغربی کنارے کو بھی متاثر کیا۔
لیاقت پور میں دریائے چناب کے کنارے ہر طرف تباہی کا منظر ہے۔ پانی کی سطح میں کمی کے باوجود متاثرہ خاندان کھلے آسمان تلے موجود ہیں اور شدید گرمی میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
چشتیاں کے 47 گاؤں، راجن پور اور روجھان کے کچے کے علاقے، اور علی پور کے مقام پر ہیڈ پنجند کے قریب دو لاکھ 30 ہزار کیوسک کا ریلا گزر رہا ہے، جس کے باعث متاثرین کو مزید دشواری کا سامنا ہے۔
ادھر، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر سینئر وزیر مریم اورنگزیب اور دیگر وزراء نے علی پور کے نواح میں سیلاب سے متاثرہ چھ دیہات کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران وزارتی ٹیم نے بیت نوروالا، کوٹلہ اگر، کنڈرال، بیت بورارا، لاٹی اور بیٹ ملا میں ریسکیو و ریلیف کارروائی کا جائزہ لیا اور انخلا کے آپریشن کی نگرانی کی۔
اس موقع پر متاثرین میں ٹینٹ، راشن، صاف پانی اور جانوروں کے لیے چارہ بھی تقسیم کیا گیا۔ وزراء نے متاثرہ خاندانوں سے بات چیت کی اور دستیاب سہولتوں کے بارے میں دریافت کیا۔ متاثرین نے مؤثر اقدامات پر وزیراعلیٰ مریم نواز اور حکومت پنجاب کا شکریہ ادا کیا۔