اسٹیٹ بینک سمیت ریگولیٹرز کی تنخواہیں خود بڑھانے پر پابندی کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
 
 اسلام آباد:
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، پی ایم ڈی یو سمیت ریگولیٹرز کی تنخواہیں خود بڑھانے پر پابندی کی تجویز دے دی ہے اور ریگولیٹری باڈیز میں تنخواہوں میں اضافے کا اسٹرکچر بھی طلب کر لیا۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت منعقد ہوا، جس میں قائمہ کمیٹی خزانہ کی جانب سے اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، پی ایم ڈی یو سمیت ریگولیٹرز کی تنخواہیں خود بڑھانے پر پابندی کی تجویز دی گئی ہے۔
کمیٹی نے وزارت خزانہ کو تجاویز تیار کرنے کی ہدایت کر دی ہے اور کہا کہ تنخواہوں میں خود سے اضافہ روکنے کے لیے ایس ای سی پی ایکٹ میں ترامیم کی تجاویز تیار کی جائیں، خودمختار ادارے اپنی مرضی سے تنخواہیں بڑھانے کے بجائے وفاقی کابینہ سے منظوری لیں۔
کمیٹی کی رکن انوشے رحمان کا کہنا تھا کہ ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک، پی ایم ڈی یو سمیت خودمختار باڈیز مرضی سے تنخواہ نہ بڑھائیں، حکومت کی منظوری سے فیسیں اور لائسنسنگ فیس بڑھا کر مرضی سے تنخواہ بڑھانا جائز نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک، سکیورٹی ایکسچینج اینڈ کمیشن آف پاکستان خود سے تنخواہیں بڑھاتے ہیں، ججوں کی تنخواہ میں اضافے کی منظوری صدر دیں اور ریگولیٹر خود منظور کریں یہ درست نہیں ہے۔
اس موقع پر چیئرمین ایس ای سی پی عاکف سعید نے کہا کہ لوگ کتنی تنخواہ چھوڑ کر گئے اور کتنی تنخواہ پر آئے مارکیٹ سروے کیا ہے، مارکیٹ سروے کے مطابق ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ نے دیگر ریگولیٹری باڈیز میں تنخواہوں میں اضافے کا اسٹرکچر بھی طلب کر لیا ہے اور چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ حکومت کی اجازت سے فیس بڑھائی جاتی ہے تو تنخواہوں کے لیےبھی حکومت کی منظوری ہو۔
کمیٹی نے تجویز دی کہ خود تنخواہیں بڑھانے والے ریگولیٹرز کے لیے قانون سازی کرکے کیپ لگایا جائے۔
انوشہ رحمان نے کہا کہ فیسز اور لائسنسنگ چارجز سگ وصول رقم فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں جمع کرانی چاہیے۔
چیئرمین سی سی پی ڈاکٹر کبیر احمد سدھو نے بریفنگ میں بتایا کہ کمیشن نے گزشتہ سال عدالتوں میں فعال پیروی کے نتیجے میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 567 سے کم کر کے 280 کر دی ہے اور اسی عرصے میں عدالتوں کے فیصلوں کے ذریعے 41 کروڑ روپے کے جرمانے ریکور کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ کارٹلز کے خلاف 14 فیصلے سنائے گئے جن کے تحت ایک ارب روپے سے زائد کے جرمانے عائد ہوئے۔
کمیشن نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ کارٹلز اور اجارہ داری کے غلط استعمال کی 20 جبکہ گمراہ کن مارکیٹنگ کی 18 انکوائریاں مکمل کی گئیں، مارکیٹ انٹیلی جنس یونٹ نے 193 ممکنہ کیسز کی نشان دہی کی ہے۔
علاوہ ازیں مرجر اینڈ ایکوزیشن کی 117 منظوریوں سے 29 ارب روپے کی غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان میں آئی۔
سیکریٹری قانون راجا نعیم نے کمیٹی کو بتایا کہ کمیشن کے سپریم کورٹ میں زیر سماعت 200 مقدمات میں سے 167 مقدمات، جن میں کمپٹیشن کمیشن کے دائرہ کار کو چیلنچ کیا گیا ہے، سپریم کورٹ نے کلب کر کے آئینی بینچ کو بھجوا دیا ہے اور امید ہے کہ اس مقدمے کی سماعت ستمبر میں ہو جائے گی۔
کمیٹی کے اراکین نے کمپٹیشن کمیشن کے سینٹ اور شوگر کے سیکٹر میں کارٹلائزیشن کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان تنخواہوں میں قائمہ کمیٹی ایس ای سی پی اسٹیٹ بینک سے تنخواہ کی تنخواہ نے کہا کہ ہے اور
پڑھیں:
فیکٹری کے ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں تمام ملازمین کی تنخواہ ٹرانسفر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو: روس میں ایک فیکٹری ملازم کو غلطی سے تمام ملازمین کی تنخواہ ایک ساتھ وصول ہوگئی۔ تاہم جب کمپنی نے اس سے واپسی کا مطالبہ کیا تو اس نے انکار کردیا۔
خانٹی مانسیسک میں ایک فیکٹری نے اپنے ورکر ولادیمیر ریچاگوف پر 7 ملین روبلز (87,000 ڈالرز) واپس کرنے سے انکار پر مقدمہ دائر کیا ہے۔ یہ رقم سافٹ ویئر کی خرابی کی وجہ سے غلطی سے ملازم کو وصول ہوگئی تھی۔ جب اسے اپنی بینکنگ ایپ سے رقم کی اطلاع موصول ہوئی تو ولادیمیر ریچاگوف کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے 7,112,254 روبل (87,000 ڈالرز) کی رقم کو بونس سمجھا۔
ملازم کے ساتھیوں کے درمیان اگرچہ یہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ ان کی فیکٹری ان کے لیے ایک نفع بخش سال کے بعد 13ویں تنخواہ تیار کر رہی ہے، لیکن اس نے کبھی بھی اس طرح کی توقع نہیں کی تھی۔
لیکن یہ کروڑ پتی بننے کی اس کی خوشی کچھ ہی دیر کے لیے رہی کیونکہ اسے جلد ہی محکمہ اکاؤنٹنگ سے فون کالز موصول ہونے لگیں کہ اسے غلطی سے 7 ملین روبل منتقل کر دیے گئے ہیں اور اسے واپس کرنا پڑے گا۔
لیکن آن لائن کچھ تحقیق کرنے کے بعد ولادیمیر نے ایک تکنیکی error کی نشاندہی کی بنا پر رقم واپس کرنے سے انکار کردیا اور اب کیس سپریم کورٹ میں داخل کرادیا گیا ہے جہاں اس کا حتمی فیصلہ ہوگا۔