’کیا ساری زندگی اپنی حب الوطنی ثابت کرنا ہوگی؟’، عدنان سمیع کے بیٹے اذان سمیع کن سوالوں سے تنگ ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
گلوکار سے اداکار بننے والے اذان سمیع خان نے اپنے والد عدنان سمیع خان کے ساتھ تعلقات اور اس کے اپنی زندگی پر اثرات کے بارے میں کھل کر گفتگو کی ہے۔
ایک حالیہ انٹرویو میں، جو ویب پلیٹ فارم سمتھنگ ہوٹے کو دیا گیا، اذان نے کہا کہ ’بیٹے کی حیثیت سے میں اپنے والد کو سمجھتا ہوں لیکن ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہم کئی باتوں پر متفق نہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے: عدنان سمیع سے علیحدگی کے بعد زیبا بختیار کے ساتھ کیا کچھ پیش آیا؟
ڈرامہ سیریل ‘میں منٹو نہیں ہوں’ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اذان نے بتایا کہ وہ ڈرامے کے مصنف خلیل الرحمٰن قمر کے بیٹے دراب خلیل کے ساتھ اچھی دوستی کر چکے ہیں۔ دونوں نے اپنے والدین کے تنازعات کے باعث ایک دوسرے کو قریب سے سمجھا۔
جب انٹرویو کے میزبان نے عدنان سمیع سے تعلق پر سوال کیا تو اذان نے کہا کہ اس رشتے کے تین پہلو ہیں: وہ والد کو بطور فنکار سمجھتے ہیں، انہیں دل سے چاہتے اور عزت دیتے ہیں، اور اس سارے معاملے نے انہیں دنیا کی حقیقت سے روشناس کرایا۔ اذان نے کہا کہ والد ایک حساس فنکار ہیں، جنہیں مشکلات بالخصوص سیاسی حالات نے بھارتی شہریت لینے پر مجبور کیا۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وہ والد کا دفاع نہیں کرتے، بس سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بالی ووڈ میں فلاپ پاکستانی اداکارہ؛ 4 شادیاں، پھر بھی لگژری لائف کے مزے
اذان نے کہا کہ وہ اپنے والد سے بے حد محبت کرتے ہیں اور مذہبی عقائد کے مطابق ان کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں کئی بار عوامی پلیٹ فارمز پر والد کی مذمت کرنے کے لیے کہا گیا لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا۔ ’میں ہمیشہ ان کا بیٹا رہوں گا‘۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ سوشل میڈیا پر انہیں اکثر ’غدار کا بیٹا‘ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حالانکہ وہ محب وطن خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اذان نے سوال اٹھایا: ’کیا مجھے ساری زندگی اپنی حب الوطنی ثابت کرنا ہوگی؟ ‘
اپنی والدہ زِیبا بختیار کے بارے میں اذان نے کہا کہ وہ ان کی سب سے بڑی نقاد ہیں اور ڈرامے میں کام کے بعد ہمیشہ ان سے مشورہ لیتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اذان سمیع خان شوبز عدنان سمیع خان فنکاری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فنکاری اذان نے کہا کہ اپنے والد کرتے ہیں
پڑھیں:
’چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے‘
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 ستمبر 2025ء ) رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے معاملے پر رائے دینے پر تنقید کی زد میں آگئے۔ تفصیلات کے مطابق اپنے ایک بیان میں مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ پہلے جج صاحبان پر پی سی او کے حلف یافتہ ہونے کی پھبتی کسی جاتی تھی کہ انہوں نے آئین کو پس پشت ڈال کر آمروں کی وفاداری کا حلف اٹھایا، پھر 2007ء میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہوئے اور عدلیہ کے زوال کا ایک نیا دور شروع ہوا، انہوں نے خود پی سی او حلف یافتہ حج ہونے کے باوجود دوسرے پی سی او حلف یافتہ جج صاحبان کو منصب سے فارغ کردیا، اس کے بعد بیرسٹر اعتزاز احسن کے مطابق متکبر جوں اور متشدد وکلاء کا دور شروع ہوا اور آئین کو آمر کے بجائے اپنی خواہشات اور انا کے تابع کر دیا۔(جاری ہے)
ان کا کہنا ہے کہ جج صاحبان ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، اعجاز الاحسن، عظمت سعید شیخ، مظاہر نقوی اور منیب اختر وغیرہ نے وہ حشر بپا کیا کہ الامان والحفیظ! مارچ 2009ء میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ کے تنزیل و انتشار کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا، بعض حجج صاحبان نے ایسے فیصلے دیئے جو آئین کو ازسر نو لکھنے کے مترادف ہیں، عدم اعتماد کی بابت پہلے فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کے حکم کی پابندی اُس جماعت کے ارکان پر لازم ہوگی پھر جب مصلحت بدل گئی تو فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کی نہیں بلکہ پارلیمانی لیڈر کے حکم کی تعمیل لازم ہوگی۔ رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین کہتے ہیں کہ اب جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے جعلی ہونے کا مسئلہ ہے، آئین پسندی، نیز دینی منصبی اور اخلاقی حمیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر محاسبے کے لیے پیش کر دیتے اور خود چیف جسٹس کو لکھتے کہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کر کے میرے کیس کا فیصلہ صادر کیجیے اور اپنی ڈگری کی اصلیت کو ثابت کر کے سرخرو ہوتے کیونکہ ” آن را که حساب پاک است از محاسبه چه باک‘ یعنی جس کا حساب درست ہے اُسے خود کو محاسبے کے لیے پیش کرنے میں کس بات کا ڈر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہچکچاہٹ بتارہی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ شاید پوری دال ہی کالی ہے، جعل سازی کو حرمت عدالت کے غلاف میں لپیٹا نہیں جاسکتا، نیز اصول پسندی اور آئین پابندی کا تقاضا ہے کہ اس کی بابت اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُن کے ہم خیال بقیہ چارج صاحبان کا مؤقف بھی آنا چاہیئے، جوڈیشل کمیشن کا ایسے مسائل کو طویل عرصے تک پس پشت ڈالنا بھی عدل کے منافی ہے، جیسے قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا معاملہ اب تک التوا میں ہے۔ مفتی منیب الرحمان کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے کورٹ رپورٹر مریم نواز خان نے لکھا کہ چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے، سب بولو سبحان اللہ!چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے!
سب بولو سبحان اللہ! https://t.co/U41JkKAZL6
مفتی منیب آخری عمر میں منیب فاروق کیوں بن گئے ہیں؟
— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) September 17, 2025 ایک ایکس صارف انس گوندل نے سوال کیا کہ مفتی منیب الرحمان کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟مفتی منیب الرحمن کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟
— Anas Gondal (@AnasGondal19) September 17, 2025 صحافی طارق متین نے استفسار کیا کہ مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں۔مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں
— Tariq Mateen (@tariqmateen) September 17, 2025