سینئر اداکار انور علی کو سپرد خاک کردیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
فلم، ٹی وی اور اسٹیج کے نامور اداکار انور علی کو اشکبار آنکھوں کے ساتھ ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
نماز جنازہ میں شوبز کی نمایاں شخصیات اور مداح بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ انور علی کی نماز جنازہ ماڈل ٹاؤن لنک روڈ کی جامع مسجد میں ادا کی گئی، جس کی امامت سینئر اداکار جواد وسیم نے کی۔
نمازجنازہ میں خالد عباس ڈار، افتخار ٹھاکر، راشد محمود، طاہر انجم، اشرف خان، گوشی خان، پرویز رضا،جاوید رضوی، ذوالفقار علی زلفی، آغا قیصر عباس اور دیگر معروف فنکار شریک ہوئے۔
انور علی کی تدفین کے موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ان کا فنی سفر کئی دہائیوں پر محیط رہا۔ ڈرامہ سیریل ابابیل، ہوم سویٹ ہوم اور اندھیرا اجالا جیسے شاہکار آج بھی ان کے فن کی پہچان ہیں مگر زندگی کے آخری برس بیماریوں کی نذر ہوئے۔
سینئر اداکار پھیپھڑوں، گردوں، فالج اور دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ انور علی پیر کے روز وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ شوبز کی دنیا میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انور علی
پڑھیں:
ہالی ووڈ کے لیجنڈری اداکار رابرٹ ریڈفورڈ 89 برس کی عمر میں انتقال کر گئے
ہالی ووڈ کے مایہ ناز اداکار، ہدایت کار اور سنڈینس فلم فیسٹیول کے بانی رابرٹ ریڈفورڈ 89 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
یہ بھی پڑھیں: پائرٹس آف دی کیریبین کے اداکار جانی ڈیپ طویل وقفے کے بعد ہالی ووڈ میں واپسی کے لیے تیار
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ان کی موت کی تصدیق ان کی پبلسٹی فرم کی سربراہ سنڈی برجر نے کی جن کے مطابق ریڈفورڈ نے ریاست یوٹاہ میں نیند کے دوران آخری سانسیں لیں۔
ریڈفورڈ نے 6 دہائیوں پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں لاتعداد یادگار کردار ادا کیے۔ انہوں نے ’بوچ کیسیڈی اینڈ دی سنڈینس کڈ‘ (1969)، ’دی اسٹنگ‘ (1973)، ’آل دی پریذیڈنٹس مین‘ (1976) اور ’دی نیچرل‘ (1984) جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا۔
ان میں سے کئی فلمیں امریکن فلم انسٹیٹیوٹ کی 100 عظیم ترین امریکی فلموں کی فہرست میں شامل ہو چکی ہیں۔
ریڈفورڈ کو نہ صرف ان کی اداکاری بلکہ ان کی وجاہت، نیلی آنکھوں، دلکش مسکراہٹ اور اسٹرابری سنہری بالوں کے باعث بھی فلم بینوں میں بے حد پسند کیا جاتا تھا۔
ان کی آن اسکرین ساتھیوں میں جین فونڈا، باربرا اسٹرائسنڈ، فے ڈنوے، میرِل اسٹریپ اور میشل فائیفر جیسی معروف اداکارائیں شامل ہیں۔
مزید پڑھیے: ہالی ووڈ اداکار بروس ولس کی دماغی حالت بگڑ رہی ہے، بیوی ایما ہیمنگ کا انکشاف
فلمی نقاد اسٹیفنی زیکریک نے سنہ 2011 میں لکھا تھا کہ چاہے ریڈفورڈ کی اداکاری کی مہارت پر کسی کا جو بھی خیال ہو وہ کبھی لاجواب اور کبھی قدرے معمولی ہوتے لیکن سنہ 1970 کی دہائی میں وہ امریکی فلموں کا خوابیدہ چہرہ بن چکے تھے۔ ’وہ جیسے سونے کی مانند چمکتے تھے‘۔
ہدایت کاری اور آزاد سنیما کا علمبردارریڈفورڈ نے کیریئر کے وسط میں ہدایت کاری کی طرف رخ کیا اور سنہ 1980 میں بنائی گئی اپنی پہلی ہی فلم ’آرڈینری پیپل‘ پر آسکر ایوارڈ جیتا۔ ان کی دیگر معروف ہدایت کردہ فلموں میں ’اے ریور رنس تھرو اٹ‘، ’کوئیز شو‘ اور ’دی ہورس وسپر‘ شامل ہیں۔ یہ فلمیں بالترتیب سال 1992، 1994 اور 1998 میں ریلیز ہوئی تھیں۔
مزید پڑھیں: چاہتی ہوں کہ ایسے کردار ادا کروں جو مجھے خوفزدہ کریں، ہالی ووڈ اداکارہ مائیکی میڈیسن
اداکاری کے شعبے میں وہ کبھی آسکر نہیں جیت سکے، تاہم انہیں 2002 میں اعزازی آسکر سے نوازا گیا، بطور خاص سنڈینس فلم فیسٹیول کے ذریعے آزاد فلموں پر ان کے اثرات کو سراہا گیا۔
سنڈینس: ایک خواب سے تحریک تکرابرٹ ریڈفورڈ کی یوٹاہ سے وابستگی کا آغاز سنہ 1961 میں صرف 500 ڈالر میں 2 ایکڑ زمین خریدنے سے ہوا۔ یہ زمین بعد ازاں 5 ہزار ایکڑ پر مشتمل سنڈینس ماؤنٹین ریزورٹ میں تبدیل ہوئی جسے ماحول دوست اصولوں کے مطابق چلایا گیا۔
اسی زمین کی آمدنی سے انہوں نے فلم سازوں کے لیے ایک چھوٹی سی تجربہ گاہ قائم کی، جو سال 1981 میں سنڈینس انسٹیٹیوٹ میں تبدیل ہوئی۔ سنہ 1985 میں اس کے تحت سنڈینس فلم فیسٹیول کا آغاز ہوا جو آج امریکا کا سب سے بڑا آزاد فلمی میلہ مانا جاتا ہے۔
100 بااثر افراد میں شاملٹائم میگزین نے سنہ 2014 میں ریڈفورڈ کو دنیا کے 100 بااثر ترین افراد میں شامل کیا اور انہیں ’گوڈ فادر آف انڈی فلم‘ قرار دیا۔
ابتدائی زندگی: بغاوت، کھیل اور فنچارلس رابرٹ ریڈفورڈ جونیئر 18 اگست 1936 کو سانتا مونیکا کیلیفورنیا میں پیدا ہوئے۔ والد چارلس ریڈفورڈ ایک دودھ فروش سے اکاؤنٹنٹ بنے جب کہ والدہ مارتھا ہارٹ ایک گھریلو خاتون تھیں۔
یہ بھی پڑھیے: دیپیکا پڈوکون ہالی ووڈ واک آف فیم میں شامل ہونے والی پہلی بھارتی اداکارہ بن گئیں
سنہ1950 کی دہائی میں خاندان وان نائس منتقل ہو گیا جہاں ریڈفورڈ کا رجحان کھیل اور مصوری کی طرف بڑھا۔ وہ مختصر مدت کے لیے یونیورسٹی آف کولوراڈو میں بیس بال اسکالرشپ پر داخل ہوئے لیکن جلد ہی تعلیم چھوڑ کر یورپ چلے گئے جہاں انہوں نے پیرس اور فلورنس میں فنونِ لطیفہ کی تعلیم حاصل کی۔
نیویارک واپسی پر انہوں نے امریکن اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس میں داخلہ لیا جہاں ان کی اداکاری کی صلاحیتوں نے نکھار پایا۔ وہ سنہ 1950 کی دہائی کے آخر میں تھیٹر سے وابستہ ہوئے اور سنہ 1960 کی دہائی میں ’بیر فوٹ ان دا پارک‘ جیسی براڈوے ہٹس سے شہرت حاصل کی۔
ذاتی زندگی اور فلمی شراکت داریاںریڈفورڈ نے سنہ 1958 میں لولا وین ویگنن سے شادی کی جن سے ان کے 4 بچے ہوئے۔ ان میں سے ایک بیٹا، اسکاٹ، نومولیاتی بیماری سے بچپن میں چل بسا جبکہ دوسرا بیٹا جیمز سال 2020 میں انتقال کر گیا۔ ان کی بیٹیاں شونا (مصوّر) اور ایمی (اداکارہ) ہیں۔
ریڈفورڈ اور لولا کی طلاق سنہ 1985 میں ہوئی جبکہ انہوں نے سنہ 2009 میں اپنی دیرینہ ساتھی سبیلے زاگرز سے شادی کی۔
مزید پڑھیں: ہالی ووڈ کی مشہور شخصیات جو باقاعدگی سے روزے رکھتی ہیں
ریڈفورڈ نے ہدایت کار سڈنی پولاک کے ساتھ 7 فلموں میں کام کیا جن میں’جیرمیا جونسو‘، ’تھری ڈیز آف دی کونڈور‘ اور ’آؤٹ آف افریقہ‘ بھی شامل ہیں۔
ریڈفورڈ نے بعد ازاں ایسی فلمیں بھی بنائیں جن میں امریکی سیاست اور سماجی مسائل پر تنقیدی روشنی ڈالی گئی۔ سنہ 2007 کی ’لائنز فار لیمبس‘ اور سنہ 2012 کی ’دی کمپنی کیپس یو آؤٹ‘ اس کی مثالیں ہیں۔
سنہ2013 میں ریلیز ہونے والی فلم’آل از لاسٹ‘ میں ایک خاموش اور تنہا کردار نے انہیں بطور اداکار پھر سے نکھارا حالانکہ انہیں اس کے لیے آسکر نامزدگی نہیں ملی۔
مزید پڑھیے: ہالی ووڈ کے وہ اداکار جو اپنی فلموں کی شوٹنگ کے دوران چل بسے
ریڈفورڈ نے ایک بار کہا تھا کہ میں جذباتی ہوں، میں سیاسی بھی ہوں لیکن میں بائیں بازو کا آدمی نہیں ہوں بلکہ میں صرف اپنے ملک کی پائیداری میں دلچسپی رکھتا ہوں۔
رابرٹ ریڈفورڈ کی موت کے ساتھ ہالی ووڈ کے ایک سنہری دور کا اختتام ہو گیا ہے۔ وہ صرف ایک اداکار یا ہدایت کار نہیں بلکہ آزاد فلمی سوچ کا علمبردار، ماحول دوست رہنما اور لاکھوں مداحوں کے لیے خوابوں کا چمکتا ستارہ تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
رابرٹ ریڈفورڈ رابرٹ ریڈفورڈ کا انتقال ہالی ووڈ