WE News:
2025-11-03@06:00:25 GMT

بھارت اور روس چین کے گہرے تاریک سائے میں کھو گئے، ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT

بھارت اور روس چین کے گہرے تاریک سائے میں کھو گئے، ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بھارت اور روس بظاہر چین کے قریب ہوتے جا رہے ہیں، جس سے دونوں ممالک گہرے اور تاریک چین کے حصے بن گئے ہیں۔

رائٹرز کے مطابق ٹرمپ نے یہ بیان اس وقت دیا جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ اجلاس رواں ہفتے چین کے شہر تیانجن میں منعقد ہوا تھا جس میں 20 سے زائد غیر مغربی ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ٹرمپ نے تینوں رہنماؤں کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے بھارت اور روس کو کھو دیا ہے، وہ بھی سب سے گہرے اور تاریک چین کے حوالے۔ خدا کرے کہ ان کا ساتھ خوشحال اور طویل ہو۔

مزید پڑھیں: نیویارک کی میئر شپ: ٹرمپ کو ظہران ممدانی کی جیت کیوں یقینی نظر آنے لگی؟

ٹرمپ کے اس بیان پر نئی دہلی میں بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، جبکہ ماسکو اور بیجنگ سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

اجلاس کے دوران مودی اور پیوٹن ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے شی جن پنگ کی جانب بڑھے اور تینوں رہنما بغل بہ بغل کھڑے دکھائی دیے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ نے پینٹاگان کا نام بدل دیا، نیا نام کیا رکھا، اب وزیر دفاع کیا کہلائے گا؟

تجزیہ کاروں کے مطابق مودی کے چین سے بڑھتے تعلقات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ٹرمپ حکومت کے دوران امریکا اور بھارت کے تعلقات میں تجارتی تنازعات اور دیگر مسائل کے باعث سردمہری پیدا ہو رہی ہے۔

ٹرمپ نے اسی ہفتے کہا تھا کہ وہ پیوٹن سے بہت مایوس ہیں تاہم روس اور چین کی قربت پر انہیں تشویش نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت ٹرمپ روس چین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت روس چین اور روس چین کے

پڑھیں:

خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ

اسلام ٹائمز: ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں، جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔  خصوصی رپورٹ:
  ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ میں جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ تجربات کے اسٹریٹجک، سفارتی اور ماحولیاتی سطحوں پر وسیع اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر ایک پیغام میں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے وزارتِ جنگ کو فوراً جوہری تجربات کے عمل کا آغاز کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام حریف طاقتوں کی جانب سے انجام دی جانے والی ایسی ہی پیشگی سرگرمیوں کے جواب میں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں امریکہ کی کسی بھی حریف طاقت نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات نہیں کیے۔ اگرچہ امریکہ نے بھی 1992ء سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا، تاہم یہ اعلان اسٹریٹجک، سفارتی، ماحولیاتی، صحتی، معاشی اور داخلی سطحوں پر گہرے مضمرات کا حامل ہے۔

اسٹریٹجک اور سیکیورٹی اثرات: ٹرمپ کے اس اعلان سے دنیا میں جوہری توازن اور سیکورٹی کا عالمی نظام بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اقدام مشرقی ایشیا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک ’’زیرِ زمین دھماکوں کے ایک سلسلے‘‘ کو جنم دے سکتا ہے۔ روس نومبر 2023ء میں سی ٹی بی ٹی سے نکل گیا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے تجربات دوبارہ شروع کیے تو وہ بھی جوابی کارروائی کرے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں بوروستنیک جیسے جوہری میزائلوں کے تجربے کیے ہیں، مگر ان میں کوئی جوہری دھماکہ شامل نہیں تھا۔ ماہرین کے مطابق اب امریکہ کا یہ فیصلہ روس کو حقیقی جوہری دھماکوں کی طرف مائل کر سکتا ہے، جس سے غلط حساب کتاب (miscalculation) اور عالمی کشیدگی میں خطرناک اضافہ ممکن ہے۔

چین اور دیگر جوہری طاقتیں: چین نے اپنے جوہری ذخیرے کو 2020 میں 300 وارہیڈز سے بڑھا کر 2025 تک تقریباً 600 تک پہنچا دیا ہے، اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ تعداد 1000 تک پہنچ جائے گی بین الاقوامی اسٹریٹیجک اسٹڈیز سنٹر کے مطابق اس فیصلے کے بعد چین بھی اپنے پروگرام کی رفتار مزید تیز کر سکتا ہے۔ کارنیگی انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل پیس کے آنکیٹ پانڈا نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام چین اور روس دونوں کے لیے ایک طرح کا کھلا چیک ہے، جس سے وہ بھی مکمل جوہری تجربات دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، حالانکہ چین نے 1996 سے اور روس نے 1990 سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا۔ اسی طرح بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو بھی اپنے تجربات جاری رکھنے کا جواز مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شمالی کوریا نے آخری تصدیق شدہ جوہری تجربہ ٹرمپ کی پہلی صدارت (2017) کے دوران کیا تھا۔   سفارتی اثرات: اس اعلان نے عالمی سطح پر شدید منفی ردِعمل پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش کے ترجمان نے اس اقدام کو غیر پائیدار اور عالمی عدمِ پھیلاؤ کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا، اور گزشتہ 80 برسوں میں ہونے والے 2000 سے زائد جوہری تجربات کے تباہ کن ورثے کی یاد دہانی کرائی۔ ٹرمپ کے اعلان کے چند گھنٹے بعد چین نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ سی ٹی بی ٹی کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر قائم رہے گا اور جوہری عدمِ پھیلاؤ کے نظام کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔ 

برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادی ممالک جو واشنگٹن کی جوہری چھتری (deterrence) پر انحصار کرتے ہیں، اس اعلان کے بعد امریکہ کی اخلاقی ساکھ کے کمزور ہونے پر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر داریل کیمبال نے متنبہ کیا ہے کہ یہ قدم اسلحہ کنٹرول مذاکرات کو کمزور کرے گا اور امریکہ کے مخالفین کو یہ موقع دے گا کہ وہ اسے ایک غیر ذمہ دار طاقت کے طور پر پیش کریں۔ مزید برآں یہ اعلان جوہری عدمِ پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) کے 191 رکن ممالک کو بھی کمزور کر سکتا ہے، جسے عالمی امن کے لیے ایک بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔

ماحولیاتی اثرات: اگرچہ زیرِ زمین کیے جانے والے جوہری تجربات فضا میں ہونے والے تجربات کے مقابلے میں کم آلودگی پیدا کرتے ہیں، لیکن ان سے ماحولیاتی خطرات اب بھی شدید نوعیت کے رہتے ہیں۔ فاکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ان تجربات کے نمایاں ماحولیاتی اور حفاظتی اخراجات ہیں، جب کہ ماضی کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اثرات طویل المدت اور تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ 1945 سے اب تک دنیا بھر میں دو ہزار سے زیادہ جوہری تجربات کیے جا چکے ہیں، جنہوں نے فضا، سمندروں اور زیرِ زمین پانی میں تابکاری (ریڈیوایکٹیو) آلودگی پھیلائی ہے۔ مثال کے طور پر 1950 کی دہائی میں امریکہ کے بحرالکاہل کے اینیوٹاک اور بکینی ایٹول (مارشل جزائر) میں کیے گئے تجربات نے سیزیم 137 اور اسٹرانشیم 90 جیسے تابکار عناصر سے مسلسل آلودگی پیدا کی، جس کے نتیجے میں رونگلاپ جزیرہ ہمیشہ کے لیے غیر آباد ہو گیا۔   ریاست نیواڈا میں 1951 سے 1992 تک 928 سے زیادہ زیرِ زمین تجربات کیے گئے، جن سے زیرِ زمین پانیوں میں تابکاری رسنے لگی اور مقامی آبادی میں تھائرائڈ اور لیوکیمیا جیسے سرطانوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ زیرِ زمین دھماکے اکثر ریڈیوایکٹیو گیسوں کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور ٹریٹیم سمیت مختلف فِشَن (fission) مصنوعات کو ماحول میں داخل کرتے ہیں، جو ماحولیاتی نظام (ecosystem) اور خوراک کی زنجیر کو متاثر کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ تابکار آلودگی دہائیوں تک مٹی اور پانی میں برقرار رہ سکتی ہے، جس کے اثرات کئی نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔ ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • اسٹاک مارکیٹ ہفتہ بھار دباؤ میں رہی، سرمایہ کاروں پر خدشات کے سائے گہرے
  • روس کے یوکرین سے سخت مطالبات، پیوٹن ،ٹرمپ ملاقات منسوخ کردی گئی
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی کروا کر لاکھوں جانیں بچائیں، وزیراعظم شہباز شریف
  • نواز شریف کا سابق ایم این اے بیرسٹر عثمان ابراہیم سے اہلیہ کے انتقال پر اظہارِ تعزیت
  • ایران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے گہرے اثرات
  • ٹرمپ پیوٹن کی سربراہی ملاقات منسوخ
  • روس کی جانب سے امریکا بھیجے گئے میمو کے بعد ٹرمپ پیوٹن کی سربراہی ملاقات منسوخ