نریندر مودی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے کیوں خطاب نہیں کر رہے؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, September 2025 GMT
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس 9 ستمبر سے شروع ہوگا اور جنرل ڈیبیٹ 23 سے 29 ستمبر تک جاری رہے گی۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس ماہ نیویارک میں ہونے والے جنرل ڈیبیٹ سے خطاب نہیں کریں گے۔
خارجہ امور کے ماہر علی سرور نقوی کی رائےوی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ خارجہ امور علی سرور نقوی نے کہا کہ جنرل اسمبلی میں خطاب وزرائے اعظم کے لیے ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ اس دوران دیگر ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کر کے روابط بہتر بنائے جاتے ہیں اور قومی مفادات کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا-بھارت کشیدگی، مودی کا اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت سے گریز
انہوں نے کہا کہ اگر وزیر خارجہ شریک ہو تو یہ ایک منفی تاثر دیتا ہے۔ مزید یہ کہ امریکی صدر، بطور میزبان، سربراہانِ حکومت کو خصوصی عشائیہ پر مدعو کرتے ہیں لیکن وزرائے خارجہ کو اس موقع کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔
اس لیے وزیر اعظم کی غیر حاضری بھارت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکا-بھارت کشیدگی ایک بڑی وجہعلی سرور نقوی کے مطابق نریندر مودی کی غیر حاضری کی ایک بڑی وجہ بھارت اور امریکا کے درمیان حالیہ کشیدگی ہے۔
بھارتی وزیراعظم نہیں چاہتے کہ جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران ان کا براہِ راست سامنا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو۔
انہوں نے کہا کہ اگر ملاقات ہو گئی تو امریکا کی جانب سے بھارت پر مزید دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ مودی ابھی تک ٹرمپ کے پاک-بھارت کشیدگی کم کرنے کے کردار کو تسلیم نہیں کرتے، جبکہ امریکی صدر چاہتے ہیں کہ مودی ان کے کردار کو سراہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی اس سامنا سے بچنے کے خواہاں ہیں۔
سابق سفیر مسعود خالد کا مؤقفسابق سفیر مسعود خالد نے ایک مختلف رائے پیش کی۔ ان کے مطابق جنرل اسمبلی سے خطاب لازمی طور پر وزیر اعظم یا صدر کو ہی نہیں کرنا پڑتا۔
پاکستان کی طرف سے بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خطاب کر چکے ہیں اور چین کی نمائندگی بھی ماضی میں وزیر خارجہ نے کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ-مودی 35 منٹ کی کال جس نے بھارت امریکا تعلقات میں دراڑ ڈال دی
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کا پالیسی بیان دینے کے لیے کوئی بھی نمائندہ مقرر کیا جا سکتا ہے اور اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا۔
ان کے مطابق مودی کی غیر حاضری کو کسی خاص وجہ سے جوڑنا درست نہیں ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ امریکا بھارت ٹرمپ جنرل اسمبلی سابق سفیر مسعود خالد علی سرور نقوی مودی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ امریکا بھارت جنرل اسمبلی سابق سفیر مسعود خالد علی سرور نقوی علی سرور نقوی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے لیے
پڑھیں:
نریندر مودی کی ریلی سے پہلے 6 صحافیوں کو نظربند کرنا اُنکی گھبراہٹ کا مظہر ہے، کانگریس
سپریا شرینیت نے کہا بہار میں نہ سرمایہ کاری ہورہی ہے اور نہ ہی ملازمتیں بن رہی ہیں، نوجوانوں کا مستقبل بحران میں ہے کیونکہ ڈگریاں فروخت ہو رہی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اترپردیش کے مظفر پور میں وزیراعظم نریندر مودی کی ہوئی انتخابی ریلی سے قبل 6 صحافیوں کو نظربند کئے جانے کی خبر پر کانگریس نے اپنا تلخ ردعمل ظاہر کیا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ عمل نریندر مودی اور بہار کی این ڈی اے حکومت کی گھبراہٹ ظاہر کرتا ہے۔ اس معاملے میں کانگریس کی سینیئر لیڈر اور قومی ترجمان سپریا شرینیت نے آج مظفر پور میں ایک پریس کانفرنس کی۔ اس دوران میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل مظفر پور سے خبر آئی کہ وزیراعظم نریندر مودی کی ریلی سے قبل 6 صحافیوں کو نظربند کیا گیا۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ نریندر مودی آخر کیوں گھبراتے ہیں، جو صحافی سوال پوچھتے ہیں، حقیقت حال سامنے رکھتے ہیں، سچائی کو عوام تک لے جاتے ہیں، ان سے نریندر مودی کیوں گھبراتے ہیں۔
پریس کانفرنس میں طنزیہ انداز اختیار کرتے ہوئے سپریا شرینیت نے کہا کہ نریندر مودی اُن لوگوں کو انٹرویو دیتے ہیں جو سوال کرتے ہیں "آپ تھکتے کیوں نہیں، آپ کوئی ٹانک پیتے ہیں کیا، آپ جیب میں بٹوا رکھتے ہیں کیا"۔ کانگریس لیڈر نے سوال اٹھایا کہ نریندر مودی اور انتظامیہ کو کس بات کا خوف تھا، کیا وہ اس لئے خوفزدہ تھے کہ جو چینی مل کے مزدور مظاہرہ کر رہے تھے، صحافی ان کی سچائی سامنے رکھ دیتے تو ماحول بدل جاتا، کیا جمہوریت میں سوال نہیں پوچھے جائیں گے، کیا انتظامیہ طے کرے گا کہ میڈیا کہاں نظر آئے گا اور کہاں نہیں، وہ آگے کہتی ہیں کہ جمہوریت میں میڈیا کو چوتھا ستون کہا گیا ہے، جس کے ہاتھ میں اقتدار ہے، طاقت ہے، ریسورس ہے، ان سے سوال پوچھنے کا کام میڈیا کا ہے۔
انہون نے کہا "میں کہنا چاہتی ہوں کہ کانگریس پارٹی ہمیشہ بے خوف صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے، ان کی حمایت کرے گی، آپ کے سوال پوچھنے کے حق کو بلند کرے گی"۔ بہار کے موجودہ حالات اور نوجوانوں کے تاریک مستقبل کا ذکر بھی سپریا شرینیت نے پریس کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بہار میں نہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور نہ ہی ملازمتیں بن رہی ہیں، نوجوانوں کا مستقبل بحران میں ہے کیونکہ ڈگریاں فروخت ہو رہی ہیں۔ بی اے کی ڈگری 70 ہزار سے ایک لاکھ روپے، نرسنگ کی ڈگری 3.5 لاکھ سے 4 لاکھ روپے، پیرامیڈیکل کی ڈگر 25 ہزار روپے، ٹیکنیشین کی ڈگری 30 ہزار روپے، بی فارما کی ڈگری 3.5 لاکھ روپے، بی ایڈ کی ڈگری 1.5 لاکھ روپے سے 2 لاکھ روپے میں بیچی جا رہی ہے۔