تل ابیب میں ہزاروں اسرائیلیوں کا مظاہرہ، صدر ٹرمپ سے غزہ جنگ ختم کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, September 2025 GMT
تل ابیب میں ہزاروں اسرائیلیوں کا مظاہرہ، صدر ٹرمپ سے غزہ جنگ ختم کرنے کا مطالبہ WhatsAppFacebookTwitter 0 7 September, 2025 سب نیوز
اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں ہزاروں اسرائیلی شہریوں نے ایک بڑے مظاہرے میں شرکت کی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس احتجاج کے دوران مظاہرین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی جنگ کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کریں اور یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنائیں۔
تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر کے باہر کا علاقہ مظاہرین سے بھرا ہوا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں اسرائیلی جھنڈے اور یرغمال افراد کی تصاویر والے پلے کارڈز تھے۔
ایک بینر پر درج تھا ’غزہ کی جنگ جاری ہے، ٹرمپ کی میراث بکھر رہی ہے‘ جبکہ ایک اور بینر پر لکھا تھا ’صدر ٹرمپ! یرغمال افراد کو فوراً بچائیں!‘
تل ابیب کے رہائشی بوعز نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ واحد عالمی رہنما ہیں جو وزیراعظم نیتن یاہو پر اثرانداز ہو سکتے ہیں اور انہیں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔‘
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی پالیسیوں پر عوامی مایوسی بڑھ رہی ہے بالخصوص ان کے اس فیصلے پر جس کے تحت فوج کو غزہ شہر پر حملے کا حکم دیا گیا ہے جہاں ممکنہ طور پر یرغمالی موجود ہیں۔
یرغمال افراد کے اہل خانہ اور ان کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ یہ کارروائی ان کے پیاروں کی جان کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
ایک شہری اورنا نیوٹرا کے بیٹے عمر کو سات اکتوبر 2023 کو قتل کیا گیا اور اس کی لاش اب بھی غزہ میں عسکریت پسندوں کے قبضے میں ہے۔ انہوں نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ امریکہ فریقین پر دباؤ ڈالے گا تاکہ ایک جامع معاہدہ ہو سکے جو ہمارے بچوں کو واپس گھر لانے کا سبب بنے۔‘
تل ابیب میں ہر ہفتے مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں عوام حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کرے تاکہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے۔
اس حالیہ مظاہرے کے منتظمین کے مطابق ہفتہ کی شب کے مظاہرے میں دسیوں ہزار افراد شریک ہوئے جبکہ یروشلم میں بھی ایک بڑا مظاہرہ منعقد ہوا۔
اس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران غزہ کی جنگ کے جلد خاتمے کا وعدہ کیا تھا تاہم اپنی دوسری مدتِ صدارت کے آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود کوئی واضح حل سامنے نہیں آیا۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ حماس کو شکست دینے کے لیے غزہ پر قبضہ
جمعے کو امریکی صدر نے کہا کہ واشنگٹن حماس کے ساتھ ’انتہائی گہرے‘ مذاکرات میں مصروف ہے۔
ادھر اسرائیلی افواج نے غزہ شہر کے مضافات پر شدید حملے کیے ہیں جہاں ایک عالمی ادارے کے مطابق لاکھوں فلسطینی قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسرائیلی حکام نے غزہ میں بھوک کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے تاہم قحط کی تردید کی ہے۔ ہفتہ کو فوج نے شہریوں کو غزہ شہر چھوڑ کر جنوبی علاقوں کی طرف منتقل ہونے کی ہدایت دی۔
واضح رہے کہ غزہ شہر جو جنگ سے قبل تقریباً ایک ملین افراد کا مسکن تھا، اب بھی لاکھوں فلسطینیوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔
دوسری جانب حماس نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ اگر اسرائیل جنگ ختم کرنے اور غزہ سے اپنی افواج نکالنے پر رضامند ہوا تو وہ تمام یرغمال افراد کو رہا کر دیں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ شہر حماس کی مضبوط پناہ گاہ ہے، اس پر قبضہ اس گروہ کو شکست دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبررواں سال کا دوسرا مکمل چاند گرہن آج رات ہوگا غزہ میں بدترین اسرائیلی مظالم جاری، ہرگھنٹے ایک بچہ شہید ہونے کا انکشاف قوم اپنے شہداء اور غازیوں کو سلام پیش کرتی ہے، صدر مملکت کا یوم فضائیہ پر پیغام نیلسن منڈیلا کے پوتے منڈیلا منڈیلا کا غزہ جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا میں شمولیت کا اعلان دشمن یاد رکھے اگلی بار اسکور 60 صفر ہوگا، ایئر وائس مارشل شہریار خان امریکی صدر کا محکمہ دفاع کا نام بدل کر ’محکمہ جنگ‘ رکھنے کا اعلان اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو سخت اقدامات کیے جائیں گے، ٹرمپ کی حماس کو وارننگCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: تل ابیب میں
پڑھیں:
نیتن یاہو سے مارکو روبیو کا تجدید عہد
اسلام ٹائمز: مائیکل کرولی مزید لکھتے ہیں: "حماس کے بارے میں مارکو روبیو کا موقف دراصل نیتن یاہو کے موقف کو دوبارہ بیان کرنا تھا جس میں حماس کے مکمل خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ روبیو نے اپنے بیان میں صرف اتنا کہا کہ صدر چاہتے ہیں یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جائے۔" نضال المراکشی اور سائیمن لوئس نے پیر کے دن رویٹرز میں اپنی رپورٹ میں لکھا: "اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ شہر پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے اس شہر میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر کو حماس کا آخری مورچہ قرار دے کر اس پر فوجی جارحیت شدید کر دی ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں شدت نے جنگ بندی سے متعلق قطر مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔" تحریر: علی احمدی
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایسے وقت مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا جب قطر کے دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس جاری تھا۔ اس کا خیال ہے کہ غزہ پر صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توجہ مستقبل پر مرکوز کرنی چاہیے۔ دوسری طرف صیہونی فوج نے غزہ پر جارحیت کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے اور غزہ شہر کے رہائشی ٹاورز یکے بعد از دیگرے اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر مٹی کا ڈھیر بنتے جا رہے ہیں۔ فلسطینی حکام نے اعلان کیا ہے کہ صیہونی فوج نے اب تک غزہ شہر میں کم از کم 30 رہائشی ٹاورز کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہری بے گھر ہو گئے ہیں۔ ایسے وقت امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کا دو روزہ دورہ کیا اور غزہ پر صیہونی جارحیت کی حمایت کی۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا لہذا ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اس نے کہا: "میں نے اسرائیلی حکام سے مستقبل کے بارے میں بات چیت کی ہے۔" مارکو روبیو نے دیوار ندبہ کی زیارت بھی کی اور امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کے ہمیشگی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے بھی زور دیا۔ معروف تجزیہ کار مائیکل کرولی نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ مارکو روبیو نے نیتن یاہو سے ملاقات میں کہا کہ غزہ جنگ کے بارے میں سفارتی معاہدے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریات سے مکمل طور پر تضاد رکھتا ہے۔ ٹرمپ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ "بہت جلد" غزہ میں جنگ بندی کا راہ حل حاصل ہو جائے گا۔
مائیکل کرولی مزید لکھتے ہیں: "حماس کے بارے میں مارکو روبیو کا موقف دراصل نیتن یاہو کے موقف کو دوبارہ بیان کرنا تھا جس میں حماس کے مکمل خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ روبیو نے اپنے بیان میں صرف اتنا کہا کہ صدر چاہتے ہیں یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جائے۔" نضال المراکشی اور سائیمن لوئس نے پیر کے دن رویٹرز میں اپنی رپورٹ میں لکھا: "اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ شہر پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے اس شہر میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر کو حماس کا آخری مورچہ قرار دے کر اس پر فوجی جارحیت شدید کر دی ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں شدت نے جنگ بندی سے متعلق قطر مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔"
مغربی ایشیا میں فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے انروا کے جنرل کمشنر فلپ لازارینی نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا: "غزہ میں پانی کا نظام 50 فیصد کم سطح پر کام کر رہا ہے اور گذشتہ چار دنوں میں غزہ شہر میں انروا کی 10 عمارتیں اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنی ہیں۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے اس نے غزہ شہر میں پانچ فضائی حملے انجام دیے ہیں جن میں 500 سے زیادہ جگہیں نشانہ بنائی گئی ہیں۔ اس کے بقول ان جگہوں پر ممکنہ طور پر حماس کے اسنائپر تعینات تھے جبکہ کچھ عمارتیں حماس کی سرنگوں کے دروازوں پر بنائی گئی تھیں اور کچھ میں حماس کے اسلحہ کے ذخائر تھے۔" ابراہیم دہمان، تیم لستر اور چند دیگر رپورٹرز نے سی این این پر اپنی رپورٹس میں کہا: "صیہونی فوج نے تازہ ترین حملوں میں غزہ شہر میں کئی رہائشی ٹاورز کو تباہ کر دیا ہے۔"
آگاہ ذرائع کے مطابق کل اسرائیلی وزیر خارجہ، وزیر جنگ، انٹیلی جنس سربراہان اور اعلی سطحی فوجی کمانڈرز کا ایک اہم اجلاس ہو گا جس میں زندہ بچ جانے والے اسرائیلی یرغمالیوں کی صورتحال اور غزہ شہر پر زمینی جارحیت کا جائزہ لیا جائے گا۔ دو اعلی سطحی اسرائیلی عہدیداروں نے سی این این کو بتایا کہ غزہ شہر پر زمینی حملہ بہت قریب ہے جبکہ ایک عہدیدار نے کہا کہ ممکن ہے یہ حملہ کل سے شروع ہو گیا ہو۔ صیہونی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف ایال ضمیر نے نیتن یاہو کو اطلاع دی ہے کہ غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کے لیے آپریشن کو چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا اور حتی مکمل فوجی قبضہ ہو جانے کے بعد بھی حماس کو نہ تو فوجی اور نہ ہی سیاسی لحاظ سے شکست نہیں دی جا سکے گی۔
اس بارے میں فلپ لازارینی نے کہا: "اسرائیل کی جانب سے شدید حملے شروع ہو جانے کے بعد غزہ میں کوئی جگہ محفوظ باقی نہیں رہی اور کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ کل تک غزہ شہر کے کئی رہائشی ٹاورز جیسے المہنا ٹاور، غزہ اسلامک یونیورسٹی اور الجندی المجہول ٹاور اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر تباہ ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے ان حملوں کے لیے یہ بہانہ پیش کیا ہے کہ حماس ان عمارتوں کو اپنے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے اور وہاں سے اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اصل مقصد فلسطینیوں کو جبری طور پر وہاں سے نقل مکانی کروانا ہے اور انہیں جنوب کی جانب دھکیلنا ہے تاکہ غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کا زمینہ فراہم ہو سکے۔" یاد رہے فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس اب تک اس اسرائیلی دعوے کی تردید کر چکی ہے کہ غزہ شہر میں رہائشی عمارتیں حماس کے زیر استعمال ہیں۔