Express News:
2025-09-18@00:10:30 GMT

سید محمد علی بن سید مرشد علی

اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT

لاہور ائرپورٹ کی طرف سے نوازشریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد کا جلوس آ رہا تھا۔ مال روڈ کے دونوں طرف لوگ استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ میں بھی یہ نظارہ دیکھنے پہنچ گیا۔

یونہی مٹر گشت کرتے چیئرنگ کراس کے قریب پہنچا، تو ہجوم میں اداکار محمد علی صاحب نظر آئے۔ اب معلوم نہیں کہ وہ بھی جلوس کے استقبال کے لیے کھڑے تھے، یا سڑک بند ہونے کی وجہ سے ان کو رکنا پڑا تھا ، مگر آج کوئی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا، کوئی آٹو گراف لینے کے لیے بے تاب نہیں تھا۔ کچھ دیر میں جلوس بھی آ پہنچا، تو اس میں شامل لوگوں میں سے کوئی ان کو پہچان کر ہاتھ ہلاتا، تو وہ بھی ہاتھ ہلا دیتے، مگر اس لمحے ان کے چہرے پر ہلکی سی، پھیکی سی مسکراہٹ پھیل جاتی تھی۔ اپنے بچپن کے ہیروکو اس طرح انجان لوگوں میں گھرا دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، کیا عروج اور شہرت کا مال یہی ہے؟

گجرات میں اگرچہ ہمارے گھر کے عین سامنے سڑک پر شہرکا مشہور ترین سینما تھا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس کے مقابل ہمارے ماموں کے جگری دوست کاکا صاحب کا ہوٹل تھا، اور کام سے واپسی کے بعد ماموں کا زیادہ تر وقت یہیںگزرتا تھا، ممکن ہی نہیں تھا کہ ان سے نظریں بچا کے فلم دیکھنے کے لیے سینما میں گھس سکیں۔ یوں، بچپن میں پی ٹی وی پر ہفتہ وار فیچر فلم دیکھ کر ہی فلم بینی کا شوق پورا کرنا پڑا۔

یہ محمد علی صاحب کے فلمی کریئرکا آخری دور تھا،ا ور اپنے شریفانہ کرداروں اور اداکاروں کی روایتی آلودگی سے پاک شہرت کے باعث وہ ہرچاردیواری کے اندرگھر کے فرد کے طرح جانے پہچانے جاتے تھے۔ عام آدمی کی زندگی ویسے بھی جذبوں سے عبارت ہوتی ہے، اور جذبات کی ترجمانی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ’’جج صاحب ! مجھے میری زندگی کے بارہ سال واپس لوٹا دو، مجھے میری جوانی لوٹا دو‘‘، یہ اور اس طرح کے کتنے ہی ان کے ڈائیلاگ زبان زد خاص و عام ہو چکے تھے۔ مگر، افسوس جب ہم نے سینما بینی شروع کی، تو محمد علی صاحب کا فلمی دور قصہ ماضی بن چکا تھا، بلکہ پاکستان میںفلمی صنعت بھی آخری سانسیں لے رہی تھی۔

محمد علی صاحب سے میری ملاقات ان کی رحلت سے کچھ سال پہلے سینئر صحافی پرویز حمید صاحب کی معرفت ہوئی۔ یہ گرمیوں کے دن تھے۔ ہم کوئنز روڈ دفتر سے تو وقت پر ہی چل پڑے، مگرگلبرگ مین مارکیٹ کے پاس پرویز حمید تیز رفتاری کے سبب اسکوٹر کا توازن برقرار نہ رکھ پائے۔ ہم کسی بڑے حادثہ تو سے بچ گئے، مگر اندرونی طور پر ہل کے رہ گئے۔ تاہم،کچھ دیر بعد اوسان بحال ہوئے، تو محمد علی صاحب کے گھر پہنچ ہی گئے۔ محمد علی صاحب کے دل کی طرح ان کا گھر اور ڈرائنگ روم بھی بڑے کشادہ تھے۔

زیبا بیگم پہلے سے ہماری منتظر تھیں۔ کچھ دیر میں اندرونی دروازے کی اور سے محمد علی صاحب کے بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی۔ وہ آئے تو وہی ان کا مخصوص گٹ اپ تھا، جس کے بغیر شاید ہی انھیں کسی نے دیکھا ہو، دھاری دار گہرا نیلا سوٹ، رعب دار چہرہ، فراخ پیشانی، آنکھوں پر بڑے فریم والی ان کی مخصوص عینک ۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ راستے میں ایک حادثہ کے باعث ہم تاخیر سے پہنچے ہیں، تو اس طرح تڑپ اٹھے، جیسے یہ حادثہ انھی کی وجہ سے پیش آیا ہو۔ دیر تک ہماری دلجوئی کرتے رہے۔

اس دوران پر تکلف چائے میز پر سج چکی تھی۔ یہseparate tea تھی، مگر ملازم چائے بنانے لگا، تومحمد علی صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے واپس جانے کو کہا، اور میز کے پاس آ کے خود چائے بنانے لگے، اور پھر خود ہی ہمیں چائے پیش کی۔ یہ عاجزی، فرو تنی، اور انکساری، ان کی وضعداری اور بہترین گھریلو تربیت کی عکاسی کر رہی تھی۔

اس گفتگو کے دوران محمد علی صاحب نے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں جو بتایا، اس کا مجھے اس سے قبل علم نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ ان کی پیدایش رام پور (اتر پردیش ) بھارت میںہوئی، جہاں سے ان کا خاندان نقل مکانی کرکے حیدرآباد منتقل ہو گیا۔ ان کے والد مولانا سید مرشد علی کو، جو امام مسجد بھی تھے، تصوف سے گہرا لگاو تھا۔ محمد علی چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ عمر بمشکل دو تین سال ہو گی کہ والدہ انتقال کر گئیں۔ والد نے مگر ان کی خاطر دوسری شادی نہ کی۔ مریدوںکے اصرار پر سید مرشد علی حیدر آباد سے ملتان آ گئے، تو ننھے محمد علی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ زندگی کے ابتدائی پندرہ سولہ سال اپنے والد کے ساتھ مسجد سے متصل حجرے میں گزارے،ملتان سے انٹر کرنے کے بعد ہی واپس حیدر آباد آئے۔

وہ ائرفورس میں جانا چاہتے تھے۔ تحریری امتحان بھی پاس کر لیا، مگر انٹرویو اور پریکٹیکل کے لیے کیمپ آفس پہنچنے کا کرایہ میسر نہ تھا۔ تنگدسی کے ہاتھوں یہ خواب بکھر گیا، ریڈیو حیدر آباد میں بطور ریڈیو آرٹسٹ نوکری شروع کردی۔ ’’میں نے زندگی میں بڑے مشکل دن دیکھے ہیں،‘‘ اور یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی،’’ قسمت آزمائی کے لیے حیدر آباد سے کراچی پہنچا۔ روزانہ بائیس میل پیدل سفرکرکے ریڈیو دفتر پہنچتا، محض یہ پوچھنے کے لیے کہ کسی ڈرامے میں کوئی کام مل سکتا ہے۔

ان دنوں ایک ڈرامے کا معاوضہ دس روپے تھا۔ جب کسی ڈرامے کا معاوضہ مل جاتا، تو اگلا ڈرامہ ملنے تک اس ڈر سے بس میں سفر نہیں کرتا تھا کہ یہ دس روپے ختم نہ ہوجائیں۔مگر ریڈیو پر زیڈ اے بخاری مجھ پر بڑے مہربان تھے۔ انھی کی وجہ سے فضلی صاحب نے مجھے اپنی فلم’ چراغ جلتا رہا‘ میں کاسٹ کیا، جس کے پریمیئرشو پر محترمہ فاطمہ جناح تشریف لائی تھیں‘‘۔

 مولانا مرشد علی،آپ کے فلموں میں کام کرنے پرخوش تو نہ ہوں گے؟ میرے یہ سوال کرنے کی دیر تھی کہ والد کے ذکر پر ان کی آنکھیں بھیگ گئیں، ’’شروع میں تو بہت پریشان ہوئے۔ ادھر ادھر سے لوگ بھی کہتے ’سید صاحب، آپ کا بیٹا کس راہ پر چل نکلا ہے‘۔ مجھے پتا چلا تو میں نے کہا، آپ فکر مند نہ ہوں، میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گا، جس سے آپ کے وقار یا تربیت پر حرف آئے۔ میں چھوٹا تھا، تو مجھ سے کہا کرتے، ’بیٹا، بغیرکسی مجبوری کے، شام کے بعد گھر سے باہر رہنا شرفاء کا شیوہ نہیں‘۔ اس کے بعد میری یہ عادت اتنی پختہ ہو گئی کہ بعد میں فلموں میں کام شروع کیا، تب بھی شام سے پہلے گھر پہنچ جاتا تھا۔ میرے دوست احباب بھی یہیں آجاتے تھے۔

اوپر ٹیرس پر محفل جمتی تھی، مگر ایک ایک کرکے سب چلے گئے، اور اب میں نے بھی ٹیرس پر جانا بند کر دیا ہے۔ دوستوںکے بغیر ٹیرس پر بیٹھنے سے بہت بے چینی ہوتی تھی۔ ‘‘ یہ کہہ کے محمد علی صاحب خاموش ہو گئے، بلکہ سب خاموش ہو گئے۔ زیبا بیگم کی آنکھیں بھی بر آئیں۔ ’’ ذرا ذرا سی بات پر افسردہ ہو جاتے ہیں‘‘، اور یہ کہتے ہوئے رومال سے اپنی آنکھیں پونچھنے لگیں۔

اس پر محمد علی صاحب نے کہا’’میں نے اپنی ابتدائی زندگی میں اتنے دکھ سہے ہیں، عبداللہ صاحب کہ میں اپنے ڈائریکٹروں سے کہتا تھا، ’بھیا، مجھے رونے کے لیے مصنوعی طریقوں کی ضرورت نہیں،، جب کوئی دکھی منظر آئے گا، میری آنکھوں سے خود بخود آنسو وں کی جھڑی لگ جائے گی‘۔ (اس ملاقات اور اس فلمی جوڑی سے جڑی کچھ اور یادوں کی تفصیلات پھر کبھی سہی۔)

آج پیچھے مڑ کے جھانکتا ہوں تو لگتا ہے، جیسے کوئی فلم دیکھ رہا ہوں۔ ابھی اس محل نما گھر کے اندر محمد علی صاحب میرے سامنے بیٹھے اس کے ٹیرس پر شبانہ محفلوں کے قصے سنا رہے ہیں۔ یہ منظر ’فیڈ اوٹ‘ ہوتا ہے، تو اسی گھر کا موجودہ ویران منظر ’فیڈ ان‘ ہوتا ہے، ایک سونی حویلی کا ہیولہ، جس کے پس منظر میں کوئی قدیم کتابوں سے یہ نوحہ پڑھ رہا ہے،’’وہ بستی آج کتنی اجاڑ نظر آتی ہے، وہ بستی جہاں خلقت ٹوٹتی تھی، آج اس کے پھاٹک سنسان پڑے ہیں، اس کا سہاگ لٹ گیا، وہ راتوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے، اس کے رخساروں پر آنسووں کی گنگا بہتی ہے، آج اس کے وہ رفیق کہاں ہیں، جو اس کے آنسو پونچھیں۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی پردہ گر جاتا ہے۔ حافظؔ نے کہا تھا ؎

مے بیاورکہ ننازد بہ گل ِ باغ ِجہان

ہر کہ غارت گری ِ باد ِخزانی دانستا1ھ

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: محمد علی صاحب کے مرشد علی ٹیرس پر کے لیے کے بعد کوئی ا

پڑھیں:

وزیراعظم کی   آج سعودی ولی عہدسے اہم ملاقات طے

وزیراعظم شہباز شریف آج (بدھ)سعودی عرب کے ایک روزہ دورے پرجائیں گے،وہ اس دورے میں سعودی ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان سے اہم ملاقات کریں گے اس ملاقات میں قطر پرا سرائیلی حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال اور عرب اسلامی ممالک کے سربراہان کی سربراہی کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں اور اعلامیہ سمیت دیگر اہم امور پر بات چیت کی جائے گی۔ذ رائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اس ملاقات میں امریکہ میں یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی مجوزہ ملاقات کے حوالے سے بھی مشاورت کریں گے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دورے میں وزیراعظم کےہمراہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ،وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ، وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی بھی شریک ہوں گے۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • مدینہ ائرپورٹ روڈ کا نام ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے موسوم
  • 78 ڈی ایس پیز کے تبادلے
  • ایشیا کپ ٹی ٹوینٹی ٹورنامنٹ؛ پاکستان متحدہ عرب امارات میچ کا ٹاس ہو گیا
  • سیلاب سے متاثرہ دربار صاحب کرتار پور کو صفائی کے بعد سکھ یاتریوں کے لیے کھول دیا گیا
  • بیرسٹر علی ظفر نے 17 سینیٹرز کے استعفے جمع کرادیے
  • استعفوں کا ڈھیر لگا دیا
  • وزیراعظم کی   آج سعودی ولی عہدسے اہم ملاقات طے
  • سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی
  • ایشیا کپ: یو اے ای نے عمان کو 42 رنز سے شکست دے دی
  • ایشیا کپ: یو اے ای کا عمان کو جیت کیلئے 173 رنز کا ہدف