ملک کیخلاف پروپیگنڈا کرنے والے فتنے کا مکمل خاتمہ کرنا ہمارا اولین فرض ہے، وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
ملک کیخلاف پروپیگنڈا کرنے والے فتنے کا مکمل خاتمہ کرنا ہمارا اولین فرض ہے، وزیراعظم WhatsAppFacebookTwitter 0 10 September, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم افواج پاکستان کی قربانیوں کی بدولت آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اداروں اور شہدا کی تضحیک کررہے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور ملک کیخلاف پروپیگنڈا کرنے والے فتنے کا مکمل خاتمہ کرنا ہمارا اولین فرض ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بہادر میجر عدنان اسلم بنوں میں دہشتگردوں کا مقابلہ کرتےہوئے شہید ہوئے، گزشتہ روز جی ایچ کیو میں ان کی نماز جنازہ میں کل ہم شریک ہوئے، سپہ سالار فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ نماز جنازہ کے دوران ہماری شہید کے خاندان کے افراد سے ملاقات ہوئی، ان کے والد نے کہا کہ میرے بیٹے نے شہادت دی ہے جس پر مجھے بہت فخر ہے، ان کے سسر بھی وہاں موجود تھے انہوں نے کہا کہ میرے داماد نے ہمارا سر فخر سے بلند کردیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ شہید کی بہنوں نے مجھے بتایا کہ ہم ایک بہت دلیر بھائی کی بہنیں ہیں، ہمارے بھائی نہیں عظیم راہ میں قربانی دی ہے اور ہم بھی اسی راہ میں قربانی دیں گے، یہ وہ جذبہ ہے جس کی ایک مثال میں نے یہاں پیش کی ہے،۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف میجر عدنان نہیں بلکہ کئی سپائی، لانس نائیک، میجر، کرنل سمیت دیگر نے اپنی قربانیوں سے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، وہ پاکستان کے دشمنوں سے لڑرہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ جو معرکہ ہوا جس میں میجر عدنان نے اپنی جان کی قربانی دی، جو توپ اور بندوق کے آگے کھڑا ہوتا ہے اس کی کیفیت کو کوئی نہیں جان سکتا اور اس کے نتیجے میں ہم نہ صرف اپنی افواج پاکستان کے شکرگزار ہیں بلکہ ان قربانیوں کی بدولت ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ملک کے اندر زہریلا پروپیگنڈا کررہے ہیں اور سوشل میڈیا پر شہدا کی قربانیوں اور اداروں کی تضحیک کررہے ہیں، اس کی جتنی سخت الفاظ میں مذمت کی جائے وہ ناکافی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی جذبہ ہے جو پاکستان کو خوارج سے نجات دلانے کے لیے ضروری ہے، وہ اپنے ماں باپ اور بچوں کو یہ بتاکر جاتے ہیں کہ ہم اپنے وطن کے دفاع کے لیے جارہے ہیں تو ان کی بیویوں اور بچوں کی کیفیت کو سمجھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا آج فرض اولین ہے کہ ہم اس ملک کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے فتنہ کا مکمل طور پر خاتمہ کریں، چاہے وہ ملک میں ہوں یا پھر سوشل میڈیا پر بیرون ملک بیٹھے آپریٹ کررہے ہیں، ان کی شناخت کریں، نفرت کارڈ ناقابل قبول ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسرائیلی حملے ریاستی دہشتگردی، بھرپور جواب دیں گے: قطری وزیراعظم کا اعلان پرتشدد مظاہرے، نیپال میں فوج نے مختلف علاقوں میں پوزیشن سنبھال لی ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس میں اہم پیشرفت خیبر پختونخوا حکومت نے کم سے کم اجرت 4 ہزار روپے بڑھا کر40 ہزار روپے مقرر کر دی اسٹیٹ بینک کے مالی امور میں 243 ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کا انکشاف حکومت کا صنعتکاروں کو نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر سے تحفظ دینے کا فیصلہ سی پیک فیز ٹو پاکستان اور چین کے تعاون کو نئی بلندیوں تک لے جانے کا نادر موقع ہے، عاطف اکرام شیخCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پروپیگنڈا کرنے والے کا مکمل
پڑھیں:
’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل ہے، انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکا واحد ملک ہو جو ایسا نہ کرے۔
ٹرمپ نے امریکی ٹی وی پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’شمالی کوریا تجربے کر رہا ہے، پاکستان تجربے کر رہا ہے، مگر وہ اس کے بارے میں آپ کو نہیں بتاتے‘، ان سے یہ سوال اُس وقت پوچھا گیا جب گفتگو کا موضوع ان کی حالیہ ہدایت بنی، جس کے مطابق انہوں نے پینٹاگون کو ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی محکمہ جنگ کو ہدایت دی تھی کہ وہ ’فوری طور پر‘ ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرے، اس اعلان کے بعد سے یہ الجھن پائی جا رہی ہے کہ آیا وہ 1992 کے بعد امریکا کے پہلے ایٹمی دھماکے کا حکم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جب انٹرویو میں ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہمارے پاس کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تخفیفِ اسلحہ کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، اور میں نے اس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سے بات بھی کی تھی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، روس کے پاس بھی بہت سے ہتھیار ہیں اور چین کے پاس بھی ہوں گے‘۔
جب میزبان نے سوال کیا کہ ’پھر ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‘ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’کیونکہ آپ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کام کیسے کرتے ہیں، روس نے اعلان کیا کہ وہ تجربہ کرے گا، شمالی کوریا مسلسل تجربے کر رہا ہے، دوسرے ممالک بھی کر رہے ہیں، ہم واحد ملک ہیں جو تجربے نہیں کرتا، میں نہیں چاہتا کہ ہم واحد ملک ہوں جو ایسا نہ کرے‘۔
میزبان نے نشاندہی کی کہ شمالی کوریا کے سوا کوئی ملک ایٹمی تجربے نہیں کر رہا، کیونکہ روس اور چین نے بالترتیب 1990 اور 1996 کے بعد سے کوئی تجربہ نہیں کیا،اس پر ٹرمپ نے کہا کہ ’روس اور چین بھی تجربے کرتے ہیں، بس آپ کو اس کا علم نہیں ہوتا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک کھلا معاشرہ ہیں، ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں، روس یا چین میں رپورٹرز نہیں ہیں جو ایسی چیزوں پر لکھ سکیں، ہم بات کرتے ہیں، کیونکہ آپ لوگ رپورٹ کرتے ہیں‘۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم تجربے کریں گے کیونکہ دوسرے ملک بھی کرتے ہیں، شمالی کوریا کرتا ہے، پاکستان کرتا ہے، مگر وہ اس بارے میں نہیں بتاتے، وہ زمین کے بہت نیچے تجربے کرتے ہیں جہاں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے، آپ صرف ایک ہلکی سی لرزش محسوس کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنا ہوگا، ورنہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں‘۔
ڈان نے اس معاملے پر امریکی صدر کے اس بیان کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ سے ردِعمل کے لیے رابطہ کیا ہے۔
انٹرویو کے دوران میزبان نے یہ بھی کہا کہ ماہرین کے مطابق امریکا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں۔
اس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میرے مطابق بھی ہمارے ہتھیار بہترین ہیں، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے انہیں اپنی 4 سالہ مدت کے دوران جدید بنایا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ کام کرنا پسند نہیں تھا کیونکہ ان کی تباہ کن صلاحیت ایسی ہے کہ اس کا تصور بھی خوفناک ہے، مگر اگر دوسرے ملکوں کے پاس ہوں گے تو ہمیں بھی رکھنے ہوں گے، اور جب ہمارے پاس ہوں گے تو ہمیں ان کا تجربہ بھی کرنا ہوگا، ورنہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں، ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے، مگر ہمیں تیار رہنا چاہیے‘