لنڈی کوتل میں مصنوعی اعضا کی مفت فراہمی، سینکڑوں افراد کے لیے نئی زندگی
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
لنڈی کوتل میں پہلی بار معذور افراد کے لیے مفت مصنوعی اعضا لگانے کا بندوبست کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ کامیابی سے چلنے پھرنے اور روزگار کے حصول کے قابل ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: معذوری کے باوجود ہمت نہ ہارنے والی ڈاکٹر انعم نجم کی دلچسپ کہانی
آئی سی آر سی اور بی پاس کے تعاون سے قائم اس سینٹر میں سینکڑوں مریضوں کو مصنوعی ہاتھ اور پاؤں لگائے جاتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں قائم اس سینٹر کے بقول اس عمل پر لاکھوں روپے کے اخراجات آتے ہیں لیکن مریضوں سے کوئی پیسہ وصول نہیں کیا جاتا۔
یاد رہے کہ پہلے یہ معذور افراد علاج کے لیے افغانستان کے شہر جلال آباد جاتے تھے لیکن اب ان کو لنڈی کوتل میں ہی یہ سہولت میسر ہو چکی ہے۔
مزید پڑھیے: معذور افراد کی مدد کرنے والا اسپیشل پرسن، سید احسان گیلانی
لنڈی کوتل اسپتال میں ان کے لیے قائم سینٹر کے انچارج ڈاکٹر امتیاز شاہ نے وی نیوز کو بتایا کہ اب یہ مریض خوش اور خرم دکھائی دیتے ہیں کیونکہ انہیں ہم نے چلنے پھرنے کے قابل بنا دیا ہے۔
مزید پڑھیں: بولتے پاؤں: کوئٹہ کے پینٹر علی گوہر، ہاتھوں سے معذور لیکن فنکاری سے بھرپور
انہوں نے کہا کہ اب وہ دوسروں کے سہارے کی بجائے خود چل پھر سکتے ہیں اور روزگار بھی کر سکتے ہیں۔
اب تک کتنے افراد مستفید ہوئے؟ڈاکٹر امتیاز شاہ نے بتایا کہ اب تک 300 سے زائد افراد کو مصنوعی اعضا لگائے جاچکے ہیں۔ ان افراد نے بم دھماکوں یا دیگر حادثات میں اپنے اعضا کھوئے تھے۔
ان کے بقول نئی زندگی ملنے پر مریض خوش و خرم دکھائی دیتے ہیں اور وہ حکومت پاکستان، آئی سی ار سی اور بی پاس کے مشکور ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سینکڑوں ذہنی معذور بچوں کے لیے ’چمبیلی‘ نام کا ادارہ کیسے کام کرتا ہے؟
اس حوالے سے مریضوں کا کہنا ہے کہ علاج بہت مہنگا تھا جس کی وجہ سے وہ مصنوعی اعضا لگوانے سے قاصر تھے لیکن پھر وہ سہولت مفت مل گئی جس کی وجہ سے وہ بیحد خوش ہیں۔ دیکھیے ویڈیو رپورٹ۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی سی آر سی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال لنڈی کوتل لنڈی کوتل لنڈی کوتل میں مفت اعضا مفت اعضا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: لنڈی کوتل مفت اعضا لنڈی کوتل میں کے لیے
پڑھیں:
مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماہرین کے مطابق ہم بغیر محسوس کیے مسلسل مائیکرو پلاسٹکس کا استعمال بھی کر رہے ہیں اور انہیں نگل بھی رہے ہیں۔ یہ باریک ذرات کھانے، پانی اور سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے رہتے ہیں جبکہ عام استعمال کی متعدد مصنوعات میں بھی ان چھوٹے ذرات کی موجودگی پائی گئی ہے۔
مائیکرو پلاسٹک اصل میں وہ پلاسٹک ہے جو وقت کے ساتھ ٹوٹ کر اتنے چھوٹے ٹکڑوں میں بدل جاتا ہے کہ وہ آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ کراچی یونیورسٹی کے پروگرام باخبر سویرا میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد نے بتایا کہ ہماری روزمرہ استعمال کی بے شمار چیزوں میں یہ پلاسٹک شامل ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کی معلومات نہیں دی جاتیں۔ خواتین کے استعمال میں آنے والے فیس واش میں استعمال ہونے والے ذرات بھی دراصل مائیکرو پلاسٹکس ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق ہر ہفتے انسان تقریباً پانچ گرام تک پلاسٹک اپنے جسم میں لے جاتا ہے جو ایک کریڈٹ کارڈ کے وزن کے برابر ہے۔ جو پانی ہم پیتے ہیں، جو غذا ہم کھاتے ہیں اور جو ہوا ہم سانس کے ذریعے اپنے جسم میں لے جاتے ہیں، ان سب میں مائیکرو پلاسٹکس شامل ہیں۔ مختلف سائنسی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب زیادہ تر بوتل بند پانی میں بھی پلاسٹک کے باریک ذرات موجود ہیں جبکہ ان میں پوشیدہ کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جو امراض قلب، ہارمون عدم توازن اور حتیٰ کہ کینسر کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف پلاسٹک ہی نہیں بلکہ ڈسپوزیبل مصنوعات جیسے ماسک، سرنجز، دستانے اور سرجیکل آلات بھی صحت کو متاثر کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک بار استعمال کے بعد پلاسٹک کچرے میں اضافہ کرتے ہیں اور بالآخر ماحول میں ہی واپس شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سائنس دان اب یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ باریک ذرات انسانی خون اور پھیپھڑوں تک کیسے پہنچتے ہیں اور ان سے بچاؤ کے مؤثر طریقے کیا ہو سکتے ہیں۔