قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور WhatsAppFacebookTwitter 0 13 September, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
جدید دنیا میں، جہاں بداعتمادی اور دشمنی اکثر مفاہمت کے امکانات کو دبا دیتی ہیں، قطر نے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے لیے امن کی فاختہ کی حیثیت قائم کر لی ہے۔ جغرافیائی طور پر ایک چھوٹی ریاست ہونے کے باوجود، عالمی سفارت کاری میں اس کا اثر و رسوخ اس کے حجم سے کہیں بڑھ کر ہے۔ حکمتِ عملی پر مبنی غیرجانبداری، بامقصد ریاستی حکمتِ عملی اور وہاں قدم رکھنے کی جرا?ت جہاں بڑے ممالک ہچکچاتے ہیں—
ان سب کے امتزاج نے قطر کو اُن تنازعات میں ثالث کے طور پر ابھارا ہے جنہوں نے خطوں کو اپنی لپیٹ میں لیا اور عالمی برادری کے صبر کا امتحان لیا۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی دارالحکومت جو مکالمے اور مفاہمت کی علامت ہے—دوحہ—اسرائیلی جارحیت کی زد میں آیا، اور اس شہر پر سیاہ سایہ ڈال گیا جس نے بارہا امن کی نازک امیدوں کی میزبانی کی۔
قطر کے سفارتی کردار کی بنیاد اس کی اس تیاری پر ہے کہ وہ دوست یا دشمن، سب سے بات کرے اور اپنے وسائل کو تباہی نہیں بلکہ صلح و مفاہمت کے لیے بروئے کار لائے۔ 2008 میں جب لبنان خانہ جنگی کے دہانے پر تھا، قطر نے دوحہ میں کڑوے مخالفین کو اکٹھا کیا اور ایک معاہدہ کرایا جس نے ملک کو انتشار میں گرنے سے بچا لیا۔ دوحہ معاہدے نے حزب اللہ کو حکومت میں نمائندگی دی اور بیروت کی سڑکوں پر سکون قائم کیا۔ یہ ایک نادر لمحہ تھا جب واشنگٹن اور تہران—جو عام طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں—ایک ہی نتیجے پر خوش ہوئے اور قطر کی ثالثی کی صلاحیت کو تسلیم کیا۔
اسی طرح اسرائیل اور حماس کے طویل تنازع میں قطر ہمیشہ ایک اہم ثالث رہا ہے۔ جب دنیا کی توجہ غزہ سے ہٹ گئی، قطر نے آگے بڑھ کر نہ صرف مالی امداد فراہم کی تاکہ اسپتال، بجلی اور بنیادی ڈھانچہ قائم رہ سکے بلکہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے میں بھی کردار ادا کیا۔ 2012 میں امیر حمد بن خلیفہ الثانی نے غزہ کا دورہ کیا، جو کسی سربراہِ مملکت کا بے مثال اقدام تھا، اور دوحہ کے انسانی ہمدردی کے عزم کا اعلان تھا۔ 2023 کی ہولناک اسرائیل-حماس جنگ میں بھی قطر مرکزی حیثیت میں رہا اور جنوری 2025 کی جنگ بندی کے مذاکرات کو ممکن بنایا۔ قیدیوں کا تبادلہ، انسانی راہداریوں کا قیام اور آئندہ بات چیت کا فریم ورک—سب دوحہ کی صبر آزما سفارت کاری کا ثمر تھے۔ افسوس کہ اس کردار کا احترام کرنے کے بجائے اسرائیل نے دوحہ ہی کو نشانہ بنایا، وہی شہر جو امن کی تلاش میں بارہا مذاکرات کے دروازے کھولتا رہا۔
قطر کی امن پسندی صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہی۔ سوڈان اور دارفور میں 2010 کی دہائی میں قطر نے ثالثی کا کلیدی کردار ادا کیا۔ افغانستان میں، امریکا اور طالبان کے مذاکرات کے لیے قطر نے غیرجانبدار مقام فراہم کیا، جو بالآخر 2020 کے دوحہ معاہدے پر منتج ہوا۔ یہ معاہدہ، اگرچہ متنازع تھا، مگر امریکی افواج کے انخلا کا راستہ متعین کر گیا اور اس اعتماد کو اجاگر کیا جو قطر پر مذاکرات کی میزبانی کے لیے کیا گیا۔
یمنی تنازع کے ابتدائی مراحل میں بھی قطر نے کردار ادا کیا، اگرچہ 2017 کے سفارتی بحران نے اس کی سرگرمیوں کو وقتی طور پر محدود کر دیا۔ اُس بحران میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر پر پابندیاں لگائیں، جو اس کی مزاحمت کا امتحان تھا۔ مگر قطر نے اپنی آزاد پالیسی اپنائی، ترکی اور ایران کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے اور 2021 تک مصالحت تک پہنچ گیا۔ حیران کن طور پر، پیچھے ہٹنے کے بجائے دوحہ اس بحران سے مزید پرعزم ہو کر نکلا کہ اپنی آزاد خارجہ پالیسی اور ثالثی کے کردار کو جاری رکھے۔
شام میں، جہاں جنگ نے شہروں کو کھنڈر بنا دیا، قطر نے 2017 میں مضایا جیسے محصور قصبوں سے ہزاروں شہریوں کے انخلا کا انتظام کیا۔ لیبیا اور قرنِ افریقہ میں بھی قطر نے تنازعات کو کم کرنے کی کوشش کی، اگرچہ کبھی کبھار خلیجی ریاستوں کے مفادات سے ٹکرا گیا، لیکن ہمیشہ اس یقین کے ساتھ کہ مکالمہ تصادم سے بہتر ہے۔ حتیٰ کہ اریٹیریا اور جبوتی کے سرحدی جھگڑے جیسے نسبتاً معمولی تنازع میں بھی قطر نے ثالثی کی، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ اس کی توجہ کے لیے کوئی تنازع چھوٹا نہیں۔
یہ سلسلہ قطر کو تعریف اور تنقید دونوں لے کر آیا۔ مگر کوئی منصف مزاج مبصر یہ نہیں جھٹلا سکتا کہ قطر کی مداخلتوں نے تکالیف کو کم کیا، جنگ بندیوں کو ممکن بنایا اور کم از کم لمحہ بھر کے لیے ہی سہی جنگ کے شور کو تھم جانے پر مجبور کیا۔ اس کی انسانی ہمدردی پر مبنی امداد، مکالمے پر اصرار اور سفارتی لچک نے اسے ایسے مخالفین کے درمیان معتبر ثالث بنایا جو ورنہ ایک جگہ بیٹھنے پر تیار نہ ہوتے۔
چنانچہ جب اسرائیلی حملے دوحہ پر ہوئے، تو یہ صرف ایک دارالحکومت پر حملہ نہ تھا بلکہ مفاہمت اور ثالثی کی علامت پر حملہ تھا۔ یہ عالمی برادری کے اُس اعتماد پر ضرب تھی جو قطر کو امن کے غیرجانبدار مقام کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ عمل سفارت کاری کی قدروں کے بھی خلاف تھا اور اس نازک مگر ضروری اُمید کے بھی کہ مشرقِ وسطیٰ کے تاریک ترین تنازعات میں بھی ایک ایسی جگہ موجود ہے جہاں مخالفین—چاہے بادل نخواستہ ہی سہی—بات کر سکیں۔
قطر کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ چھوٹی ریاستیں بھی بصیرت اور ثابت قدمی کے ذریعے امن کے لیے غیرمعمولی اثر ڈال سکتی ہیں۔ اس کا سب کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کا عزم—چاہے وہ ایران ہو، امریکا، حماس یا حزب اللہ—بحران کے وقت قیمتی ثابت ہوا۔ دوحہ نے کبھی غلبے کی نہیں بلکہ سمجھوتے کی کوشش کی؛ طاقت کی نہیں بلکہ امن کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج قطر کو صرف سہولت کار نہیں بلکہ امن کے اُس فاختہ کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے جس کے پروں نے براعظموں تک پھیلے تنازعات کو ڈھانپنے کی کوشش کی ہے۔
دوحہ پر حملہ اس کردار کو کمزور نہیں بلکہ عالمی برادری کے اس عزم کو مزید مضبوط کرنا چاہیے کہ ایسے مکالماتی مراکز کو تحفظ دیا جائے۔ ورنہ دنیا اُس مستقبل کی طرف بڑھ سکتی ہے جہاں جنگ مکالمے کو خاموش کر دے اور خون عقل و دلیل کی آواز کو دبا دے۔ قطر نے دکھایا ہے کہ امن، چاہے کتنا ہی نازک کیوں نہ ہو، ممکن ہے۔ اس نے تاریخ میں اپنی جگہ فتوحات سے نہیں بلکہ مفاہمت سے بنائی ہے، جارحیت سے نہیں بلکہ تفہیم سے۔ اور ایسے وقت میں جب انسانیت صلح کے لیے تڑپ رہی ہے، قطر کا کردار امن کی فاختہ کے طور پر پہلے سے کہیں زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراگر میئر بنا تو نیتن یاہو کی نیویارک آمد پر گرفتاری کا حکم دوں گا، زہران ممدانی وہ گھر جو قائد نے بنایا پاکستان: عالمی افق پر ابھرتی طاقت پاکستانی فضائیہ: فخرِ ملت، فخرِ وطن انقلابِ قرض سے آزادی: خودمختاری کے نئے باب کی جانب یوم دفاع حجاب: پاکستان کی روایت، ترکیہ کا سفرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
نومبر، انقلاب کا مہینہ
نومبر کی شامیں جب دھیرے دھیرے اُترتی ہیں تو یورپ کے شمال میں سرد ہوا کے جھونکے صرف پتوں کو ہی نہیں، تاریخ کے اوراق کو بھی ہلا دیتے ہیں۔ 1917 نومبر میں جب پیٹرو گراڈ کی سڑکوں پر مزدوروں، کسانوں سپاہیوں اور طلبہ کے نعرے گونج رہے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی تاریخ ایک نئے موڑ پر آ کر ٹھہری۔ روس کے عوام نے صدیوں پر محیط ظلم جاگیرداری اور سامراجی جکڑ سے نکلنے کے لیے ہاتھوں میں سرخ پرچم تھام لیا۔ دنیا نے پہلی بار دیکھا کہ اقتدار محلات سے نکل کر کارخانوں اورکھیتوں کے بیٹے، بیٹیوں کے ہاتھ میں آیا۔
اکتوبر انقلاب جو ہمارے کیلنڈر میں نومبر میں آیا، صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی، یہ انسان کی برابری، آزادی اور عزتِ نفس کے خواب کی تعبیر تھی۔
لینن اور ان کے رفقا نے جو راہ دکھائی وہ صرف روس کے لیے نہیں تھی۔ وہ ایک ایسی چنگاری تھی جس نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا تک کے محکوم دلوں میں اُمیدکے چراغ روشن کیے۔
اس انقلاب نے بتایا کہ تاریخ کے پہیے کو صرف طاقتور نہیں گھماتے، کبھی کبھی محروم مزدور اور مفلس بھی اُٹھ کر دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ اکتوبر انقلاب نے دنیا کو یہ سکھایا کہ کوئی سماج اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اس کے مزدور اورکسان زنجیروں میں جکڑے ہوں۔ مگر ہر انقلاب کے بعد وقت کی گرد بیٹھتی ہے۔
خوابوں کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور نئے تضادات جنم لیتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ یہ سوال بھی ابھرا کہ کیا انقلاب محض ایک رومانی تصور تھا یا تاریخ کا ایسا موڑ جس نے انسان کو وقتی طور پر یقین دلایا کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے؟
نومبرکی یاد ہمیں یہ سوچنے پر مجبورکرتی ہے کہ انقلاب محض بندوقوں یا قلعوں کی فتح نہیں ہوتا بلکہ ذہنوں اور دلوں کی آزادی کا نام ہے۔ وہ سماج جو اپنے فکری اور اخلاقی سانچوں کو بدلنے سے گریزکرے، وہ انقلاب کے قابل نہیں ہوتا۔
روس نے یہ جرات کی اس نے بتوں کو توڑا، بادشاہت کو ختم کیا اور محنت کش انسان کو تاریخ کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ مگر جب ہم اس روشنی کو اپنے وطن پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو دل کسی اداس شام کی طرح بھاری ہو جاتا ہے۔
یہاں مزدور اب بھی اپنی مزدوری کے لیے ترستا ہے، کسان اب بھی زمین کا بوجھ اُٹھائے فاقہ کرتا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی انقلاب کے نعرے گونجے۔ ہماری زمین پر جنم لینے والی ترقی پسند تحریکیں چاہے، وہ مزدور تحریک ہو، کسان کمیٹی ہو یا طلبہ کی جدوجہد سب کسی نہ کسی موڑ پر ریاستی جبر، نظریاتی تقسیم اور مایوسی کا شکار ہوئیں۔
ایک زمانہ تھا جب کراچی کی فیکٹریوں سے لے کر پنجاب کے کھیتوں تک سرخ جھنڈا ہوا میں لہرا کرکہتا تھا کہ ’’ دنیا بھر کے مزدور ایک ہو جاؤ‘‘ مگرآج وہ آواز مدھم ہے، نہ وہ جلسے رہے نہ وہ عزم، شاید اس لیے کہ ہماری سیاست نے نظریے کو نکال پھینکا اور موقع پرستی کو گلے لگا لیا۔
جو لوگ مزدوروں کے حق کی بات کرتے تھے، وہ خود سرمایہ داروں کے دربار میں جا بیٹھے، جو قلم عوام کی جدوجہد کا ہتھیار تھا، وہ اب اشتہار کا آلہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں انقلابی جدوجہد کی کمزوری دراصل ہمارے اجتماعی احساسِ زیاں کی علامت ہے۔
ہم نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں، وہ نسلیں جو کبھی لینن چی گویرا یا فیض کے الفاظ سے آگ پاتی تھیں، آج کسی موبائل اسکرین پر عارضی غم اور مصنوعی خوشی کی پناہ ڈھونڈتی ہیں۔ یہ وہ خلا ہے جو صرف فکر سے یقین سے اور اجتماعی جدوجہد سے پُر ہو سکتا ہے۔
نومبرکا مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انقلاب ایک دن میں نہیں آتا۔ وہ برسوں کے صبر، قربانی اور شعور سے جنم لیتا ہے۔ روس کے مزدور اگر محض اپنی بھوک کے خلاف اُٹھتے تو شاید تاریخ نہ بدلتی۔ مگر انھوں نے صرف روٹی نہیں، عزت، علم اور انصاف کا مطالبہ کیا۔
یہی مطالبہ آج بھی زندہ ہے ماسکو سے کراچی تک انسان کے دل میں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ انقلاب کا خواب اگر دھندلا بھی جائے تو اس کی چنگاری باقی رہتی ہے۔ وہ چنگاری جو کسی طالب علم کے ذہن میں سوال بن کر جنم لیتی ہے، کسی مزدورکے نعرے میں صدا بن کر گونجتی ہے یا کسی ادیب کے قلم میں احتجاج بن کر ڈھلتی ہے، یہی چنگاری آنے والے کل کی روشنی ہے۔
یہ مہینہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہر وہ سماج جو ظلم اور نابرابری کو معمول سمجھ لے وہ اپنے زوال کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے، اگر روس کے عوام اپنی خاموشی توڑ سکتے تھے تو ہم کیوں نہیں؟ ہم کیوں اپنی تقدیر کے فیصلے چند طاقتور ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں؟
شاید اس لیے کہ ہم نے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا زندگی میں نہیں جیا۔وقت گزر چکا مگر تاریخ کے اوراق کبھی بند نہیں ہوتے۔ شاید کسی اور نومبر میں کسی اور زمین پر نئی نسل پھر سے وہی سرخ پرچم اُٹھائے اورکہے ہم اس دنیا کو بدلیں گے اور جب وہ دن آئے گا تو ماسکو سے کراچی تک ہر انقلابی روح ایک لمحے کے لیے مسکرائے گی۔
آج کے عہد میں جب دنیا ایک بار پھر معاشی ناہمواری، ماحولیاتی تباہی اور جنگوں کی لپیٹ میں ہے تو اکتوبر انقلاب کی گونج نئے سوال اٹھاتی ہے۔ کیا انسان پھر سے وہی جرات کرسکتا ہے کیا طاقتورکے خلاف کھڑے ہوکر نظام کو بدلنے کا خواب دیکھا جاسکتا ہے؟
شاید یہی سوال نومبر کی ہوا میں بسا ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری کے بت پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں مگر ساتھ ہی دنیا کے ہر گوشے میں کوئی نہ کوئی مزدور طالب علم یا ادیب اب بھی انصاف اور برابری کے خواب کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
وہ شاید تھکے ہوئے ہیں مگر ہارے نہیں۔ شاید آنے والے برسوں میں یہ بکھری ہوئی چنگاریاں مل کر پھر سے ایک روشنی بن جائے۔