Daily Sub News:
2025-09-17@22:44:04 GMT

قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور

اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT

قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور

قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور WhatsAppFacebookTwitter 0 13 September, 2025 سب نیوز


تحریر: محمد محسن اقبال


جدید دنیا میں، جہاں بداعتمادی اور دشمنی اکثر مفاہمت کے امکانات کو دبا دیتی ہیں، قطر نے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے لیے امن کی فاختہ کی حیثیت قائم کر لی ہے۔ جغرافیائی طور پر ایک چھوٹی ریاست ہونے کے باوجود، عالمی سفارت کاری میں اس کا اثر و رسوخ اس کے حجم سے کہیں بڑھ کر ہے۔ حکمتِ عملی پر مبنی غیرجانبداری، بامقصد ریاستی حکمتِ عملی اور وہاں قدم رکھنے کی جرا?ت جہاں بڑے ممالک ہچکچاتے ہیں—

ان سب کے امتزاج نے قطر کو اُن تنازعات میں ثالث کے طور پر ابھارا ہے جنہوں نے خطوں کو اپنی لپیٹ میں لیا اور عالمی برادری کے صبر کا امتحان لیا۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی دارالحکومت جو مکالمے اور مفاہمت کی علامت ہے—دوحہ—اسرائیلی جارحیت کی زد میں آیا، اور اس شہر پر سیاہ سایہ ڈال گیا جس نے بارہا امن کی نازک امیدوں کی میزبانی کی۔


قطر کے سفارتی کردار کی بنیاد اس کی اس تیاری پر ہے کہ وہ دوست یا دشمن، سب سے بات کرے اور اپنے وسائل کو تباہی نہیں بلکہ صلح و مفاہمت کے لیے بروئے کار لائے۔ 2008 میں جب لبنان خانہ جنگی کے دہانے پر تھا، قطر نے دوحہ میں کڑوے مخالفین کو اکٹھا کیا اور ایک معاہدہ کرایا جس نے ملک کو انتشار میں گرنے سے بچا لیا۔ دوحہ معاہدے نے حزب اللہ کو حکومت میں نمائندگی دی اور بیروت کی سڑکوں پر سکون قائم کیا۔ یہ ایک نادر لمحہ تھا جب واشنگٹن اور تہران—جو عام طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں—ایک ہی نتیجے پر خوش ہوئے اور قطر کی ثالثی کی صلاحیت کو تسلیم کیا۔


اسی طرح اسرائیل اور حماس کے طویل تنازع میں قطر ہمیشہ ایک اہم ثالث رہا ہے۔ جب دنیا کی توجہ غزہ سے ہٹ گئی، قطر نے آگے بڑھ کر نہ صرف مالی امداد فراہم کی تاکہ اسپتال، بجلی اور بنیادی ڈھانچہ قائم رہ سکے بلکہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے میں بھی کردار ادا کیا۔ 2012 میں امیر حمد بن خلیفہ الثانی نے غزہ کا دورہ کیا، جو کسی سربراہِ مملکت کا بے مثال اقدام تھا، اور دوحہ کے انسانی ہمدردی کے عزم کا اعلان تھا۔ 2023 کی ہولناک اسرائیل-حماس جنگ میں بھی قطر مرکزی حیثیت میں رہا اور جنوری 2025 کی جنگ بندی کے مذاکرات کو ممکن بنایا۔ قیدیوں کا تبادلہ، انسانی راہداریوں کا قیام اور آئندہ بات چیت کا فریم ورک—سب دوحہ کی صبر آزما سفارت کاری کا ثمر تھے۔ افسوس کہ اس کردار کا احترام کرنے کے بجائے اسرائیل نے دوحہ ہی کو نشانہ بنایا، وہی شہر جو امن کی تلاش میں بارہا مذاکرات کے دروازے کھولتا رہا۔


قطر کی امن پسندی صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہی۔ سوڈان اور دارفور میں 2010 کی دہائی میں قطر نے ثالثی کا کلیدی کردار ادا کیا۔ افغانستان میں، امریکا اور طالبان کے مذاکرات کے لیے قطر نے غیرجانبدار مقام فراہم کیا، جو بالآخر 2020 کے دوحہ معاہدے پر منتج ہوا۔ یہ معاہدہ، اگرچہ متنازع تھا، مگر امریکی افواج کے انخلا کا راستہ متعین کر گیا اور اس اعتماد کو اجاگر کیا جو قطر پر مذاکرات کی میزبانی کے لیے کیا گیا۔


یمنی تنازع کے ابتدائی مراحل میں بھی قطر نے کردار ادا کیا، اگرچہ 2017 کے سفارتی بحران نے اس کی سرگرمیوں کو وقتی طور پر محدود کر دیا۔ اُس بحران میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر پر پابندیاں لگائیں، جو اس کی مزاحمت کا امتحان تھا۔ مگر قطر نے اپنی آزاد پالیسی اپنائی، ترکی اور ایران کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے اور 2021 تک مصالحت تک پہنچ گیا۔ حیران کن طور پر، پیچھے ہٹنے کے بجائے دوحہ اس بحران سے مزید پرعزم ہو کر نکلا کہ اپنی آزاد خارجہ پالیسی اور ثالثی کے کردار کو جاری رکھے۔


شام میں، جہاں جنگ نے شہروں کو کھنڈر بنا دیا، قطر نے 2017 میں مضایا جیسے محصور قصبوں سے ہزاروں شہریوں کے انخلا کا انتظام کیا۔ لیبیا اور قرنِ افریقہ میں بھی قطر نے تنازعات کو کم کرنے کی کوشش کی، اگرچہ کبھی کبھار خلیجی ریاستوں کے مفادات سے ٹکرا گیا، لیکن ہمیشہ اس یقین کے ساتھ کہ مکالمہ تصادم سے بہتر ہے۔ حتیٰ کہ اریٹیریا اور جبوتی کے سرحدی جھگڑے جیسے نسبتاً معمولی تنازع میں بھی قطر نے ثالثی کی، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ اس کی توجہ کے لیے کوئی تنازع چھوٹا نہیں۔


یہ سلسلہ قطر کو تعریف اور تنقید دونوں لے کر آیا۔ مگر کوئی منصف مزاج مبصر یہ نہیں جھٹلا سکتا کہ قطر کی مداخلتوں نے تکالیف کو کم کیا، جنگ بندیوں کو ممکن بنایا اور کم از کم لمحہ بھر کے لیے ہی سہی جنگ کے شور کو تھم جانے پر مجبور کیا۔ اس کی انسانی ہمدردی پر مبنی امداد، مکالمے پر اصرار اور سفارتی لچک نے اسے ایسے مخالفین کے درمیان معتبر ثالث بنایا جو ورنہ ایک جگہ بیٹھنے پر تیار نہ ہوتے۔


چنانچہ جب اسرائیلی حملے دوحہ پر ہوئے، تو یہ صرف ایک دارالحکومت پر حملہ نہ تھا بلکہ مفاہمت اور ثالثی کی علامت پر حملہ تھا۔ یہ عالمی برادری کے اُس اعتماد پر ضرب تھی جو قطر کو امن کے غیرجانبدار مقام کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ عمل سفارت کاری کی قدروں کے بھی خلاف تھا اور اس نازک مگر ضروری اُمید کے بھی کہ مشرقِ وسطیٰ کے تاریک ترین تنازعات میں بھی ایک ایسی جگہ موجود ہے جہاں مخالفین—چاہے بادل نخواستہ ہی سہی—بات کر سکیں۔


قطر کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ چھوٹی ریاستیں بھی بصیرت اور ثابت قدمی کے ذریعے امن کے لیے غیرمعمولی اثر ڈال سکتی ہیں۔ اس کا سب کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کا عزم—چاہے وہ ایران ہو، امریکا، حماس یا حزب اللہ—بحران کے وقت قیمتی ثابت ہوا۔ دوحہ نے کبھی غلبے کی نہیں بلکہ سمجھوتے کی کوشش کی؛ طاقت کی نہیں بلکہ امن کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج قطر کو صرف سہولت کار نہیں بلکہ امن کے اُس فاختہ کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے جس کے پروں نے براعظموں تک پھیلے تنازعات کو ڈھانپنے کی کوشش کی ہے۔


دوحہ پر حملہ اس کردار کو کمزور نہیں بلکہ عالمی برادری کے اس عزم کو مزید مضبوط کرنا چاہیے کہ ایسے مکالماتی مراکز کو تحفظ دیا جائے۔ ورنہ دنیا اُس مستقبل کی طرف بڑھ سکتی ہے جہاں جنگ مکالمے کو خاموش کر دے اور خون عقل و دلیل کی آواز کو دبا دے۔ قطر نے دکھایا ہے کہ امن، چاہے کتنا ہی نازک کیوں نہ ہو، ممکن ہے۔ اس نے تاریخ میں اپنی جگہ فتوحات سے نہیں بلکہ مفاہمت سے بنائی ہے، جارحیت سے نہیں بلکہ تفہیم سے۔ اور ایسے وقت میں جب انسانیت صلح کے لیے تڑپ رہی ہے، قطر کا کردار امن کی فاختہ کے طور پر پہلے سے کہیں زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراگر میئر بنا تو نیتن یاہو کی نیویارک آمد پر گرفتاری کا حکم دوں گا، زہران ممدانی وہ گھر جو قائد نے بنایا پاکستان: عالمی افق پر ابھرتی طاقت پاکستانی فضائیہ: فخرِ ملت، فخرِ وطن انقلابِ قرض سے آزادی: خودمختاری کے نئے باب کی جانب یوم دفاع حجاب: پاکستان کی روایت، ترکیہ کا سفر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

قطر تنہا نہیں، عرب اور اسلامی دنیا اس کے ساتھ ہے، سیکریٹری جنرل عرب لیگ

عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے اتوار کو اسرائیل کے خلاف سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جرم پر خاموشی مزید جرائم کا راستہ ہموار کرتی ہے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عرب اور اسلامی ممالک کے ہنگامی سربراہی اجلاس سے ایک روز قبل تیاری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ابوالغیط نے کہا کہ یہ اجلاس اپنے آپ میں ایک طاقتور پیغام ہے کہ قطر تنہا نہیں، عرب اور اسلامی دنیا اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے اقدامات 2 سال سے غزہ میں جاری نسل کشی پر عالمی برادری کی خاموشی کا نتیجہ ہیں جس نے قابض قوت کو بے خوف بنا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قطر پر اسرائیلی حملہ: سلامتی کونسل کی مذمت، قطری وزیراعظم کا دوٹوک مؤقف

یہ اجلاس قطر کی جانب سے اس وقت طلب کیا گیا جب اسرائیل نے 9 ستمبر 2025 کو دوحہ میں حماس کے متعدد رہنماؤں کی رہائش گاہوں کو نشانہ بناتے ہوئے غیر معمولی فضائی حملہ کیا تھا۔

قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری کے مطابق آج بروز پیر ہونے والے اجلاس میں اسرائیلی حملے کے خلاف ایک قرارداد پر غور کیا جائے گا۔

قطر کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے اسی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ دوہرے معیار ترک کرے اور اسرائیل کو اس کے جرائم پر سزا دے۔

مزید پڑھیں: قطر پر حملہ: برطانوی وزیراعظم اور اسرائیلی صدر کے درمیان ملاقات ’جھڑپ‘ میں بدل گئی

’وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو اس کے تمام جرائم پر جوابدہ بنائے، ہمارے فلسطینی بھائیوں کے خلاف جاری نسل کشی، جس کا مقصد انہیں اپنی سرزمین سے بے دخل کرنا ہے، کامیاب نہیں ہوگی۔‘

شیخ محمد کے مطابق یہ فضائی حملہ، جس میں چھ افراد جاں بحق ہوئے، دراصل ثالثی کے اصول پر ہی حملہ تھا کیونکہ اصل ہدف حماس کے امن مذاکراتی رہنما تھے۔

’اسرائیلی حملے کو ریاستی دہشتگردی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا، یہ موجودہ انتہا پسند اسرائیلی حکومت کا وہ رویہ ہے جو کھلے عام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔‘

مزید پڑھیں: دوحا میں اسرائیلی حملہ قطر کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے، انتونیو گوتریس

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بزدلانہ اور خطرناک اسرائیلی جارحیت اس وقت کی گئی جب قطر سرکاری اور عوامی سطح پر جنگ بندی کے مذاکرات کی میزبانی کر رہا تھا، جس کی اطلاع اسرائیلی فریق کو بھی تھی۔

دریں اثنا مصری وزیر خارجہ بدر عبدالطیف نے سعودی عرب، ترکیہ اور پاکستان کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کیا۔

مصر کی وزارت خارجہ کے مطابق یہ بات چیت بحران کے جائزے اور خطے کو درپیش شدید سیاسی و سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے طریقوں پر مرکوز رہی۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کو جنگی جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جائے، پاکستان نے عرب اسلامی ٹاسک فورس بنانے کی تجویز دیدی

وزرائے خارجہ نے عرب و اسلامی اتحاد پر زور دیا اور مشترکہ مفادات کے تحفظ و استحکام کے لیے مستقل رابطوں کی اہمیت پر اتفاق کیا۔

ہنگامی اجلاس میں ایران کے صدر مسعود پزیشکیان، عراق کے وزیراعظم محمد شیاع السودانی اور فلسطینی صدر محمود عباس کی شرکت متوقع ہے۔

ترک میڈیا کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی شرکت بھی متوقع ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ابوالغیط بدر عبدالطیف حماس دوحہ سیکریٹری جنرل عرب لیگ فلسطینی صدر محمد شیاع السودانی محمود عباس مسعود پزیشکیان مصری وزیر خارجہ

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • شنگھائی: صدر زرداری کی موجودگی میں مفاہمت کی 3 یادداشتوں پر دستخط
  • انقلاب – مشن نور
  • مودی سرکار کی سرپرستی میں ہندوتوا ایجنڈے کے تحت نفرت اور انتشار کی منظم کوششیں 
  •  اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے
  • قطر پر اسرائیلی حملے کیخلاف مسلم دنیا متحد، جوابی اقدامات کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی
  • ایران میں جوہری معائنہ کاروں کی واپسی مفاہمت کی جیت، رافائل گروسی
  • قطر تنہا نہیں، عرب اور اسلامی دنیا اس کے ساتھ ہے، سیکریٹری جنرل عرب لیگ