Express News:
2025-09-18@21:30:28 GMT

عالمی طاقتیں اسرائیل کو جارحیت سے روکیں

اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر حالیہ فضائی حملوں کی شدید مذمت کی ہے، تاہم متفقہ بیان میں اسرائیل کا براہ راست ذکر نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے متنازع آباد کاری میں توسیع کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کبھی نہیں بنے گی، یہ جگہ ہماری ہے۔

اسرائیل کے قطر پر حملے کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر حملے کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیوں کیا، جب عالمی برادری پہلے سے جاری فوجی جارحیتوں سے بے زاری کا اظہار کر رہی ہے؟ اب حالت یہ ہے کہ اسرائیل، جس ملک سے بھی حماس کو مدد یا معاونت ملتی دیکھتا ہے۔

 اسی پر چڑھ دوڑتا ہے، اس سلسلے میں لبنان، شام، ایران، عراق، تیونس، یمن اور اب قطر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں امریکی تھنک ٹینک کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ اسرائیل کا اگلا نشانہ ترکیہ ہوسکتا ہے کیونکہ اسرائیل نے ترک قیادت کو انتباہ کردیا ہے کہ وہ حماس رہنماؤں کو فوری ملک بدر کردے، حالانکہ ترکیہ نیٹو کا رکن ملک ہے جس کا آرٹیکل پانچ واضح ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ تمام رکن ممالک پر حملہ گردانا جائے گا، لیکن اسرائیل کے حوالے سے یہ امر سب پر واضح ہے کہ یہ آرٹیکل اسی طرح دھرے کا دھرا رہ جائے گا جس طرح قطر کے حوالے سے امریکی گارنٹی۔

 دنیا کا واحد ملک اسرائیل ہے، جس نے اپنی سرحدوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں یا نقشوں کے مطابق تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی حدود کی تکمیل تب ہو گی، جب اردن، شام، عراق، ایران، آدھا سعودی عرب اور ترکی و مصر کے کئی علاقے ریاست اسرائیل کے قبضے میں آئیں گے۔ کیا یہ مسلم ریاستوں کے خلاف ’اسرائیل اور اسرائیلی مداخلت کاروں‘ کی کھلی جارحیت اور دہشت گردی کا ایجنڈا نہیں ہے؟ اور کیا نصف درجن سے زائد مسلم ریاستوں کو ہڑپ کرنے اور جارحانہ عزائم رکھنے والے اسرائیل کے لیے غزہ کی تھوڑی سی پٹی کی نیم، خود مختاری اور ظالمانہ پابندیوں سے بندھی نام نہاد ’آزادی‘ بھی قابلِ قبول نہیں ہے؟

خصوصاً جہاں پر حماس جیسی مضبوط، منظم اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لیے لڑ مر جانے والی سیاسی قوت بھی موجود ہو۔ اسرائیل نے اس کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور اس پر تین جنگیں بھی مسلط کی جا چکی ہیں۔ اسرائیل کی جاری اندھی اور عریاں جارحیت کا ہدف غزہ کے اندر شہری زندگی کے بنیادی ڈھانچے کا خاتمہ، حماس کی تنظیم اور عوامی حکومت کو کمزور کرنا اور اہل غزہ کو نفسیاتی اعتبار سے شکست و ریخت میں مبتلا کرنا تھا۔ اسی مقصد کے لیے اسرائیل اپنی فوجی طاقت کا بھرپور استعمال کر رہا ہے۔

اسرائیل کو بڑھتی ہوئی جارحیت دنیا بھر میں اسے مزید تنہا کرسکتی ہے کیونکہ بعض مغربی اتحادیوں نے اس ماہ کے آخر میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے کہ جس کی وجہ جنگ غزہ کا تسلسل اور اس میں مزید شدت لانے پر مبنی صیہونی منصوبہ بندی ہے۔

اسی برس بیس جنوری کے بعد قطری قیادت نے ٹرمپ کے خطرناک عزائم دیکھتے ہوئے انھیں یہ پیشکش کی تھی کہ اگر آپ لوگوں کو ہماری مصالحانہ کاوشیں ناپسند ہیں تو ہم اپنا یہ رول ختم کرتے ہوئے اپنے ملک سے ان تمام گروہوں کا انخلاء کروائے دیتے ہیں،اس کے جواب میں وائٹ ہاؤس نے اعلیٰ ترین سطح سے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ آپ لوگ اپنا یہ رول As such جاری و ساری رکھیں کیونکہ اسی رول کی وجہ سے حماس یا دیگر طالبان جیسے گروہوں سے بالواسطہ روابط میں معاونت ملتی ہے بصورت دیگر یہ لوگ کھلے یا چھپے دشمنوں کے پاس جاسکتے ہیں۔

اصولی بات ہے جب امریکا نے از خود اپنی رضامندی سے قطری قیادت کو اس کی اجازت دے رکھی تھی تو پھر قطری وقار اور قومی و ملکی سلامتی کے ساتھ اس نوع کا مذاق نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ایران میں حماس قیادت کو اسرائیل کا ٹارگٹ کرنا قابلِ فہم ہو سکتا تھا لیکن قطر جیسے قریب ترین امریکی اتحادی کی سرزمین پر اس نوع کی کارروائی کا کوئی جواز نہ تھا، اس سے قطر کی قیادت پر نہ صرف دیگر دوستوں یا اتحادیوں کا اعتماد متزلزل ہوجائے گا بلکہ آیندہ کے لیے قطر وہ مصالحتی رول ادا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے گا، خود امریکا جسے ضروری خیال کرتا ہے ۔

بلاشبہ بشمول یورپ اور مڈل ایسٹ کی قیادت بالخصوص سعودی کراؤن پرنس سب نے اس اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے لیکن واضح بات ہے کہ یہ کھوکھلی مذمت لاحاصل ہے، تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ کیا ان سب کو اسرائیل اور امریکا پر بدلے میں جنگی یلغار کر دینی چاہیے؟ کیا وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ امریکا سے اس نوع کی جنگ لڑسکیں؟

جی ہاں! یہ سب اس پوزیشن میں ہیں کہ مل کر مڈل ایسٹ کے لیے امریکا سے امن معاہدہ منوا سکیں جس کا اولین تقاضا یہ ہے کہ حماس جیسے گروہوں کو غیر مسلح کرتے ہوئے تمام اسرائیلی بے گناہ یرغمالی شہری رہا کروائے جائیں۔ سعودی کراؤن پرنس بھی اس کا عندیہ ظاہر کرچکے ہیں امریکی صدر ٹرمپ کو بھی چاہیے کہ وہ اس ننگی جارحیت پر نیتن یاہو کو لگام دیتے ہوئے اپنے بلند بانگ دعوؤں کا کچھ بھرم تو رہنے دیں۔

اس وقت دنیا ایک نہایت نازک اور خطرناک دور سے گزر رہی ہے جہاں بین الاقوامی قوانین، اخلاقیات اور انسانی حقوق سب کچھ طاقت کے مظاہرے کے نیچے دب چکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے حماس کے رہنماؤں کو دنیا بھر میں نشانہ بنانے کا اعلان صرف ایک فوجی یا سیاسی قدم نہیں بلکہ ایک ایسا عمل ہے جو ریاستی دہشتگردی کی سرحدوں میں داخل ہو چکا ہے۔ دوحہ میں حماس رہنماؤں کو نشانہ بنانا ایک ایسا واقعہ ہے جس نے نہ صرف عالمی قوانین کو پامال کیا بلکہ اس پورے خطے کو ایک اور نہ ختم ہونے والے بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔

جب اسرائیل یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ دنیا بھر میں حماس کے رہنماؤں کو قتل کرے گا تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ وہ کسی مخصوص تنظیم کے خلاف برسرِ پیکار ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود افراد کو بلا کسی عدالتی کارروائی کے، بغیر کسی بین الاقوامی منظوری کے، صرف اپنے شک یا سیاسی فائدے کی بنیاد پر قتل کر سکتا ہے۔ یہ تصور صرف خطرناک نہیں بلکہ بین الاقوامی نظام کے لیے ایک سنگین دھچکا ہے۔

آج جب اسرائیل اس قسم کی کارروائیاں کر رہا ہے، تو دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ امریکا، جو انسانی حقوق اور آزادیِ رائے کا سب سے بڑا داعی سمجھا جاتا ہے، وہ کھلی جانبداری اور دہرے معیار کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ، جو دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے انصاف کا مرکز مانا جاتا ہے، وہ یا تو بے بس ہو چکا ہے یا پھر اپنی ساکھ خود کھو چکا ہے۔ یورپی یونین، جو عالمی سیاست میں توازن کا کردار ادا کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ بھی اسرائیلی بیانیے کو بغیر کسی چیلنج کے تسلیم کر رہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عالمی طاقتیں کب اپنی نیند سے جاگیں گی؟ کب وہ اسرائیل کو یہ باور کروائیں گی کہ دنیا قانون سے چلتی ہے، طاقت سے نہیں؟ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو کل کوئی اور ریاست بھی اسی طرز پر اپنے دشمنوں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں مارنے کا حق جتا سکتی ہے۔

اگر اسرائیل کو آج لگام نہ دی گئی تو یہ روش معمول بن جائے گی، اور پھر دنیا میں کہیں بھی کسی بھی مخالف آواز کو خاموش کرنا قانونی اور جائز سمجھا جائے گا۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف مشرق وسطیٰ ایک مستقل جنگ کا میدان بن جائے گا بلکہ دنیا بھر میں انتہا پسندی، ردِ عمل اور دہشتگردی کے نئے دروازے کھلیں گے۔

ہر وہ شخص جو انصاف، قانون اور امن پر یقین رکھتا ہے، وہ اس روش کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کے ان اقدامات سے ایک نیا عالمی منظر نامہ تشکیل پا رہا ہے جس میں طاقتور ملک اپنے قانون خود بنائیں گے، اور عالمی برادری محض کاغذی قراردادوں اور غیر مؤثر بیانات تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔یہ وقت ہے کہ دنیا خصوصاً وہ ممالک جو اقوامِ متحدہ میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں، وہ اپنی ذمے داری نبھائیں۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو واضح پیغام دے کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ اگر آج اسرائیل کو اس کے غیر قانونی اقدامات پر روکا نہ گیا تو کل کو روس، چین، بھارت، ترکیہ، ایران، یا کوئی بھی دوسرا ملک اسی روش پر چل نکلے گا، اور پھر اس دنیا میں انصاف، قانون اور ضمیر محض کتابی باتیں رہ جائیں گی۔

یہی وقت ہے کہ عالمی برادری صرف مذمتی بیانات پر اکتفا نہ کرے بلکہ عملی سفارتی، قانونی اور اقتصادی دباؤ کے ذریعے اسرائیل کو مجبور کرے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرے، غیر قانونی قتل و غارت کو بند کرے، اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ایک حقیقی، منصفانہ اور پائیدار راستہ اختیار کرے۔ بصورتِ دیگر، مشرق وسطیٰ کے شعلے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں اور تب نہ کوئی سپر پاور محفوظ ہوگی اور نہ ہی کوئی معاہدہ امن۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی دنیا بھر میں اسرائیل کو اسرائیل کے رہنماؤں کو کسی بھی جائے گا ہے کہ ا چکا ہے بلکہ ا رہی ہے رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، ایک ہی دن میں 100 سے زائد فلسطینی شہید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مقبوضہ بیت المقدس: غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جارحیت کے نئے سلسلے میں 100 سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے، اسرائیلی فوج نے رات بھر اور صبح سویرے غزہ شہر اور اطراف میں شدید بمباری کی، جس کے نتیجے میں درجنوں مکانات، رہائشی عمارتیں اور پناہ گزین کیمپ ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں اپنی زمینی کارروائی کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا ہے، جس کا مقصد پورے شہر پر قبضہ کرنا بتایا جا رہا ہے،  اس وقت تقریباً 10 لاکھ فلسطینی، جو پہلے ہی غزہ کے دیگر علاقوں سے بے گھر ہو کر یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، شہر کے اندر محصور ہیں اور ان پر اسرائیلی حملے مسلسل جاری ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق گزشتہ اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں اسرائیلی حملوں میں تقریباً 65 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے،  اسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں جبکہ طبی سامان کی شدید کمی نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

غزہ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ کئی دنوں سے خوراک، پانی اور ادویات کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود اسرائیلی فوج بمباری روکنے کو تیار نہیں۔ ادھر عینی شاہدین کے مطابق کئی علاقوں میں درجنوں خاندان مکمل طور پر مٹ گئے ہیں اور سینکڑوں لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق غزہ شہر اس وقت مکمل انسانی المیے میں تبدیل ہو چکا ہے۔

خیال رہے کہ  عالمی برادری کی خاموشی پر فلسطینی عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دراصل دہشت گردی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ مسلم حکمران مجرمانہ بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جس کے باعث غزہ کے مظلوم عوام مسلسل ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کی آواز ہر فورم پر بلند کریں گے، ترک صدر کا اسرائیلی جارحیت پر اعلان
  • قطر کا اسرائیل کیخلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کرنیکا اعلان
  • قطر کا اسرائیل کیخلاف عالمی فوجداری عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان
  • قطر کا اسرائیل کیخلاف عالمی فوجداری عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان 
  • صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
  • غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، ایک ہی دن میں 100 سے زائد فلسطینی شہید
  • عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
  • خاموشی ‘نہیں اتحاد کٹہرے میں لانا ہوگا : اسرائیل  کیخلاف اقدامات ورنہ تاریخ معاف نہیں کریگی : وزیراعظم 
  • اسرئیلی وزیراعظم سے ملاقات : اسرائیل بہترین اتحاد ی، امریکی وزیرخارجہ: یاہوکی ہٹ دھرمی برقرار‘ حماس پر پھر حملوں کی دھمکی