فلسطینی جنگلی جانور ہیں، امریکی وزیر خارجہ کی بوکھلاہٹ
اشاعت کی تاریخ: 16th, September 2025 GMT
مقبوضہ یروشلم میں نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ روبیو نے مبینہ طور پرطوفان الاقصیٰ آپریشن کو "جنگلی جانوروں" کا کام قراردیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ وحشی نہ ہوتے تو اب ہم اس حال میں نہ ہوتے۔ اسلام ٹائمز۔ طوفان الاقصیٰ کی کامیابی اور اس کے نتیجے میں فلسطین کے متعلق خطے اور دنیا میں آنیوالی سیاسی تبدیلیوں اور اسرائیل کیخلاف پیدا ہونیوالی نفرت کی وجہ سے امریکی اور صیہونی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ اس کی ایک جھلک امریکی وزیر خارجہ روبیو کی صیہونی وزیراعظم کیساتھ مشترکہ کانفرنس میں بھی نظر آئی۔ مقبوضہ یروشلم میں نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ روبیو نے دنیا میں اپنی اور صیہونی رجیم کی ہونیوالی رسوائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مبینہ طور پر طوفان الاقصیٰ آپریشن کو "جنگلی جانوروں" کا کام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ وحشی نہ ہوتے تو اب ہم اس حال میں نہ ہوتے۔ اس کانفرنس میں، روبیو نے دعویٰ کیا کہ یہ سب 7 اکتوبر کو شروع ہوا" اور، ان کے مطابق "کچھ لوگ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں۔ اس کانفرنس میں نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کو بھی حماس کی دہشت گردی (طوفان الاقصیٰ کی کامیابی) کا نتیجہ قرار دیا۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک تقریب میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہاں کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی اور یقینی طور پر نہیں ہوگی، یہ سرزمین ہماری ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکی وزیر خارجہ کانفرنس میں نہ ہوتے
پڑھیں:
امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
امریکی صدر کی جانب سے ایک بار پھر غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کی حمایت کے بعد صیہونی فوج نے غزہ شہر پر حملے شدید کر دیے ہیں اور کل رات شدید فضائی حملوں کے بعد آج زمینی پیش قدمی کا آغاز کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی جنگ کو شروع ہوئے 711 دن ہو چکے ہیں اور کل رات سے غاصب صیہونی فوج نے غزہ شہر پر شدید ترین بمباری کی ہے جبکہ آج سے زمینی حملے اور پیش قدمی کی خبریں آ رہی ہیں۔ غزہ شہر پر صیہونی فوج کے حملوں میں شدت ایسے وقت آئی ہے جب امریکہ کے وزیر خارجہ مارک روبیو مقبوضہ فلسطین کے دورے پر ہے۔ کل رات کی شدید بمباری میں صبح تک دسیوں فلسطینی شہید ہو جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یہ حملے پوری طرح امریکہ کی حمایت سے کیے جا رہے ہیں۔ صیہونی جنگی طیاروں، ہیلی کاپٹرز اور توپ خانے نے غزہ شہر کے کئی حصوں جیسے الدرج محلے میں واقع الزہرا اسکول اور رہائشی عمارتوں، النصیرات مہاجر کیمپ کے شمالی حصے، شہر کے مرکز میں شیخ رضوان محلے، مغرب میں الشاطی مہاجر کیمپ، جنوب میں تل الہوا، دیر البلح شہر میں السوق روڈ اور غزہ شہر کے شمال میں الامن العام علاقے میں رہائشی عمارات، البریج مہاجر کیمپ اور کئی دیگر علاقوں کو نشانہ بنایا ہے۔ غزہ شہر کے الشوای چوک سے ملبے کے نیچے سے دو بچوں کی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ 30 افراد اب تک ملبے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
اسی طرح غزہ شہر کے جنوب میں الخضریہ محلے میں 4 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ غزہ شہر کے شمال میں الامن العام محلے میں ملبے کے نیچے سے 8 فلسطینیوں کی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ 40 فلسطینی اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین نے اپنے بیانیے میں صیہونی وزیر جنگ یسرائیل کاتس کے گستاخانہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "غزہ کا شہر امریکہ کے دیے گئے میزائلوں کی وجہ سے آگ میں جل رہا ہے لیکن ہماری عوام استقامت اور مزاحمت کے ذریعے دشمن کے اوہام کو جلا کر راکھ کر دے گی۔" یاد رہے صیہونی رژیم کے وزیر جنگ نے غزہ شہر پر شدید فضائی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تمسخر آمیز لہجے میں کہا تھا کہ "غزہ آگ میں جل رہا ہے۔" اخبار ایگسیوس نے صیہونی حکام کے بقول دعوی کیا ہے کہ صیہونی فوج پیر کے دن غزہ شہر پر فوجی قبضہ جمانے کے لیے زمینی حملے کا آغاز کر دے گی۔ اس اخبار نے مزید لکھا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ شہر پر زمینی کاروائی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اس امریکی اخبار کے بقول امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو بتایا ہے کہ ٹرمپ حکومت غزہ پر زمینی حملے کی حمایت کرتی ہے اور تاکید کی ہے کہ صیہونی فوج کم ترین وقت میں غزہ شہر پر قبضہ مکمل کرے۔ اخبار ایگسیوس نے اسی طرح ایک اعلی سطحی اسرائیلی حکومتی عہدیدار کے بقول فاش کیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے اسرائیلی حکام سے غزہ پر زمینی حملہ روک دینے کی درخواست نہیں کی ہے۔ ایک امریکی حکومتی عہدیدار نے اخبار ایگسیوس کو بتایا تھا کہ: "ٹرمپ حکومت اسرائیل کو نہیں روکے گی اور اسے غزہ جنگ سے متعلق اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کی اجازت دے گی۔" ایگسیوس نے ایک امریکی حکومتی عہدیدار کے بقول لکھا: "غزہ کی جنگ ٹرمپ کی جنگ نہیں ہے بلکہ نیتن یاہو کی جنگ ہے اور مستقبل میں جو کچھ بھی ہو گا اس کی ذمہ داری نیتن یاہو پر ہو گی۔"