غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, September 2025 GMT
کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔
نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔
طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔
غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔
ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔
25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔
میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔
طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔
سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔
23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔
طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔
اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔
نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔
یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔
چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔
انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔
لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔
نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔
نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔
روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کاسمیٹک سرجری کا کہنا ہے کہ کلینک میں کے مطابق کلینک کے رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
ممدانی کی مقبولیت: نظام سے بیزاری کا اظہار!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251101-03-4
معوذ اسد صدیقی
ممکن ہے ممدانی منافقت کر رہے ہوں، یا جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں اس پر خود پورا یقین نہ رکھتے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی سوچ کو عملی جامہ پہنانا ان کے بس کی بات نہ ہو۔ ممکن ہے کہ شور دریا میں ہو اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ نیویارک کے ناکام ترین میئر ثابت ہوں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج وہ مقبولیت کا دوسرا نام بن چکے ہیں۔ بلکہ دنیا کے مقبول سیاستدانوں میں ان کا شمار ہونے لگا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں کئی روز تک اس مقبولیت کی وجہ سمجھنے سے قاصر رہا۔ 31 سالہ رکن اسمبلی ممدانی کو مختلف مواقع پر خطاب کرتے دیکھا، تو ہمیشہ ایک سنجیدہ، باشعور اور باوقار انداز نمایاں نظر آیا۔ خاص طور پر جب بھی فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے، ظہران ممدانی نے اپنی سیاسی حیثیت کی پروا کیے بغیر کھل کر اسرائیل کے جرائم کے خلاف آواز بلند کی۔ اْس وقت بہت کم لوگوں نے ان کے اس جرأت مندانہ مؤقف پر توجہ دی۔
مجھے بخوبی یاد ہے کہ ایک موقع پر ان کے حلقے کی ایک مسجد میں ہمیں اسکول بیگ تقسیم کرنے تھے۔ میں نے اس سلسلے میں ممدانی کے دفتر سے رابطہ کیا اور انہیں دعوت دی کہ وہ بھی اس مہم میں شریک ہوں۔ وہ فوراً رضامند ہوگئے۔ لیکن جب میں نے مسجد کی انتظامیہ کو بتایا کہ میں ظہران ممدانی کو مدعو کر رہا ہوں، تو ابتدا میں اْنہوں نے کچھ ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ اْن کا کہنا تھا کہ ممدانی کے چند خیالات مین اسٹریم مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ میں نے وضاحت کی کہ میں اْن سے بات کر چکا ہوں۔ میں انہیں ذاتی طور پر دعوت دے چکا ہوں، اور دوسرا یہ کہ فلسطین کے مسئلے پر اْن کا مؤقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔
آخرکار، مسجد کی انتظامیہ نے وسعت ِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اْن کا خیرمقدم کیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اْس وقت بہت کم لوگ اْنہیں پہچانتے تھے، حالانکہ وہ اسی علاقے کے منتخب نمائندہ تھے۔ ہم دونوں نے مل کر اسکول بیگ تقسیم کیے، اور اْس لمحے کوئی خاص ہجوم یا میڈیا کی توجہ نہیں تھی۔ ان سے میری ملاقات مسجدوں، مسلم کمیونٹی کے اجتماعات کے علاوہ کہیں نہیں ہوئی اس لیے سوچتا رہا کہ ان کی مقبولیت کی بنیاد صرف مسلمان ہونا، سوشلسٹ ہونا، پرکشش شخصیت یا خوبصورت مسکراہٹ نہیں ہے۔ مگر گزشتہ روز کے جلسے نے میری تمام سابقہ تشریحات بدل دیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ میرے گھر سے صرف دو میل دور جس اسٹیڈیم میں خطاب کرنے جا رہے تھے وہ بہت بڑا نہ ہوگا؛ کیونکہ میں بھی کبھی وہاں نہیں گیا تھا۔ مگر جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ درحقیقت تیرہ ہزار افراد گنجائش رکھنے والا اسٹیڈیم تھا۔ دیکھا کہ لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ میں آرہے ہیں ہزاروں لوگ داخل ہونے سے قاصر رہ گئے۔ جلسے میں جانے سے قبل میرا خیال تھا کہ وہاں شرکاء کی اکثریت بنگلا دیشیوں پر مشتمل ہوگی، اس کے بعد پاکستانی، پھر گورے، ہسپانوی اور دیگر قومیتوں کے افراد ہوں گے۔ یہ اندازہ اس لیے تھا کہ اس انتخابی مہم میں بنگلا دیشی کمیونٹی نے غیر معمولی طور پر سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن جب میں وہاں پہنچا تو منظر بالکل مختلف تھا۔ توقعات کے برعکس، سامعین میں نسل، رنگ اور قومیت کا ایسا حسین امتزاج تھا جو نیویارک کے بدلتے سیاسی مزاج کا آئینہ دار تھا۔ جلسے میں خطاب کے لیے گورنر ہوگو اور اسپیکر کارل یسٹی کی طرح کی روایتی سیاسی شخصیات بھی تھیں، مگر جب انہوں نے خطاب کیا تو سامعین نے ان کا خیرمقدم نہیں کیا؛ ان کے نعروں سے بڑھ کر ایک ہی صدا بلند ہوئی: ’’امیروں پر ٹیکس لاؤ‘‘۔
یہ منظر واضح کر گیا کہ ممدانی کی مقبولیت خود ممدانی کی نہیں؛ بلکہ اس نظام کے خلاف ایک اجتماعی نفرت، ایک ناخوشگوار بے چینی ہے۔ ہم جیسے بہت سے مہاجرین اور وہ لوگ جو ماضی میں نسبتاً کم توقعات کے ساتھ یہاں آئے تھے، معمولی بہتری پر خوش ہوجاتے ہیں؛ مگر جن نوجوانوں نے یہاں جنم لیا، جنہوں نے خواب دیکھے، ان کی زندگی مشکلات میں پھنستی جا رہی ہے۔ مہنگائی، روزگار کے مسائل، بے بسی، درمیانی طبقے کا خاتمہ اور امیروں کا مزید امیر بننا یہ وہ کیفیات ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو ناراض کیا ہے۔ یہ غم و غصہ اور بے چینی زبانی شکل میں ظہران ممدانی کے نعروں کے ذریعے نمودار ہوئی۔ وہ تبدیلی کا نعرہ دے رہے ہیں۔ ایسا نعرہ جو نسل، مذہب اور رنگ سے بالاتر ہو کر لوگوں کو متحد کر رہا ہے۔ نوجوان ڈیموکریٹک سوشلسٹ کے ورکرز کے ساتھ کھڑے ہیں اور روایتی سیاست دان پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض روایتی پارٹی لیڈرز مجبور ہو کر ممدانی کی حمایت کرنے پر راغب ہوئے یا انہیں انڈورس نہ کرنے کی صورت میں ممکنہ مقابلے کا خدشہ لاحق ہوا۔
یہ معاملہ مسلمانوں یا سوشلسٹس کا نہیں؛ معاملہ تبدیلی کا ہے۔ اس تبدیلی کا جو امتیازی، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ ایسا رجحان ہم نے دنیا کے مختلف حصوں میں بھی دیکھا ہے۔ نوجوان نسل کی بغاوت، مطالباتِ انصاف اور نظام سے ناپسندیدگی۔ شاید یہ وہی جذبہ ہے جس نے کہیں یا دیگر مقبول تحریکوں کو جنم دیا، نعرہ دیا گیا اور لوگوں نے اس نعرے کے پیچھے کھڑا ہونا شروع کر دیا۔ یقینا اس راستے میں مشکلات اور غیر یقینی کا پہلو موجود ہے۔ انتخابات میں کامیابی بسا اوقات ایک آزمائش بنتی ہے اور ناکامی بھی سامنے آ سکتی ہے۔ آنے والا وقت سخت بھی ہو سکتا ہے اور پیچیدہ بھی۔ مگر فی الحال حقیقت یہی ہے کہ لوگ نظام سے نالاں ہیں اور ممدانی نے اْن جذبات کو زبان دی ہے۔ یہ جنگ مذہب یا نظریے کی نہیں؛ یہ ایک سماجی و اقتصادی تبدیلی کی جنگ ہے اور اس میں کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔