ڈی پی ایل کی تاریخ میں توسیع خوش آئند ، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے، کمرشل امپورٹرز
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (کامرس رپورٹر)پاکستان کیمیکلز اینڈ ڈائز مرچنٹس ایسوسی ایشن (پی سی ڈی ایم اے) نے ڈینجرس پیٹرولیم لائسنس (ڈی پی ایل) حاصل کرنے کی آخری تاریخ میں 23 اکتوبر 2025 تک کی توسیع کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے توانائی پیٹرولیم ڈویڑن علی پرویز ملک، ڈی جی ایکسپلوزیو عبدل علی خان اور ڈائریکٹر محمد آفتاب قاضی سے اظہار تشکر کیا ہے۔ ایک بیان میں چیئرمین پی سی ڈی ایم اے سلیم ولی محمد نے کہا کہ وزارت کی جانب سے بروقت مداخلت قابل ستائش ہے تاہم ڈی پی ایل قوانین کا بنیادی مسئلہ اب بھی حل طلب ہے۔ توسیع تکنیکی طور پر صرف 42 دن کی مہلت ہے جبکہ صنعتی درآمدی سائیکل اوسطاً 60 سے 90 دن کا ہوتا ہے جو خام مال کی تیاری، شپمنٹ اور درآمد کے مراحل پر مشتمل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن کیمیکلز خام مال کو ڈی پی ایل کلاس بی اور سی میں شامل کیا گیا ہے وہ نہ تو ہائیڈرو کاربن ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا ایندھن۔ یہ خالص صنعتی آرگینک کمپاؤنڈز ہیں جو ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل، پلاسٹک، کھاد، چمڑا اور کاسمیٹکس جیسے اہم شعبوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اشیاء کو پیٹرولیم ایکٹ کے تحت لانا نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ اس سے صنعتی پیداوار، برآمدات اور ملک کے زرمبادلہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔انہوں نے حکومت سے ڈی پی ایل قوانین پر نظرثانی اور غیر پیٹرولیم صنعتی خام مال کو اس سے مستثنیٰ قرار د دینے کا مطالبہ کیا تاکہ ملکی صنعت کسی بڑے بحران سے محفوظ رہ سکے۔سلیم ولی محمد نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ غلط درجہ بندی برقرار رہی تو صنعتی سپلائی چین متاثر ہوگی، برآمدی مسابقت کمزور پڑے گی اور معیشت کو طویل المدتی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈی پی ایل
پڑھیں:
صنعتی پیداوار میں اضافہ اور گندم کی قلت
جولائی 2025 کا مہینہ مزدوروں کے لیے امید کا پیغام لے کر آیا تھا۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیداوار جون 2025 کے مقابلے میں جولائی 2025 میں 2.6 فی صد بڑھ گئی ہے۔
یہ سب کچھ اس قوم کے پسے ہوئے طبقے کے لیے سانس لینے کا موقعہ تھا۔ وہ مزدور جو کافی عرصے سے بے روزگار پڑے تھے، مل مالک نے آواز دی وہ دوڑا دوڑا چلا آیا، وہ دوبارہ فیکٹری کی راہداریوں میں قدم رکھ رہے تھے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ گارمنٹس کی پیداوار میں 3.80 فی صد کا اضافہ ہوا۔ یعنی کپاس کی سرسراہٹ کے ساتھ گارمنٹس کی مشینوں میں 3.80 فی صد اضافے کا بھی شور تھا، لیکن اگست، ستمبر کا سیلابی پانی جننگ فیکٹریوں کے گیٹ کو توڑکر اندر گارے مٹی کی تہہ بچھا گیا ہے۔ مشینیں پانی میں ڈوب کر زنگ آلود ہوکر رہ گئیں۔ ان اعداد و شمار میں یہ بیان کیا جا رہا تھا کہ کھانے پینے کی اشیا کی پیداوار میں ایک فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔
بھارت کی آبی جارحیت نے جنوبی پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع ڈبو دیے ہیں۔ کپاس کی فصل کا بہت بڑا حصہ تباہ ہو گیا ہے۔ جہاں سفید پھولوں کی لہلہاتی کھیتیاں تھیں، وہاں اب کیچڑ یا پانی کھڑا ہے۔ یہ وہ کپاس ہے جو ہماری گارمنٹس انڈسٹری کو سہارا فراہم کرتی تھی۔ لاکھوں مکانات اب جزوی یا کلی نقصان کے دائرے میں آگئے ہیں، بھارتی آبی جارحیت نے صرف فصلیں نہیں برباد کیں بلکہ کسان کو اجاڑا ہے۔
کارخانے کے مزدور کی زندگی کو بھی ڈبو دیا ہے ۔ یہ صرف مکانات نہیں گراتا رہا بلکہ بچوں کے مستقبل کی چھت بھی اکھاڑتا چلا جا رہا ہے۔ اور بھارت ہے کہ باز نہیں آ رہا ہے۔ چند دن قبل ایک اور بہت بڑا ریلا دریائے ستلج میں چھوڑ دیا گیا ۔ ابھی جلال پور، علی پور والے ایک وار برداشت کر رہے تھے کہ دوبارہ سیلاب اپنی اونچی سے اونچی حدیں خود ہی پھلانگتا چلا آیا۔ بھارت ساری کارروائی کا بیشتر حصہ بغیر اطلاع انجام دیتا رہا۔
ہمارے ملک کے کسان ہی نہیں بلکہ مزدور، کاریگر بھی سیلاب سے شدید متاثر ہوئے۔ جولائی کے مہینے میں فرنیچر کا کاروبار ترقی کی جانب سفر پر جا رہا تھا۔ رپورٹ بتا رہی ہے فرنیچر کی پیداوار میں ترقی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ جولائی میں جون کے مقابلے میں ایک فی صد کا اضافہ ہوا تھا کہ اگست اور ستمبر میں بارشوں نے آ لیا۔
دریا بپھر گئے ان لہروں میں سفاکیت بھارتی آبی جارحیت نے پیدا کر دی تھی۔ وہ کاریگر جس کے ہاتھ لکڑی کے تختے پر دوڑ رہے تھے وہ جولائی میں سوچ رہا ہوگا کہ اب خوب روزگار ملے گا، بچوں کے اسکول کی فیس بھر دی جائے گی، جوتے بھی دلاؤں گا، سردیاں آنے والی ہیں بیوی کے لیے گرم چادر خرید لوں گا، مگر یہ کیا سیلاب آگیا؟ وہ بھاگا بھاگا گاؤں آتا ہے، دیواریں گر گئیں، چادریں بہہ گئیں، کپڑے سب پانی برد ہو گئے، برتن تیرتے ہوئے چلے جا رہے تھے، کاریگر جس کے ہاتھ میں اوزار تھے اب وہ کچی دیواروں کو سہارا دے رہے تھے، جو دیوار بچی تھی وہ سہمی کھڑی، لڑکھڑا رہی تھی۔
خبریں آ رہی تھیں کہ بچے دیوار گرنے سے ہلاک ہو گئے۔ فرنیچر کی پیداوار میں اضافہ جس نے اس کے ذہن کی روشنی بڑھا دی تھی، اب وہاں اندھیرا چھا گیا تھا۔ یہ اندھیرا عارضی نہیں تھا، جو رات گزرنے پر ختم ہو جائے۔ یہ مایوسی کا اندھیرا تھا، کچھ ماہرین کہتے ہیں یہ وقت ہے، لیکن کاریگر جانتا ہے کہ جولائی میں روزگار کی جھلک ملی تھی لیکن بھارت کے بار بار کے آبی جارحیت کے سیلابوں نے واپس اندھیرے میں ڈال دیا ہے۔ جس سے نکلنے کے لیے عارضی وقتی پلان نہیں بلکہ ایک طویل المیعاد پلان کی ضرورت ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کارخانوں میں کام بند ہو جائے تو مزدور کا دل ہی نہیں بیٹھتا بلکہ معیشت بھی بیٹھ جاتی ہے اور ایسی معیشت جس کا انحصار زراعت پر ہو تو اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوگی۔
حالیہ بجٹ یہ دہائی دے رہا تھا کہ ملک کے 25 لاکھ کارآمد نوجوان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ادھر سے سیلاب نے مزید لاکھوں افراد کو بے روزگار کر دیا۔
ادھر یہ خبر بھی آگئی کہ پاکستان کی ایک کمپنی کروڑوں ڈالر کا حلال گوشت برآمد کرے گی۔ ملک کی گلیوں سے جب پانی اترے گا تو ہر باڑے خالی ملیں گے کیونکہ سیلابی پانی سب کچھ بہا کر لے گیا۔ جو مویشی بچ گئے ہیں وہ بیمار ہیں، شہری یہ خبر سن رہے تھے کہ اچانک معلوم ہوا کہ بڑی مالیت میں ان دنوں جب ہر طرف خال خال ہی حلال جانور نظر آ رہے تھے، اب خالی ہو چکے ہیں۔ شہری سوچتا ہے کہ برآمدی آرڈر مل گیا ہے تو گوشت کے دام یکدم چڑھ جائیں گے۔ کسان سوچتا ہے کہ پہلے تو اپنے ہی بکرے ذبح کر لیتا تھا، اب گوشت کی دکان سے مہنگا گوشت کیسے خریدوں گا؟
مارکیٹ میں اب گندم مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ آٹا مہنگا ہو کر غریب کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔ مارکیٹ میں شور تھا کہ گندم غائب ہوگئی ہے۔ اخباروں میں سرخیاں لگ رہی تھیں کہ ملک میں گندم کی قلت پیدا ہو گئی، قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ خبر حاوی ہوتی چلی جا رہی تھی۔ شاید یہ خبر کہیں دب گئی ہوگی۔ کیونکہ قلت کے ساتھ آگے جاکر یہ خبر بھی شایع ہو کر رہ گئی کہ ایک بڑے گودام سے 2 لاکھ ٹن گندم برآمد ہوئی ہے۔
کسی ذخیرہ اندوز نے قیمت بڑھنے کے انتظار میں چھپا کر رکھی تھی، یہاں پر بھی دولت مند طاقتور بھاری پڑ چکا تھا۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والے نے دام بڑھنے کی امید پر 2 لاکھ ٹن اناج کے پہاڑ قید کرکے بیٹھا تھا۔ لوگوں کی بھوک کو قید کر لیا گیا تھا۔ گندم کی بوریوں کو چھپا کر خالی پیٹ غریب مزدور، کسان، بچوں، عورتوں، بوڑھوں کی مجبوری ، بے بسی کا کس طرح سے مذاق اڑایا گیا تھا۔ سیلاب سے زیادہ ہولناک کہانی یہاں پر دہرائی جا رہی تھی۔ طاقتوروں، اشرافیہ کے گودام بھرے ہوئے تھے، تجوریوں میں تالا لگا ہوا تھا اور غریبوں کے پیٹ خالی تھے۔
بھوک سے بے حال ہو رہے تھے، آٹا مہنگا ہوتا چلا جا رہا تھا، فی الحال بتایا یہ گیا ہے کہ گندم سرکاری تحویل میں لے لی گئی ہے۔ صوبائی حکومت فوری طور پر حقائق سامنے لائے کہ کہیں کچھ اورکہانی نہ بن جائے۔ ایسے افراد کو ان دنوں جب ملک پر قحط کا سماں ہے اور مزید اضافے کی توقع ہے اس بات کا سختی سے نوٹس لیں کہ یہ ذخیرہ اندوزی وہ بھی گندم جیسی اہم ترین اناج کی یہ بہت بڑا جرم ہے۔