Express News:
2025-11-05@23:29:52 GMT

قرضوں میں مزید اضافہ

اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT

تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران حکومت کے ذمے قرض میں تقریباً 10 ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں کئی خدشات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ معاشی سست روی کا ہونا، شرح سود کے متعلق زرمبادلہ ذخائرکا دباؤ اور دیگر خطرات کا موجود ہونا۔ اس طرح اب مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس بات کا اندازہ پیش کیا جا رہا ہے کہ جی ڈی پی کا تناسب 61 فی صد ہو سکتا ہے۔ ان خطرات میں سے ایک موسمیاتی تبدیلی بھی ہے۔

وزارت خزانہ کی کھڑکیوں کے پار ایک فائل جوکہ قرضوں کے بارے میں تھی، ایک عدد کراہ رہی تھی کہ 84 ہزار ارب روپے کا قرض۔ یہ وہ عدد 84 ہے جو کہ گزشتہ برس 83 تک رہا اور ایک سال کے بعد 84 ہزار ارب روپے چنگھاڑتا ہوا نمودار ہوا، جسے کوئی محسوس کرے یا نہ کرے غریب عوام محسوس کر رہے ہیں اور سہم بھی رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس میں سے بیرونی قرضوں کا تناسب 32 فی صد سے زائد ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اس کی ادائیگی کے لیے اپنی پالیسی اپنی کرنسی کی گراوٹ اور کبھی کبھی اپنی خود داری بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔ یہاں پر یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں یہ تناسب GDP کا 70 فی صد سے کم ہو کر 60.

8 فی صد تک آنے کی امید ہے۔ جی ڈی پی کے یہ اندازے ہیں جوکہ 70 فی صد سے کم کرکے بتایا جا رہا ہے، درحقیقت قرض تو کم نہیں ہو رہا ہے۔ صرف تناسب کو بہتر دکھانے کی کوشش ہے کیوں کہ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے قرضے کی پالیسی ’’ہائی رسک زون‘‘ میں داخل ہو چکے ہیں۔ جہاں تک شرح سود کی بات ہے تو جیسے ہی شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے ہر نئے دن پرانے قرض کی قسط مزید بھاری ہو جاتی ہے۔

پاکستان کے زیادہ تر قرضے قلیل مدتی پالیسی کے ہیں جنھیں بار بار ری فنانس کرنا پڑتا ہے یعنی پرانے قرضوں کی قسط نئے قرضے کی قسط سے ادا کی جاتی ہے۔ اس طرز عمل نے معیشت کو ری فنانسنگ کے جال میں قید کردیا ہے۔

اور یہ سب ایسا منحوس چکر ہے کہ کوئی شخص ایک ادھار چکانے کے لیے دوسرا ادھار لے پھر تیسرا، پھر چوتھا قرض بھی، مختلف بھاری شرح سود کے ساتھ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے، اگر شرح سود بڑھتی ہے تو ڈالرکا ریٹ بڑھتا ہے تو سمجھیں بجٹ توازن سے لے کر عام آدمی کی روٹی پانی تک سب کچھ لرز کر رہ جاتا ہے۔

حکومت عوام کے نام پر قرض لے کر خوب اسے خرچ بھی کر رہی ہے لیکن جس کے نام پر قرض لیا جا رہا ہے وہ مفلوک الحال ہے، اس مزدورکی ہتھیلی اب بھی خالی ہے، ساتھ ہی ڈالر کی رسد بھی کم ہو جاتی ہے اور ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ کراچی کی بندرگاہ پر جب ایک درآمدی سامان کے کنٹینر کھلتے ہیں تو ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے اور ہر قرض کی ادائیگی پر ڈالر کی اونچی اڑان روپے کو گرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس طرح اب پاکستان کا ہر شہری قرض دار ریاست کے شہری کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اب حکومت کے پاس اختیار کم ہے اور مالیاتی اداروں کے پاس اختیارات زیادہ ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ اب عالمی ادارے سے معاہدہ کرتے کرتے اپنے نفع نقصان کے بارے میں سوچنے سے بڑھ کر عالمی اداروں کے کہنے پر عمل کیے بغیر کچھ حاصل نہیں۔

قرض ایک ایسا منحوس چکر ہے جس میں رہ کر کوئی قوم فلاح و بہبود حاصل نہیں کر سکتی ہے۔ ہر سال بجٹ میں نئے وعدے کیے جاتے ہیں، نئے نعرے متعارف ہوتے ہیں، نئی اسکیموں کے تبصرے ہوتے ہیں لیکن دراصل سال کے خاتمے تک نہ اکثر اسکیموں پر عمل درآمد شروع ہوتا ہے اور نہ ہی تکمیل کی طرف جاتے ہیں۔ اس طرح اسکیمیں تو ختم ہو جاتی ہیں لیکن ادھوری چھوڑ کر۔

قرض لینا بدشگونی ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو پہلے پہل بہت ہی کم تنخواہیں ملتی تھیں، پھر بھی اس میں سے بھی بچت کر لیتے تھے اور یہ بچت مجموعی طور پر بڑے سے بڑے سرمائے کی شکل میں نمودار ہوتی ہے اور یہ سرمایہ بڑے بڑے کارخانہ دار تاجر حاصل کرتے ہیں اور کم شرح سود کی ادائیگی پر یہ رقوم جوکہ بینکوں میں جمع ہوتی ہیں اپنے کام میں لاتے ہیں۔

اس طرح سے رقوم کی تشکیل ہوتی رہتی ہے۔ انھی رقوم کو حکومت قرض لے کر لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرتی رہتی ہے اور عوامی منصوبوں کے لیے زیادہ رقوم اکٹھی ہو جاتی ہیں، اگر حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات کو کم کر دے تو ایسی صورت میں کچھ رقوم کی بچت ہو سکتی ہے اور حکومت کو بھی اپنی روزمرہ ضروریات، اخراجات کے لیے بہت زیادہ رقوم لینے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ اگر مراعات یافتہ طبقے کے لیے حکومت اپنی مراعات میں کمی کر دے تو بھی ایسی صورت میں اچھی خاصی بچت ہو سکتی ہے، لہٰذا یہ بات اگر مدنظر رکھی جائے کہ غریب عوام اتنا زیادہ قرض لینے کی متحمل نہیں ہو سکتے اور ان کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی لہٰذا اخراجات کنٹرول کیے جائیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہزار ارب روپے ہو جاتی ڈالر کی جاتی ہے ہے اور کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

پاکستان میں کھجور کی سالانہ پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ، کروڑوں ڈالرز کا منافع

پاکستان میں کھجور کی سالانہ پیداوارساڑھے 6لاکھ ٹن سے بھی تجاوز کر گئی ہے جس میں سے سالانہ 58کروڑ ڈالرکی کھجور برآمد کی جا رہی ہے تاہم اگرضروری سہولیات میسر آجائیں تو برآمدی ہدف کو مزید بڑھایا جا سکتاہے۔ڈیٹ پام ہارویسٹ ٹریڈنگ اینڈ ایکسپورٹس کے ماہرین نے بتایاکہ پاکستان میں بہتر انتظامی خدمات اوردستیاب سہولیات کے باعث برآمدی کھجور کی رقم 26کروڑ ڈالر سے بڑھ کر حالیہ دو سالوں میں 58کروڑ ڈالر تک جا پہنچی ہے جس میں مزید اضافہ بھی ممکن ہیانہوں نے کہاکہ کھجور کی برآمد کے سلسلہ میں فی الوقت مناسب سہولیات نہ ہونے سے عالمی معیار کا مقابلہ کرنا مشکل ضرورہے لیکن ناممکن نہیں۔ انہوں نے بتایاکہ پاکستان میں پیدا ہونے والی کھجور اپنے بہترین معیار، ذائقے، لذت کے اعتبار سے دنیا کی اعلیٰ اقسام کی کھجور میں شمار ہوتی ہے لیکن اس کی پیکنگ اور پراسیسنگ کے نظام میں بہتری کی وسیع گنجائش موجود ہے۔انہوں نے بتایاکہ اگر کھجور کی پیکنگ، پالشنگ، پراسیسنگ کے نظام کو بہتر بنا لیا جائے تو کم ازکم 100کروڑ ڈالر کی کھجور برآمد کر کے قیمتی زرمبادلہ کا حصول یقینی بنایا جا سکتاہے۔ انہوں نے بتایاکہ پاکستان 36ممالک کو کھجور برآمد کرتاہے جبکہ 4لاکھ ٹن سے زائد کھجور صرف پاکستان کے اندر ہی فروخت کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کھجور کی پیداوار بڑھا کر اس کاروبار سے وابستہ افراد کو مزید برآمد کی ترغیب دینے کے علاوہ اندرون ملک اس کے نرخوں میں کمی لانا بھی ممکن ہو سکتاہے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک کے بالائی علاقوں میں برفباری سے سردی کی شدت میں مزید اضافہ
  • ٹنڈومحمد خان ،BISP پروگرام کی رقم سے کٹوتی کرنے والے 2 ملزم گرفتار
  • ماحولیاتی تبدیلیوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی، ملیریا اور ڈینگی کے کیسز میں تشویشناک اضافہ
  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے‘ چیئرمین راشد لنگڑیال
  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے: چیئرمین ایف بی آر
  • امریکا کے 10 امیر ترین افراد کی دولت میں ایک سال میں 700 ارب ڈالر کا اضافہ، آکسفیم کا انکشاف
  • پائیدار ترقی کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہیں، حکومتی معاشی ٹیم کی مشترکہ پریس کانفرنس
  • پاکستان میں کھجور کی سالانہ پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ، کروڑوں ڈالرز کا منافع
  • عالمی مارکیٹ میں سونا مہنگا ہوگیا، مقامی سطح پر بھی قیمتوں میں مزید اضافہ