Express News:
2025-11-05@23:27:49 GMT

پاکستان کی خارجہ پالیسی اورافغانستان

اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT

آخر گِل اپنی صرف در میکدہ ہوئی

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

مجھے یہ شعر افغانستان کے وزیر خارجہ امیر متقی کو بھارتی وزیر خارجہ جے شنکرکے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا دیکھ کر یاد آیا ہے۔کچھ دل جلے اسے بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کا عنوان بھی دیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آسمان نے کوئی رنگ نہیں بدلا اور نہ ہی وہ رنگ بدلتا ہے، طالبان پہلے بھی ایسے ہی تھے بلکہ ان سے پہلے جو حکمران تھے ‘پاکستان کے بارے میں ان کے جذبات اور خیالات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

اس لیے افغانستان پر ظاہر شاہ کی حاکمیت ہو یا اس کیکزن سردار داؤدکی حکمرانی ہو‘ پاکستان کے لیے نفرت اور عناد ان کی پالیسی کا بنیادی اصول رہا ہے۔ ترکئی ‘حفیظ اللہ امین ‘ببرک کارمل اور نجیب اللہ سے لے کر برہان الدین ربانی اور صبغت اللہ مجددی تک کی حکومتیں ہوں ‘اپنے اپنے اختلافات رکھنے کے باوجود پاکستان کے حوالے سے ان سب کے خیالات ایک جیسے ہی رہے ہیں۔بعد میں طالبان آئے ‘حامد کرزئی آیا ‘اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ آئے اور اب پھر طالبان افغانستان پر قابض ہیں لیکن معاملہ ’’تم بدلے ہو نہ ہم نے خوبدلی ہے کے مصداق ہی چلا آ رہا ہے۔

افغانستان کی طالبان سرکار جو کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے ، اب تو پورا پاکستان جان چکا ہے سوائے ’’مرشد اور ان کے مریدین‘‘ کے۔ حتیٰ کے ’’ چینے مینے ‘‘سوری عوامی جمہوریہ چین بھی پاکستان کے مؤقف کا حامی ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت نے دوحہ معاہدے میں بہت سے عہد وپیماں کیے ہیں لیکن طالبان حکومت تاحال یہ ثابت نہیں کر سکی کہ وہ دوحہ معاہدہ میں کیے گئے تمام معاہدوں پر عملدرآمد کرنے میں سنجیدہ ہے۔

اب وہ خیر سے استنبول میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں ‘قطر اور ترکی ثالث بن چکے ہیں لیکن تاحال مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔مذاکرات کیا ہوتے ہیں؟ سفارتکاری کے آداب اور تقاضے کیا ہوتے ہیں ؟ امور مملکت اور رموز مملکت کی نزاکتیں اور کثافتیں کیسے رنگ دکھاتی ہیں ؟طالبان ان سے ناآشنا ہیں۔ان کی ڈپلومیٹک ٹریننگ ہے ہی نہیں ‘اسی لیے وہ ریاستوں کے امور کو بھی دو جنگجو گروپوں کے درمیان بات چیت کی طرح ہی سمجھتے ہیں۔یہی ان کی سب سے بڑی کمزوری اور کم فہمی ہے۔

جس کی وجہ سے وہ دوحہ معاہدے کو بھی اہمیت نہیں دے رہے اور استنبول میں بیٹھ کر کبھی ایک بات اور کبھی دوسری بات کہہ کر اٹھ جانا معیوب نہیں سمجھتے۔کسی ریاست کے مذاکرات کے وفد کی یہ سب سے بڑی خامی ہوتی ہے کہ اسے اپنے مینڈیٹ کا پتہ نہیں ہوتا‘وہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر بھی اپنے ہینڈلرز اور ماسٹرز مائنڈ کے ساتھ رابطہ کرتا ہے اور ان سے پوچھے بغیر کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا جب کہ جدید اور منظم ریاستوں کے مذاکراتی وفود اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں خود مختار اور حتمی ہوتے ہیں۔وہ جن معاملات پر بات چیت کرنے بیٹھتے ہیں ‘اسے حل کرکے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انھیں سفارتکاری کی تربیت ہی اس کام کے لیے دی جاتی ہے جب کہ طالبان اس وصف سے خالی ہیں۔

ٹی ٹی پی پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کی وارداتیں کر رہی ہے۔ اس کالعدم تنظیم کی قیادت کھلے بندوں افغانستان میں مقیم ہے اور وہاں آزادانہ طور پر نقل وحرکت کر رہی ہے۔ اسی طرح ٹی ٹی پی کے لوگ اور ان کے دہشت گرد بھی افغانستان میں مقیم ہیں اور ان کے تربیتی کیمپ بھی وہاں فعال ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بی ایل اے اور بلوچستان میں سرگرم عمل دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لوگ بھی افغانستان میں آتے اور جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان حقائق کا کابل حکومت کو علم نہ ہو۔ یہی نہیں بلکہ اب تو یہ بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو افغانستان کے دیگر علاقوں میں آباد کرنے کے لیے جو فنڈز طالبان حکومت کو کسی دوست ملک کی طرف سے ملے تھے، وہ بھی اس مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوئے۔

بہرحال اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت اپنی عالمی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ ملحقہ افغانستان کے علاقوں میں ایسے عناصر موجود ہیں جو پاک افغان سرحد پار کر کے پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ یہ صورت حال کسی بھی ملک کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ افغانستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک ذمے دار حکومت کا ثبوت دے۔ دوسروں پر الزام تراشی کر کے اپنی ناکامیوں یا کوتاہیوں کو چھپانا ممکن نہیں رہا ہے۔

افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت افغانستان کے عام عوام کے مینڈیٹ سے برسراقتدار نہیں آئی اور نہ ہی اسے افغانستان میں بسنے والے تمام نسلی، لسانی اور علاقائی قبائل اور گروہوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت افغانستان کے وسائل کو جس انداز میں استعمال کر رہی ہے، یا غیرملکی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو فروخت کر رہی ہے، اس کے حسابات کا آڈٹ بھی نہیں ہوتا۔ اب بھارتی کمپنیاں بھی افغانستان کی معدنیات میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

کسی کو معلوم نہیں ہے کہ یہ معاملات کون طے کرتا ہے اور حتمی منظوری کون دیتا ہے اور اگر کسی نے جانچ پڑتال کرنی ہو تو اس کا کیا طریقہ کار ہے۔کس نے کتنا کمیشن لیا ہے اور افغانستان کے قومی خزانے میں کس شرح سے کتنی رقم جمع کرائی گئی ہے؟اس کے بارے میںسب خاموش ہیں۔ حالات اور قرائن سے یہی لگتا ہے کہ ایک مخصوص گروہ افغانستان کے وسائل کو اپنی مرضی سے اونے پونے داموں غیرملکی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو فروخت کر رہا ہے۔ افغانستان کے عام عوا م کو اس کاروبار سے ہونے والے منافع کا کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔

پاکستان کو کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے سخت مؤقف برقرار رکھنا چاہیے۔اصولاً ٹی ٹی پی والوں کا پاکستان سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ وہ پاکستان کے شہری ہیں، اس کے حوالے سے بھی کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کے پاس جو ثبوت بھی ہوں یا جو کاغذات ہوں وہ جعل سازی سے بنائے گئے ہوں۔ اس لیے ٹی ٹی پی کی قیادت اوراس کے دہشت گردوں کو پاکستانی کہنا بالکل غلط ہے بلکہ پاکستان کے پرامن شہریوں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔وہ افغانستان کے لوگ ہیں جو پاکستانیت کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔

 ٹی ٹی پی والے اگر واقعی پاکستانی ہیں تو افغانستان کے طالبان کو انھیں پاکستان کے حوالے کرنا چاہیے۔ افغانستان کی دوعملی اور دورخی پالیسی کا پردہ فاش ہو چکا ہے۔ پاکستان زیادہ دیر تک اپنے شمال مغربی علاقے میں بدامنی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس حوالے سے پاکستان کو دوٹوک مؤقف اختیار کرنا ہو گا۔پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں افغانستان کی پوزیشن کو ری وزٹ کرنا چاہیے اور تاجکستان، ازبکستان اور آذربائیجان پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان کے اندر بھی تاجک اور ازبک ایک طاقتور گروپ کی شکل میں موجود ہیں۔ افغانستان میں ہزارہ منگول، گجر قبائل اور پامیری وغیرہ بھی بڑے قبائل ہیں۔ان کی اکثریت صوبہ نورستان اور بدخشاں میں ہے۔ ان کے ساتھ بھی پاکستان کی حکومت کو تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔

افغانستان میں نورستان اور واخاں کے علاقے پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان کا افغانستان کے ساتھ نسلی اور ثقافتی یا لسانی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان اگر اپنی اسٹرٹیجی تبدیل کرے تو اس کے لیے شمال مغرب میں بہت سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔واخان کی پٹی اور نورستان تاریخی اور جغرافیائی طور پرجنوبی ایشیا یعنی برصغیر پاک و ہند کا حصہ ہے۔

یہ علاقے 19ویں صدی میں افغانستان کا حصہ بنے‘یہاں کے باشندے بھی خود کو افغان نہیں کہلاتے۔ افغانستان میں برسراقتدار گروہ مسلسل پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرتا چلا آ رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔ پاکستان کی اکانومی کو تباہ کرنے کے لیے سمگلنگ کی پشت پناہی کرتا ہے توایسے میں پاکستان کوبھی حق حاصل ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے اپنی اسٹرٹیجک پالیسی میں شفٹ لائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان میں افغانستان کی افغانستان کے طالبان حکومت پاکستان میں کے حوالے سے پاکستان کے پاکستان کو ان کے ساتھ کر رہی ہے حکومت کو طالبان ا ٹی ٹی پی نہیں ہو کے لیے رہا ہے اور ان ہے اور

پڑھیں:

پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، وزیر دفاع

پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، وزیر دفاع WhatsAppFacebookTwitter 0 3 November, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، پاکستان کے امریکا چین سعودی عرب اور دبئی کے ساتھ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز اسلام آباد کے زیرِ اہتمام سیمینار سے خطاب میں انہوں ںے کہا کہ پاکستان اب عالمی سطح پر ایک قابلِ اعتماد شراکت دار کے طور پر ابھر رہا ہے، سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے شعبوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مثالی قرار دیے جا رہے ہیں، یہ شراکت داری باہمی اعتماد اور سمجھ بوجھ پر مبنی ہے، چین پاکستان کا ہر موسم کا دوست ہے پاکستان اور چین سی پیک فیز تھری پر کام بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وسط ایشیائی ممالک آذربائیجان اور ترکمانستان تک رسائی میں نمایاں بہتری آئی ہے، پاکستان ترکی اور ایران کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنا رہا ہے، پاکستان اسلاموفوبیا کے خلاف ایک مؤثر آواز بن کر ابھرا ہے، پاکستان اصلاحات پر مکمل توجہ دے رہا ہے، پاکستان کی سفارت کاری اعتماد اور استحکام کی عکاسی کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے تعلقات امریکا سے بہتر ہوئے ہیں، ہمارے سفارت کار جو کام کر رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے، خارجہ پالیسی ہماری ترجیح ہے، دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ نریندر مودی نے پاکستان پر اٹیک کرنے کا پلان بنایا اس کے بعد ہم نے فتح حاصل کی، آج ہمیں ڈپلومیسی میں بہتری محسوس کر رہے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ بہت سے سفارت کاروں نے انفرادی طور پر اچھا کام کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایس سی او کانفرنس کے ذریعے علاقائی سطح پر رابطہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان میں لیڈر شپ تبدیل ہو چکی ہے، اب پاکستان کو وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر لیڈ کر رہے ہیں، بہت سے پارٹنر آرہے ہیں اور پاکستان سے تعاون کی بات کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لیڈر شپ کا جذبہ تبدیل ہو چکا ہے، چین کی ٹیکنالوجی کے بارے میں دنیا حیران ہے، دنیا اب تبدیل ہو چکی ہے، پاکستان معرکہ حق کے بعد دنیا کا ماحول تبدیل کر دیا، ہمارے سفارت کار جیو پولیٹیکز کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرگورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے انسداد دہشت گردی عدالت سے علیمہ خان کے ساتویں مرتبہ وارنٹ گرفتاری جاری خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس اسلام آباد پولیس اہلکار تشدد کیس: ملزم عاقب نعیم 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار استنبول پہنچ گئے، غزہ کی صورتحال پر اہم اجلاس میں شریک ہونگے شاہانہ زندگی گزارنے والے ممکنہ ٹیکس چوروں کی نشاندہی کرلی گئی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • چین سے دوستی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے: صدر آصف علی زرداری
  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • افغان وزیر خارجہ کی متعدد کالز آئیں، انہیں بتا یا کہ ان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو، اسحاق ڈار
  • طالبان سے کہا تھا 1 کپ چائے کیلئے آئے ہیں، وہ کپ بہت مہنگا پڑ گیا: اسحاق ڈار
  • فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی‘ خواجہ آصف
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں؛ طالبان کا الزام
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، خواجہ آصف
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، وزیر دفاع