data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250920-01-15

 

 

کراچی (رپورٹ \محمد علی فاروق) مسلم حکمران اپنے مفادات اور امریکی خوف کے باعث اہل غزہ کی مدد سے گریزاں ہیں‘ ہمارے حکمران اپنی مصلحت اور لالچ میں مبتلا ہو کر غزہ کے ہر شہید کے مجرم بن گئے‘ غیر مسلم ممالک نے دوغلی پالیسی اپنا کر اسرائیل کی سرپرستی کی ‘ او آئی سی کے آئین میں دفاعی میکنزم کی گنجائش ہے‘ مسلم حکمرانوں کی یورپ، امریکا میںجائدادیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کی رہنما ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، سابق سفیر ماہر تجزیہ کار ڈاکٹر جمیل احمد خان اور بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’امت مسلمہ غزہ کے مظلوموں کی مدد کرنے میں کیوں ناکام ہے؟ ‘‘ سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ جہاں ایک طرف اہلِ غزہ کے شیر دل بے خوف کھڑے ہیں، وہاں یہ مسلم ظالم حکمران اپنی مصلحت اور لالچ کی بیماری میں مبتلا ہیں، یہی گروہ غزہ کے ہر شہید کا اصل مجرم ہے‘ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ ہمیشہ اہلِ دل پر اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت نازل ہوئی ہے‘ بے شک بہت جلد اللہ تعالیٰ اہلِ غزہ کے لیے امتِ مسلمہ میں ایک طاقتور، منظم اور پرامن بیداری کی لہر پیدا کرے گا جو ستم کی دیواروں کو گرا کر عدل کا سورج طلوع کرے گی‘ ان شاء اللہ۔میری دعا ہے کہ ہم بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہوں جن کے دلوں میں جرأت، ہاتھوں میں طاقت اور نیت میں فدائی جذبہ ہو تاکہ ہم مظلوموں کے حوصلے بڑھا سکیں، ان کی آواز بن سکیں اور انسانیت کے حق میں سچ کا ساتھ دے سکیں۔  ڈاکٹر جمیل احمد خان نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اپنے چارٹر کے تحت اقدام کی پابند ہے مگر عملاً مفلوج ہے‘ اس بے عملی کی جڑیں مسلم دنیا کی سیاسی خود غرضی، معاشی مفادات، داخلی اختلافات اور مغربی اثر و رسوخ  میں پیوست ہیں‘ مسلم ممالک کے حکمران فلسطین جیسے کاز کو اجتماعی بنیاد پر آگے بڑھانے کے بجائے اپنی قومی ترجیحات اور اقتدار کے تحفظ کو مقدم رکھتے ہیں‘ اکثر ہمارے حکمرانوں کی دولت اور سرمایہ مغربی ممالک میں موجود ہے، جو انہیں اسرائیل کے خلاف مضبوط موقف اپنانے سے روکتی ہے‘ یہی خودغرضی مسلم دنیا کے مشترکہ ردعمل کو سبوتاژ کرتی ہے‘ 10 ستمبر 2025ء کو اسرائیل کا دوحا پر حملہ صرف قطر کی خودمختاری پر نہیں بلکہ پورے خطے پر جارحیت کا پیغام تھا مگر او آئی سی اور مسلم ممالک مذمت کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکے‘ ماضی میں صدام حسین اور معمر قذافی جیسے رہنماؤں کی ہلاکت پر بھی مسلم امہ نے کوئی اجتماعی قدم نہیں اٹھایا تاکہ مغربی طاقتیں ناراض نہ ہوں‘ یہی طرزِ عمل آج بھی دہرایا جا رہا ہے‘ او آئی سی کی شق 7 میں اجتماعی دفاعی میکنزم کی گنجائش موجود ہے لیکن عملی طور پر کوئی ناٹو جیسا ڈھانچا تشکیل نہیں دیا گیا۔ نتیجتاً اسرائیل اور اس کے سرپرست ممالک کے سامنے مسلم امہ کے اکابرین ڈرے ڈرے سہمے سہمے اور بس ثابت ہوئے ‘ یہ حکمران سمجھتے ہیں کہ مغربی طاقتوں کا اثر و رسوخ ان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ صورتحال کو پیچید ہ بھی بنا دیتا ہے‘ کئی مسلم ممالک نے مغربی امداد اور دفاعی تعاون پر انحصار کر رکھا ہے، جس کے باعث فلسطین کی حمایت جوکہ او آئی سی کے چارٹر میں موجود ہے‘ ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیلی جارحیت پر مسلم دنیا کچھ نہ کر سکی‘ اسرائیل کا گریٹر اسرائیل منصوبہ  نہ صرف فلسطین بلکہ خطے کے دیگر مسلم ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔ تاہم جب تک مسلم دنیا اندرونی انتشار کا شکار ہے اور ذاتی مفادات اجتماعی ذمہ داری پر غالب ہیں، تب تک فلسطینی عوام اور دیگر مسلم ریاستیں غیر محفوظ رہیں گی۔  ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ اسرائیل و فلسطین کے تصادم کی پیچیدہ تاریخ اور غزہ کے موجودہ المیے کی وجہ سے امتِ مسلمہ کی کردار کشی کرنا آسان نہیں‘ اسرائیل نے جون 1967ء کی جنگ میں غزہ پر قبضہ کیا اور 2005ء یا 2006ء میں وہاں سے بظاہر انخلا تو کر لیا، مگر غزہ کی سرحدوں پر اپنی گرفت قائم رکھی‘ میری نظر میں ناکامی کے بنیادی 3 اسباب ہیں‘ اندرونی تقسیم، علاقائی جغرافیائی و سیاسی مفادات اور بین الاقوامی طاقتوں کا دباؤ۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلا سبب اندرونی تقسیم ہے‘ 2006ء کے انتخابات کے بعد فلسطینی قیادت 2 حصوں میں منقسم ہو چکا ہے‘ غزہ میں حماس کی برتری اور ویسٹ بینک میں پی ایل او کی انفرادیت۔ اس تقسیم نے نہ صرف فلسطینی موقف کو منتشر کیا بلکہ دنیا کے سامنے فلسطینیوں کی مشترکہ آواز کو بھی ختم کر دیا‘ جب خود مظلوم قوم اپنے اندر متحد نہیں تو عالمِ اسلام کا یکجہتی دکھانا بھی مشکل ہوگیا ہے‘ یہی داخلی شگاف اسرائیل کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ دوسرا سبب علاقائی ریاستوں کا رخ اور عملی ناپسندیدگی ہے‘ مصر، سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستیں بظاہر فلسطینی معاملے سے جذباتی ہم دردی رکھتی ہیں مگر عملی سطح پر وہ اسرائیلی اور امریکی مفادات کے سامنے محتاط اور سہمی ہوئے نظر آتے ہیں۔ 2020ء کے ابراہیم معاہدے نے کئی عرب ممالک کو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی راہ دکھائی، اور اس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ بعض عرب ریاستیں فلسطینی مطالبات کو ثانوی محل رکھ کر خود اپنے جغرافیائی و اقتصادی مفادات کو مقدم کر چکی ہیں‘  امریکا اور اسرائیل سے خوف، سیاسی بصیرت کی کمی اور علاقائی قیادت میں نااہلی نے عرب دنیا کی عملی صلاحیت کو متاثر کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب غزہ کو شدید حملوں اور محاصرے کا سامنا ہوا تو مؤثر عربی مداخلت نہ ہونے کے برابر رہی۔ تیسرا سبب بین الاقوامی میدان ہے، عالمی طاقتوں کی سیاست اور یورپی و امریکی مفادات۔ اگرچہ یورپ کی عوامی سطح پر ہمدردی اور کچھ امدادی اقدامات دیکھنے میں آئے ، مثلاً امدادی قافلے اور عوامی دبائو مگر ریاستی سطح پر مغرب کا رویہ متزلزل اور دو رخا رہا۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں، بعض اوقات محض اظہارِ مذمت تک محدود رہیں، جبکہ امریکا کی سفارتی و عسکری حمایت اسرائیل کے لیے ایک بڑی پشت پناہی بنی رہی‘ جب تک عالمی سطح پر عملی دباؤ، اقتصادی پابندیاں یا چھوٹے پیمانے پر بھی مضبوط سیاسی اقدامات نہیں ہوں گے، تب تک اسرائیل پر ایسا دبائو پیدا نہیں ہوگا جو اس کی پالیسیوں کو موثر طور پر بدل دے۔ حماس کی کارروائیوں اور اس کی حکمتِ عملی پر بھی تنقیدی نظر ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے سوال اٹھایا کہ 2023ء کے بعد حماس نے جو عسکری اقدام کیے، کیا وہ اس وقت فائدہ مند یا حکمتِ عملی کے لحاظ سے مناسب تھے، خاص طور پر جب عرب ریاستیں عملی حمایت کے لیے تیار نہیں تھیں؟ ان اقدامات نے فلسطینی عوام کو بھاری نقصان پہنچایا اور عالمی مبصرین میں یہ تاثر بیدار ہوا کہ عسکری کارروائیاں بغیر متبادل سیاسی حکمتِ عمل کے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں‘ امتِ مسلمہ کی ناکامی محض غفلت یا بے حسی نہیں یہ ساختی، سیاسی اور بین الاقوامی پیچیدگیوں کا مجموعہ ہے۔ فلسطینیوں کی اپنی تقسیم، عرب ریاستوں کی داخلی و بیرونی پالیسی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کی جغرافیائی سیاست نے مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں موثر، متحد اور طویل المدتی مدد ممکن نہیں ہو رہی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی مسلم ممالک مسلم دنیا او ا ئی سی اور اس کے لیے غزہ کے

پڑھیں:

27 ویں ترمیم منظوری، حکمران اتحاد کے ارکان کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت

حکمران اتحاد نے 27ویں آئینی ترمیم کے منظوری تک تمام ارکان پارلیمنٹ کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کردی۔

پارلیمانی ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکان کو دارالحکومت میں رہنے کا کہہ دیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے بغیر کوئی بھی ترمیم نہیں ہوسکتی، طلال چوہدری

وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بغیر کوئی بھی ترمیم نہیں ہوسکتی ہے۔

ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کا بل پہلے پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پارلیمانی ذرائع کے مطابق آئینی ترمیم کا مجوزہ بل جمعہ کے روز سینٹ میں پیش کیا جائے گا، پیش ہونے کے بعد قائمہ کمیٹی بھجوادیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی میں 27ویں آئینی ترمیم کا بل آئندہ ہفتے پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

یاد رہے کہ حکمران اتحاد میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی)، مسلم لیگ (ق)، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور دیگر پارٹیاں شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں ترمیم منظوری، اتحادی ارکان کو اسلام آباد میں رہیں،حکومت
  • 27ویں آئینی ترمیم کا معاملہ ،حکمران اتحاد نے ارکان پارلیمنٹ کو اہم ہدایت کردی
  • 27 ویں ترمیم منظوری، حکمران اتحاد کے ارکان کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت
  • شمالی کوریا: حکمران خاندان کے وفادار سابق علامتی سربراہِ مملکت انتقال کر گئے
  • فلسطینیوں کو اپنے معاملات خود طے کرنے چاہئیں، حکان فیدان
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
  • غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع
  • کینیڈا اور فلپائن کا دفاعی معاہدہ، چین کو روکنے کی نئی حکمتِ عملی
  • غزہ کیلیے امریکی منصوبے کی حمایت میں مسلم ممالک کا اجلاس کل ہوگا